• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پاکستانی اور افغانی طالبان الگ الگ شناخت کے مالک ہیں؟ایک مغالطہ

کیا پاکستانی اور افغانی طالبان الگ الگ شناخت کے مالک ہیں؟ایک مغالطہ

ہمارے رائٹسٹ یا اسلامسٹ کافی عرصے سے اِس بات کی تشہیر کرتے رہے ہیں کہ طالبان ایک انصاف پسند، امن قائم کرنے والے، انسان دوست اور اسلام کے اصولوں پر چلنے والا ایک گروہ یا جماعت ہے۔ اِن کا کبھی معصوم لوگوں کے قتل عام میں کوئی حصہ نہیں رہا اور انہوں نےایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔

جب پاکستانی طالبان کا وجود 1997 میں اورکزئی ایجنسی میں ملا عبدالرحیم کے ذریعے عمل میں لایا گیا تو ان کے بارے میں بھی اس قسم کا پرچار کیا گیا، لیکن جب اس گروہ نے پاکستانی معصوم عوام کا قتل عام شروع کیا، تو ان کے چاہنے والے مجبور ہو گئے کہ ان کو کسی طرح سے افغان طالبان سے ایک علیحدہ شناخت دی جائے اور اس طرح ان کو نیا نام خارجی اور تکفیری کا دے دیا گیا۔

اے آر وائی چینل کے مشہور صحافی فیض اللہ خان 2014 میں اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران پاکستان کی سرحد عبور کر کے افغانستان گئے جہاں ان کو پاکستانی جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا گیا اور انہوں نے تقریباً چھ ماہ افغان جیل میں گزارے۔ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنی آپ بیتی ایک کتاب "ڈیورنڈ لائن کا قیدی" کی شکل میں پیش کی۔ اس دوران انہوں نے مختلف پاکستانی اور افغانی طالبان سے انٹرویوز بھی کیے۔ آئیے ہم اس مغالطے کو اُن کے تجربات کی روشنی میں جو انہوں نے جیل میں طالبان کے ساتھ رہ کر حاصل کیے، سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اُن کی کتاب کا نچوڑ ہمیں ان پوائنٹس میں ملتا ہے۔

1. افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان ملا عمر کو امیر المومنین ماننے کی وجہ سے اتفاق ہے۔
2. لیکن یہ معاملہ ملا عمر کے انتقال کے بعد تقریباً ختم ہو چکا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمت عملی کے تحت ڈیورنڈ لائن کے اطراف میں موجودہ طالبان نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ ایک دوسرے سے رسمی رابطہ بھی نہ رکھا جائے۔
3. دونوں گروہ جمہوری نظام کو کفر کا نظام سمجھتے ہیں۔
4. دونوں کا ماننا ہے کہ اسلامی نظام (اِن کے فکرِ اسلام اور فقہ کے مطابق) دونوں ملکوں میں ہونا چاہیے۔
5. اِن میں آپس میں خفیہ روابط بھی تھے، اور کافی معاملات میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی طالبان کی قیادت کو خطوط تحریر کیے گئے۔
6. افغان طالبان نے بجائے پاکستانی طالبان کی دہشتگردی کی مذمت کرنے کے، صرف اتنا کہا کہ پاکستانی طالبان نے اُس راستے کو اختیار کیا جو انہوں نے دُرست سمجھا، اور ہم نے وہ راستہ اختیار کیا جس کو ہم دُرست جانتے ہیں۔
7. وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک اور ان سے منسلک افغانی طالبان کے لوگ ، پاکستانی طالبان کے علاقے میں رہتے رہے ہیں۔
8. دونوں کے درمیان ہر قسم کا تعاون بھی موجود ہے اور ان کو افغان طالبان کی جانب سے مختلف معاملات پر ہدایات اور نصیحتیں بھی جاری ہوتی رہتی ہیں۔
9. جیل میں جس طرح پاکستانی اور افغانی طالبان گھل مل کر رہتے ہیں۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان کس قسم کے تعلقات ہوں گے۔
10. حسبِ ضرورت دونوں طرف کے طالبان ایک دوسرے کے علاقوں میں پناہ لیتے رہتے ہیں۔
11. افغان طالبان نے کبھی کھلے عام نہ تو تعلق کو تسلیم کیا اور نہ کبھی اُن سے براءت کا اظہار کیا۔
12. اس سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ اندرون خانہ ان کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ بہترین ہیں۔
13. افغان طالبان جیل میں نہ صرف اپنے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ پاکستانی طالبان کے لیے بھی ماہانہ خرچہ پانچ ہزار بھیجتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے لیے کمبل، کپڑوں، جوتوں اور جیکٹ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
14. پاکستانی طالبان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو افغان طالبان کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔
15. انہوں نے اپنی پاکستانی شاخ افغان طالبان سے متاثر ہو کر بنائی۔

اس مغالطے کو ایک اور زاویہ سے بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1. پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 2001- 2016 کے درمیان تقریباً گیارہ ہزار دہشتگرد/خودکش دھماکوں کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ جن میں تقریباً ساٹھ ہزار پاکستانی اپنی جان سے گئے۔ ان میں پچاس ہزار سویلین، پچاس جرنلسٹ اور چھ ہزار کے قریب ہماری فوج کے لوگ مارے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق ان دھماکوں سے پاکستان کی اکانومی کو تقریباً ستر بلین یوایس ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ فگر طالبان کےدہشتگرد دھماکوں کی ہے۔
2. افغانستان میں ایک اندازے کے مطابق 2007-2015 کے درمیان تقریباً چھبیس ہزار معصوم سویلین مارے گئے۔ یہ فگر طالبان کےدہشتگرد دھماکوں کی ہے۔
3. ایچ ار سی پی کی رپورٹ کے مطابق اصل فگر کوئی دس گنا زیادہ ہے۔
4. اوپر دیے گئے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے طالبان نے بےدردی سے عام معصوم انسانوں کا کھلے عام قتل و غارت کیا ہے۔

آئیے ذرا دونوں طرف کے طالبان جس امن کے مذہب ، اللہ کی آخری کتاب قران اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، ان کے فرمان سے طالبان کی فکر اور سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی طالبان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں؟

قرآن کی کچھ آیات:
1. ’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘ 5:32
2. "اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے" 2:114۔
3. ’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا"۔ النسا 4:93۔
4. "بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے"۔ 85:10۔
5. ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے"۔ 195:2-

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کچھ روایات :
1. ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘ ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932۔
2. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کو طلب کرکے دریافت فرمایا: تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی۔ چند صحابہ کرام کا نام لے کر بتایا کہ اس نے فلاں فلاں کو شہید کیا تھا۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فورًا کہا: لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا: جی حضور! فرمایا: جب روزِ قیامت لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے لئے استغفار کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: جب روزِ قیامت لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟‘‘ مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال: لَا إِله إلا اﷲ، 1: 97، رقم: 94-97۔
3. ’’یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر (میدان جنگ میں) کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے: اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ (میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کر سکتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اس کو قتل نہیں کر سکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس درجہ پر ہوگا جس پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حق پر) اور تم اس درجہ پر ہوگے جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا (یعنی کفر پر)۔‘‘ بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدراً، 4: 1474، الرقم: 3794۔
4. ’’جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا: آیِسٌ مِنْ رَحْمَۃِ اﷲِ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص)۔‘‘ ۔ ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلمًا، 2: 874، رقم: 2620۔
5. رسول پاک نے فرمایا۔تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔ بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6: 2594، رقم: 6668

اب ہم اپنا مغالطہ اِن سوالوں سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال نمبر ایک:
جس مذہب میں جنگ کے دوران ایک درخت کاٹنے کی ممانعت ہو، کیا اس مذہب کے ماننے والے اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے ذریعے معصوم لوگوں کا قتل عام کر سکتے ہیں؟
سوال نمبر دو:
کیا اس میں اب بھی کوئی شک ہے کہ دونوں طرف کے دہشتگردوں کا نام، نظریہ، فکر اور طریقہ کار ایک جیسا ہے۔ ان میں فرق صرف علاقے کا ہے۔
سوال نمبر تین:
یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ چونکہ امریکہ نے طالبان سے جنگ کرکے کابل کی حکومت چھینی اور افغان عوام کے حوالے کی، اس لیے یہ جنگ کفر اور اسلام کی جنگ ہے، میرا ان سے سوال ہے کہ کیا طالبان نے کسی الیکشن سے حکومت حاصل کی تھی؟ انہوں نے بھی ایک پڑوسی ملک کے ٹینکوں پر بیٹھ کر، باقاعدہ جنگ کر کے حکومت چھینی تھی، تو کسی اور نے چھین کر افغان عوام کے حوالے کر دی تو اتنا شور کیوں؟
سوال نمبر چار:
برنیٹ روبن نے اپنی کتاب میں افغان الیکشن کے بارے میں کچھ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
پہلے الیکشن میں تقریباً پینسٹھ لاکھ افغانوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔ ان میں اکتالیس فیصد عورتیں تھیں۔ اشرف غنی کے الیکشن میں کوئی تریپن فیصد افغانیوں نے ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ افغان عوام کس کے ساتھ ہیں؟ طالبان کے جو پڑوسی ملک کے ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے تھے یا الیکشن کے ذریعے حکومت میں آنے والوں کے ساتھ؟
سوال نمبر پانچ:
اگر سرحد کے اِس پار پاکستان میں کوئی معصوم بچہ، عورت یا بوڑھا مارا جائے تو دہشت گردی اور سرحد کے اٗس پار افغانستان میں کوئی معصوم انسان مارا جائے تو فدائی حملہ، کیا افغانی انسان نہیں ہیں؟ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟
سوال نمبر چھ:
جو مذہب امن و شانتی کی علامت ہے۔ کیا اس مذہب کو دہشت گردی کا پیش لفظ بنانے کا عمل ٹھیک ہے؟
سوال نمبر سات:
جن دو لفظوں کو سُن کر سکون آتا تھا، اب اگر کوئی اللہ اکبر کہہ دے تو لوگ دہشت سے بھاگنے لگتے ہیں۔ کیا جس اللہ کو یہ مانتے ہیں، اس کے نزدیک یہ عمل پسندیدہ قرار پائے گا؟
سوال نمبر آٹھ:
کیا عام شہریوں کی لاشوں پر اسلامی انقلاب کی عمارت استوار کی جاسکتی ہے؟
سوال نمبر نو:
کیا دہشت گردی کا راستہ اختیار کر کے عام مسلمان جو اسلامی انقلاب کی تلاش میں سرگرداں ہے، اُسے مذہب سے ہی متنفر نہیں کر دیا گیا؟ ہماری نسل کے بیشمار لوگ اس راہ پر چلے۔ کچھ مایوس ہو گئے اور کچھ آج بھی یہ خواب دل میں سجائے ایک یوٹوپین دنیا میں جی رہے ہیں۔ کیا کچھ لوگوں کی مذہب سے مایوسی کی وجہ یہ دہشت گردی نہیں ہے؟
سوال نمبر دس:
ایک پوری مسلمان نسل کو بجائے اس کے کہ وہ تعلیم کی طرف توجہ دیتے، ان کو دہشت گردی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہے؟

ہم یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان پر ختم کرتے ہیں:

اے صحابہ تمہاری نمازیں اِن کی نمازوں کے آگے کم ہوں گی
اور تمہارے روزے ان کے روزوں کے آگے کم ہوں گے
یہ لوگ بہت زیادہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا
یہ لوگ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہونگے جیسے تیر شکار سے پار ہو کر نکل جاتا ہے۔
بحوالہ کتاب ۔مُسلم شریف ۔

اب اگر آپ کسی بھی تعصب کے بغیر یہ مضمون پڑھیں تو آپ کو معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں آسانی ہو گی اور اوپر پوچھے گئے سوالوں کے جواب، ایک صحافی کے ذاتی تجربے، اعداد و شمار، قرآن اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات سے ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔

یہ مضمون مندرجہ ذیل کتابوں اور اداروں کے سروے کی مدد سے لکھا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈیورنڈ لائن کا قیدی ۔ فیض اللہ خان
خونِ مسلم کی حرمت۔ ڈاکٹر طاہر القادری
اسلامی انقلاب کا سراب۔ مجاہد حسین
ایچ آر سی پی رپورٹ
ایس اے ٹی پی رپورٹ
گروپ اف انٹرنیشنل فزیشن آرگنایزیشن
باڈی کاونٹ کیژ ولیٹیز فیگرز اف ٹین ییرز اف وار ان ٹیرر
افغانستان ۔ان سرٹین ٹرانزیشن فرام ٹرمویل ٹو نارملیسی : برنیٹ رُوبن

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply