اپوزیشن جماعتیں پانامہ پر ٹف ٹائم دینے کو تیار

اپوزیشن جماعتیں پانامہ پر ٹف ٹائم دینے کو تیار
طاہر یاسین طاہر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمرا ن خان نے کہا ہے کہ پانامہ ایشو پر اگر عدالتوں سے انصاف نہ ملا تو وہ فائنل راونڈ کے لیے ایک بار پھر سڑکوں پر ہوں گے۔پی ٹی آئی کے چیئر مین کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نیب،پولیس اور تمام اہم ادارے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے تباہ کر دیے ہیں،میں مرتے دم تک کرپٹ مافیا کا مقابلہ کرتا رہوں گا۔صوابی میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس اور دولت کی ٹرانزکشن کے حوالے سے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے بیانات میں واضح تضاد ہے، انھوں نے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ مریم بی بی طوفان کہاں چلا گیا؟ابھی تو پانامہ کیس عدالت میں ہے۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ سی پیک پر ہمارا اختلاف چین سے نہیں،بلکہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہے۔پسماندہ علاقوں کو بھی منصوبے میں شامل کیا جانا چاہیے۔
دریں اثنا کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر سے ،قاف لیگ کے صدر چوھدری شجاعت حسین نے ملاقات کی۔اس ملاقات میں دونوں رہنماوں نے اپوزیشن گرینڈ الائنس بنانے پر اتفاق کیا اورا س بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پانامہ سکینڈل پر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا۔سابق صدر کا کہنا تھا کہ حکومت گرانا ہمارا ایجنڈا نہیں، ہماری مفاہمت جمہوریت کے ساتھ ہے نون لیگ کے ساتھ نہیں۔ہمارے چار مطالبات پر بات محترمہ کی برسی پر ہوگی،قوم کو سرپرائز دوں گا۔جبکہ قاف لیگ کے صدر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اتحاد ہی ملک بچا سکتا ہے،انھوں نے یہ بھی کہا کہ آصف علی زرداری گھبرانے والے نہیں۔یاد رہے کہ حکومت کی اہم اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ عمران خان تضادات کا مجموعہ ہیں۔عدالت سے اسمبلی،اور اسمبلی سے پھر عدالت چلے جاتے ہیں۔جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس پورے دربار کے گلے کا طوق ہے۔
اس امر میں کلام نہیں کہ ملک میں اس وقت کرپشن اور اقربا پروری عروج پہ ہے،یہ مگر صرف موجودہ حکومت کا ہی رویہ نہیں بلکہ ہماری ملکی سیاسی تاریخ اس بدنامی کی سیاہی سے داغ دار ہے۔دیکھا جائے تو جب سے نون لیگ کی حکومت بنی ہے،مختلف ایشوز پر پی ٹی آئی ہی حقیقی اپوزیشن کرتی نظر آرہی ہے۔ اگرچہ ایوان میں پیپلز پارٹی عددی برتری اور اپنا اپوزیشن لیڈر بھی رکھتی ہے جسے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا ووٹ حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی جمہوریت بچانے کے نام پر کئی مواقع پر مفاہمتی سیاست بھی کرتی آ رہی ہے جس کا بعض حلقوں اور پیپلز پارٹی کے پرانے کارکنوں کوملال بھی ہے۔انتخابات میں دھاندلی کا الزام پیپلز پارٹی نے بھی لگایا اور پی ٹی آئی نے بھی، مگر اس حوالے سے سیاسی جد و جہد صرف پی ٹی آئی کی نظر آتی ہے، حتی کہ لانگ مارچ اور طویل دھرنا بھی پی ٹی آئی کی جانب سے دیا گیا۔اس طویل دھرنے میں پیپلز پارٹی نے نون لیگ کا جمہوریت کے نام پر ساتھ دیا اور حکومت کو گرنے سے بچایا۔عمران خان کی جماعت نے شروع دن سے ہی نون لیگ کو ٹف ٹائم دیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کا بڑا واضح موقف ہے کہ کرپشن کے نام پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا باہم اتحاد ہے۔
پانامہ لیکس کے ایشو،اور بالخصوص کراچی میں ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے بھی سیاسی کروٹ لینے کا فیصلہ کیا اور بلاول بھٹو جارحانہ انداز میں سیاست کرتے ہوئے،وزیر داخلہ اور وفاقی و پنجاب کی صوبائی حکومت پر حملہ آور ہوئے۔زرداری کی وطن واپسی سے قبل بلاول بھٹو نے جس طرح کی اپوزیشن سیاست کی اس سے اندازہ ہونے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ اس کا مقابلہ اب نون لیگ اور پی ٹی آئی،دو بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے۔پیپلز پارٹی کب تک بھٹو اور بی بی کے نام پر ووٹ حاصل کرتی رہے گی؟ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بھی اس حوالے سے مشاورت کی ہو گی اور پانامہ لیکس پر پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کے سامنے اپنے چار مطالبات پیش کر دیے۔ان مطالبات کو تسلیم کرنے ے لیے شہید بے نظیر بھٹو کی برسی تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جو کہ قریب قریب ختم ہو چکی ہے۔ایسے مرحلے پر امید ہے کہ پیپلز پارٹی قاف لیگ کے ساتھ مل کر ایک بڑے اپوزیشن اتحاد پر کام کرے گی اور اسمبلی کے اندر وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے گا، جبکہ یہی گرینڈ اپوزیشن اتحاد عمران خان کے ساتھ مل کر اسمبلی کے باہر بھی سڑکوں پر نون لیگ کو ناکوں چنے چبوانے کو تیار نظر آتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کرپشن،اقربا پروری اور لوٹ مار کا خاتمہ کر کے ہی ہم عالمی برادری میں باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے مگر نمائشی اور اقتدار کے حصول کے لیے اپوزیشن کرنے کے بجائے نیک نیتی سے سیاسی قیادت یہ عہد کرے کہ ہر قسم کی کرپشن کی قومی سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے گی اور ملکی ترقی کے لیے تمام وسائل دیانت داری سے بروئے کار لائے جائیں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply