وزیر داخلہ کی اہم ترین پریس کانفرنس اور سیاسی حرکیات

وزیر داخلہ کی اہم ترین پریس کانفرنس اور سیاسی حرکیات
طاہر یاسین طاہر
وفاقی وزیر داخلہ چوھدری نثار علی خان اپنے طرز سیاست اور معاملہ فہمی کے باعث نہ صرف مسلم لیگ نون بلکہ سیاست کے سنجیدہ حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ امر بھی واقعی ہے کہ وہ انا پرست اور ادلے کا بدلہ والی سیاست کرنے میں مشہور ہیں۔ان کا طویل سیاسی سفر البتہ دائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہے اور مسلم لیگ کے سیاسی سفر میں وہ مسلم لیگ کے ہم رکاب ہیں۔2013 کے انتخابات کے دوران میں وزیر داخلہ ٹیکسلا اور این اے باون کے حلقہ کلر سیداں سے ایم این اے کے امیدوار تھے۔جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست غالباً پی پی 6 سے صوبائی نشست پہ بھی انھوں نے الیکشن لڑا تھا۔اپنی انتخابی مہم کے دوران میں البتہ چوھدری نثار علی خان بار بار یہ کہتے رہے کہ یہ میرا آخری الیکشن ہے۔کارنر میٹنگز اور اپنےسیاسی رفقا سے چوھدری نثار علی خان برملا یہ کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرز پہ اگر میاں نواز شریف صاحب نے حکمرانی کی تو میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو اسمبلی سے استعفیٰ دے دوں گا۔یہ امر بھی واقعی ہے کہ چوھدری نثار علی خان کو شہباز شریف گروپ کا بندہ سمجھا جاتا ہے اور دونوں کی باہم گہری دوستی ہے۔ دونوں نے کئی بار گہرے ہوتے سائے میں پنڈی والے طاقت کے اہم مرکز میں آرمی چیف سے ملاقاتیں بھی کیں۔چوھدری نثار علی خان سے یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ آپ کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنا یا جائے گا۔ اس دعوے کے حق میں دلیل یہ ہے کہ موصوف صوبائی اسمبلی کے بھی امیدوار تھے،مگر بوجہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مسلم لیگ نون کی حکومت بنی تو اس پہ پہلا اعتراض ہی یہی تھا کہ یہ آر ،اوز ،کی حکومت ہے،اس انتخاب میں دھاندلی ہوئی،اور دانستہ بعض اہم حلقوں کے رزلٹ لیٹ کیے گئے۔ جن حلقوں کے نتائج دو سے تین دن بعد آئے ان میں چوھدری نثار علی خان کا حلقہ این اے باون بھی شامل تھا۔وزارت داخلہ کا منصب سنبھالنے کے بعد چوھدری نثار علی خان کئی بار روٹھے، کئی بار منا لیے گئے۔میاں نواز شریف صاحب کے اہم ترین ساتھیوں خواجہ آصف اور اسحاق ڈار سے وزیر داخلہ کی بول چال تک بند ہے۔میڈیا اور دیگر حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتا کہ اہم مواقع پہ وزیر داخلہ غائب کیوں ہو جاتے ہیں۔پی ٹی آئی کے دھرنے کا الزام بھی وزیر داخلہ کو دیا جاتا ہے، کہ انھوں نے سب اچھا ہو جائے گا ،کہہ کر حکومت کوبہت تکلیف دہ مراحل سے گزارا تھا۔ البتہ اپنی اہمیت،اور حد سے زیادہ توجہ کے طالب چوھدری نثار علی خان اس بار وزیر اعظم سےکچھ زیادہ حاصل نہ کر پائے۔شنید ہے کہ پانامہ لیکس کیس پہ انھوں نے وزیر اعظم کو پالیسی دی تھی کہ اس پالیسی پہ اپنا اور خاندان کا دفاع کریں، مگر وزیر اعظم صاحب نے دیگر معاونین کی پالیسی کو ترجیح دی، اس بات کا چوھدری نثار علی خان کو دکھ ہوا کہ ان کی بات نہ مان کر وزیر اعظم اور ان کی جماعت مشکل میں پھنس گئی ہے۔کابینہ کے ایک اجلاس میں جب وفاقی کابینہ کے اراکین وزیر اعظم صاحب کی خوشامد کرنے میں لگے ہوئے تھے تو چودھری نثار علی خان نے اس اجلاس میں کہا ، کہ وزیر اعظم صاحب کو ملک میں خوشامد پر پابندی عائد کر دینی چاہیے اور اس پابندی کا آغاز وفاقی کابینہ سے کیا جائے۔
یہ امر بھی واقعی ہے کہ جے آئی ٹی میں جب وزیر اعظم پیش ہوئے تو چوھدری نثار علی خان وزیر اعظم کی گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ سیاست میں مگر ہر مرحلے پر معاملات اور مفادات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔وفاقی کابینہ کے انتہائی اہم مشاورتی اجلاسوں میں وزیر داخلہ کو مدعو نہیں کیا جاتا رہا،بالخصوص گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے، جس کا اظہار انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا۔انھوں نے تین بار پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا مگر بعد میں وزرات داخلہ کے ترجمان انکی بیماری کا کہہ کر میڈیا کو نئی تاریخ دے دیتے۔جس دن لاہور میں دھماکہ ہوا، اس دن وزیر داخلہ نے پنجاب ہاوس میں پریس کانفرنس کی، مگر اپنا غصہ نہ اتار سکے۔
آج وہ دوبارہ میڈیا کے سامنے آئے اور اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ پانامہ کا فیصلہ آنے کے بعد وہ اسمبلی اور وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔انھوں نے اپنی جماعت سے شکوے بھی کیے ،اور اپنی سیاسی جد و جہد کا ذکر بھی کیا۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر چوھدری نثار علی خان جیسا جہاندیدہ اور سیاست کے رموز سمجھنے والا وزیر ،اسمبلی ،اپنی جماعت اور وزارت سے استعفیٰ دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ نون لیگ کے حصے بخرے ہونےو الے ہیں۔ممکن ہے کوئی نیا سیٹ اپ آ جائے جیسا کہ بعض تجزیہ کار سوچتے ہیں،مگر کیا چوھدری نثار علی خان نئے کسی حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے؟ اس وقت میرا خیال ہے کہ نہیں۔اب چوھدری نثار مزید انتخابی سیاست نہیں کریں گےاور اپنے ریڈ پاسپورٹ کے ساتھ اسی امریکہ جا بسیں گے جہان ان کی فیملی رہتی ہے۔اب تک کا منظر نامہ تو یہی ظاہر کرتا ہے۔دیکھتے ہیں کہ سیاسی منظر نامے پہ آئندہ کیا طلوع ہوتا ہے اور کیاغروب۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply