• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عوام جائیں تو کدھر جائیں۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

عوام جائیں تو کدھر جائیں۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

اگر ہم پچھلے چند ماہ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ملک میں داخلی اور خارجی سطح پر بحرانوں کا ایک تسلسل نظر آتا ہے۔ اگر خارجی سطح پر دیکھیں تو حال ہی میں ہونے والی کوالالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شرکت کی وجہ سے حکومت پاکستان کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر بارڈر کی صورتحال دیکھیں تو ایک اور بحران کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے جب بھارت نے پلوامہ حملہ کی وجہ سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے، پھر پاکستان میں در اندازی کی ،جس کا پاک افواج نے منہ توڑ جواب دیا۔ اس کے بعد ماہِ  اگست میں بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔

بعدازاں کچھ عرصہ قبل بھارت نے متنازعہ شہریت بِل پاس کیا، جس سے پورے بھارت کے اندر فسادات پھوٹ پڑے اور روزانہ کئی افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ بھارت اپنی خفت مٹانے اور ملکی مسائل سے اپنی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے سرحدوں پر تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ دن سے بھی بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوج کو الرٹ کیا ہوا ہے اور وقتاً فوقتاً جھڑپیں جاری ہیں۔

اگر اندرونی بحران دیکھیں تو یہ سلسلہ چیف آف آرمی  سٹاف کی مدت ملازمت کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے شروع ہوا۔ اس کے بعد حکومتی وزراء اور اپوزیشن کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ اس کے بعد وکلاء کا ڈاکٹرز کیساتھ تنازع کا بحران شدت اختیار کر گیا۔ بعدازاں سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے مشرف کو سزائے موت سنائی  ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ملکی اداروں کے درمیان ایک شدید قسم کا تناؤ ہے۔ اگرچہ ملک میں جمہوریت دیگر جمہوری ممالک کی طرح ابھی مستحکم نہیں ہو پائی لیکن ہم اس ساری صورتحال کو اداروں کے درمیان ٹکراؤ ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کر رہا ہے۔ مستحکم ممالک تو ایسے بحرانوں کو معمول کا حصہ سمجھتے ہیں اور وہ ان بحرانوں سے اپنی بہترین اور مضبوط پالیسیوں کی بدولت بہت کامیابی کیساتھ نبرد آزما ہو کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی صورتحال ان سے ذرا مختلف ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی اداروں کے درمیان دوریوں کے باعث ورکنگ ریلیش شپ کا شدید فقدان ہے جس کے باعث بہت سے عوامی نوعیت کے معاملات کا حل بھی عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہے۔

پاکستان میں اگر ترقی کی رفتار دیکھیں تو بدقسمتی سے یہ انتہائی سست ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے سیاسی سسٹم کی کمزوری اور اس میں موجود خامیاں ہیں۔ پورا معاشرہ ایک عجیب قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ پاکستان میں سیاست کا باوا آدم ہی نرالہ ہے۔ الیکشن لڑنا اور سیاست کرنا غریب حتیٰ کہ مڈل کلاس کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ پاکستان میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سیاست پیسے کی گیم ہے۔ یہی تاثر پاکستان کے سیاسی نظام کو دیمک کی طرح چاٹ کر کمزور کر رہا ہے۔ اس کیلئے عوام میں تعلیم اور شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تبھی جا کر ہمارا نظام سیاست بہتری اور مضبوطی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

حالیہ کمزور سیاسی نظام کے باعث حکومت اور اپوزیشن کے مابین شدید تناؤ  اور ریاستی معاملات میں ڈیڈ لاک پایا جاتا ہے۔ اگر ہم حکومتی معاملات کی طرف نظر دوڑائیں اور حکومت اور بیورو کریسی کے درمیان تعلقات کو دیکھیں تو ایک خاص سرد مہری پائی جاتی ہے۔ آئے روز بیورو کریسی کے تبادلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اور بیورو کریسی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ ابھی تک بہتر طریقے سے قائم نہیں ہو سکا جس سے پورا نظام کسی حد تک جمود کا شکار نظر آتا ہے۔

بدقسمتی سے پندرہ ماہ گزرنے کے بعد بھی ہماری موجودہ حکومت ان جھمیلوں سے نکل نہیں پا رہی۔ جس کے باعث عوامی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ سیاسی نظام میں بہتری کا دارومدار عوامی مسائل کے حل پر ہے۔ اگر ہم ملک کے اندر دیکھیں تو ایک، دو نہیں ،چار چار قسم کے نظام ہائے تعلیم ہیں۔ اگر ہم ہسپتالوں میں جائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ صحت کا نظام بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ عدالتی نظام میں بھی بہت اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ اب بھی بیشتر مقدمات سال ہا سال سے التواء کا شکار ہیں۔ ماڈل کورٹس کا دائرہ کار ملک بھر میں بڑھا کر تمام مقدمات کو اس کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔

ماضی بعید کی نسبت اگر ہم ماضی قریب میں دیکھیں تو پاکستان کے اندر قدرے سیاسی استحکام نظر آتا ہے۔ اگرچہ ماضی بعید میں چار عدد مارشل لاء کی وجہ سے پاکستان کے اندر جمہوریت وقتاً فوقتاً تعطل کا شکار ہوتی رہی اور اس طرح سے پنپ نہیں سکی جس طرح آج کے آزاد جمہوری ممالک میں ہے۔ لیکن گزشتہ دو جمہوری حکومتوں نے بہرحال اپنی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ ان ادوار میں بھی بعض دفعہ شدید قسم کے بحران آئے لیکن جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا گیا۔ یہ مدت کس طرح پوری کی ،یہ ایک الگ موضوع ہے اور ایک لمبی بحث ہے، اس کو کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔

حالیہ حکومتی بحرانوں کو لے کر بھی کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اداروں کے درمیان شدید ٹکراؤ کا خدشہ ہے۔ حالانکہ مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اداروں کے درمیان کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں ہونے جا رہا۔ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا۔

ملک کو صحت، تعلیم اور لاء  اینڈ آرڈر جیسے بیشمار چیلنجز کا سامنا ہے جن کا براہ راست تعلق عوام کیساتھ ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے حکمران جماعت کو فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اداروں کے درمیان یہ تناؤ عوامی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ اس قسم کے حالات میں عوامی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اب عوام جائیں تو کدھر جائیں؟

اس کیلئے ملک کے وسیع تر مفاد میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور اپنے اپنے مسائل ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ سیاسی مسائل سے ہٹ کر حکومت عوامی مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دے سکے۔ اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ حکومت کی توجہ عوامی مسائل کی طرف مبذول کرائے اور عوامی مسائل کے حل کیلئے بنائی گئی حکومتی پالیسیوں پر مثبت تنقید کرے تاکہ ان پالیسیوں کو درست انداز میں عوامی مسائل کے حل کیلئے بروئے کار لایا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply