• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مشرف خدا کی عدالت میں (دوم، آخری حصّہ )-وقاص رشید

مشرف خدا کی عدالت میں (دوم، آخری حصّہ )-وقاص رشید

الغرض جو معاملات سیاستدان افہام و تفہیم اور کچھ لو ،کچھ دو کی حکمت عملی کے تحت حل کر لیتے ہیں وہاں طاقت کے زعم میں بندوق کی زبان میں بات کر کے بارود سے مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ افسوس کہ اس سے پہلے اس طرزِ فکر وعمل کا نتیجہ پاکستان کی بنیاد رکھنے والے بنگال کا بنگلہ دیش بننے کی صورت میں سامنے آ چکا تھا مگر گریبان میں جھانکنے کے لیے گردن سے سریا نکالنا پڑتا ہے وہ نکل سکتا تھا اگر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ نا  صِرف چھپتی بلکہ اس پر عمل بھی ہوتا۔

محروم اور چھوٹے صوبے بلوچستان سے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو لانے کے بلندوبانگ کھوکھلے دعوؤں کی قلعی جلد ہی کُھل گئی جب بقول جمالی صاحب انہوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان اور عراق فوج بھیجنے جیسے معاملات پر اصولی و جمہوری موقف اپنایا۔ یہ اور بات کہ اصولی موقف کا اظہار ہر کوئی بعد میں کرتا ہے۔

سو پرویز مشرف نے باہر سے ایک وزیراعظم برآمد کیا جسے اس وقت “شارٹ کٹ عزیز” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مشرف کے ایما پر جب سٹی بینک کے اس سابقہ ملازم نے سٹیل مل کی نجکاری یوں کرنے کی کوشش کی کہ جس مِل کی زمین کی مالیت ہی اس وقت مبینہ طور پر ایک کھرب کے لگ بھگ تھی اسے کوئی 20 ارب روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا جسکے خلاف سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے غالباً  پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا ازالہ کرنے کے لیے سوموٹو ایکشن لے کر کالعدم قرار دیا۔ تو یہی بات تاریخی وکلا تحریک کی بنیاد بن گئی۔

مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹا دیا اور افتخار چوہدری اس وکلا تحریک کے سرخیل بنے جو کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی بنیاد بنی۔ افتخار چوہدری کی قیادت میں وکلا تحریک پاکستان میں سیاسی قیادت کے نہ ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کا باعث بنی۔ سابق چیف جسٹس جب بار ایسوسی ایشنز سے خطاب کرنے جاتے تو مشرف کے مارشل لا سے تنگ عوام سڑکوں پر انکا تاریخی استقبال کیا کرتی ۔ سڑکیں پھولوں کی پتیوں سے بھر جاتیں۔ گھنٹوں کا سفر دنوں میں ہوتا۔ اعتزاز احسن ، علی احمد کرد ، عاصمہ جہانگیر ، اطہر من اللہ نے میڈیا کے چند اینکرز کے ساتھ مل کر ایک تاریخ رقم کی۔

یہاں بتاتا چلوں کہ حامد میر صاحب جیسے لوگوں کا یہ دعویٰ کہ پرنٹ میڈیا او اخبارات کے بڑے گروہوں سے نامور صحافیوں تک نے بڑی جانفشانی سے ایک ارتقائی جدوجہد کے ذریعے الیکٹرانک میڈیا میں ڈھلتے ہوئے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا سنگِ میل عبور کیا۔ اس میں عالمی سطح پرانتہائی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا کا بنیادی کردار بھی ہے۔ جو لوگ اسے جنرل مشرف کا ذاتی کریڈیٹ قرار دیتے ہیں انکے دعوے کے ارتداد کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مشرف نے آمرانہ پالیسیوں پر مسلسل تنقید کرنے اور وکلا تحریک میں ساتھ دینے پر حق گو اینکرز کا ٹی وی چینلز میں داخلہ ہی ممنوع قرار دلوایا تھا۔ کسے یاد نہیں کہ حامد میر صاحب جیسے لوگ سڑکوں پر پروگرام کرتے رہے۔

میاں نواز شریف نے وطن واپسی کی ٹھانی اور واپس لاہور ائیر پورٹ پر اُترے۔ لیکن مشرف آمریت اس وقت اپنے پورے عروج پر تھی اور سعودی پرنس شہزادہ مقرن کے ائیر پورٹ پر ایک معاہدے کا کاغذ لہرانے کے ذریعے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ شہزادے نے بتایا کہ ہماری ضمانت پر میاں صاحب نے سیاست میں حصہ نہ لینے اور جلا وطنی کا دس سالہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ جسے میاں صاحب نے خفت مٹانے کے لیے کہا کہ پانچ سال کا کہہ کر دس سالہ معاہدے پر دستخط کروائے گئے۔

وکلا تحریک میں انتہائی اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم جو مشرف کے خلاف دو حقیقی اپوزیشن لیڈرز میں سے ایک تھے ۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان سرحدی سابق ناظم کراچی کے باکمال اقدامات کی وجہ سے کراچی کی روشنیاں بحال ہو رہی تھیں ۔ یہ بات بھلا مشرف کو کہاں بھاتی۔ چوہدری نثار کے بقول ایک وقت میں بطورِ آرمی چیف الطاف حسین کو لندن میں ہی راستے سے ہٹانے کی پیشکش کرنے والے مشرف صاحب نے بعد میں اپنی کتاب In the line of Fire میں الطاف حسین کو بھٹو سے بڑا لیڈر قرار دیا۔

12مئی 2007 کو افتخار چوہدری صاحب نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنا تھا۔ وہ صبح جب کراچی ائیر پورٹ پر پہنچے تو انہیں ائیر پورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا اور شہر کو ایک بار پھر مقتل بنا دیا گیا۔ وکلا جب سڑکوں پر نکلے تو سڑکوں کو انکے خون میں نہلا دیا گیا۔ ایک عمارت میں وکلا کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس دن روشنیوں کے شہر میں 50 سے زائد قیمتی جانوں کے چراغ گُل ہوئے اور شام کو اسلام آباد میں جلسے میں مکے لہراتے ہوئے جرنیل صاحب نے اسے اپنی طاقت قرار دیا۔

مگر اس قوم کی بد بختی کہہ لیجیے کہ بعد میں اس تحریک کا انجام بھی ارسلان افتخار کے ملک ریاض اسکینڈل پر ذاتی حصار میں جکڑی گئی۔ اور ایک مثالی تحریک جس میں وکلا نے اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کیے وہ افتخار چوہدری کے ہاتھ کی تصحیح  اور اسلام آباد میں سموسوں کے زیادہ ریٹ جیسی سلطان راہی ٹائپ بڑھکوں پر منتج ہوئی۔

میاں نواز شریف نے لندن میں 2007 میں اے پی سی لندن کا تاریخی انعقاد کیا لیکن محترمہ بے نظیر امریکہ کے ذریعے مشرف سے ڈیل میں مصروف تھیں اس لیے انہوں نے اس میں شرکت نہیں کی اسکا اعلامیہ تاریخی اہمیت کا حامل ہو سکتا تھا اگر بی بی صاحبہ نے اس میں شرکت بھی کی ہوتی اور پاکستان میں منافقانہ سیاست کے سرخیل جناب فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر اسکے اعلامیے میں دراڑ نہ ڈالی ہوتی۔ اسکے اعلامیے میں جونہی نوازشریف صاحب نے یہ نکتہ پڑھا کہ اگر مشرف نے دوسری بار باوردی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کی یہ تمام جماعتیں مستفی ہو جائیں گی اور مل کر تحریک چلائیں گی جس پر پیپلز پارٹی کے امین فہیم مرحوم اور فضل الرحمن نے اعتراض کیا اور کہا کہ کہ استعفوں سمیت دوسری آپشنز پر غور کیا جائے گا اور یوں مشرف دوسری بار بھی باوردی صدر بن گئے۔ فضل الرحمن صاحب کے پاس وزیراعلی اکرم درانی کے ذریعے کے پی کے اسمبلی توڑ کر مشرف کا صدارتی کورم پورا نہ ہونے دینے کا پورا موقع تھا لیکن ذاتی منفعت و مفاد سے بالاتر اخلاصِ نیت سے قومی مفاد میں کوئی فیصلہ کرنے سے فضل الرحمن صاحب کا سیاسی ریکارڈ خراب ہوتا۔
بہرحال کچھ مدت بعد میاں صاحب اور بی بی شہید وطن واپس پہنچ گئے اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

محترمہ کارساز حملے کے ہنگام پاکستان آئیں۔ یہ انکے لیے ایک پیغام تھا جس سے انہوں نے سبق نہ سیکھا۔ یہاں آکر جب وکلا تحریک میں سے اپنا سیاسی حصہ وصول کرنے کے لیے انہوں نے افتخار چوہدری کے گھر کے سامنے خارداریں ہٹا کر پاکستان کا جھنڈا نصب کیا تو مورخ کے ذہن میں خطرے کی پہلی گھنٹی بجی۔ بے نظیر صاحبہ کی رفتار تیز تھی انہیں جلدی کہیں پہنچنا تھا اور افسوس کہ وہ موقع آن پہنچا۔ لیاقت باغ میں انہیں گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور ساتھ میں قاتل کو بھی بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور فیصلہ کن سانحہ تھا۔ اسکے بعد انتہائی مشکوک انداز میں سرعت کے ساتھ وہاں سے شواہد مٹانے سے لے کر مشرف کے وزیر داخلہ کی دہشتگردوں کی مبینہ گفتگو اور بے نظیر کی موت کی وجہ سن روف کا کیچر سر پر لگنا قرار دینے کی مشکوک ترین کاروائیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔

میر مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو کا اس سانحے سے کوئی چند مہینے قبل اپنی پھپھو کو اس ضمن میں انتباہ کرتا کالم نہ جانے کیوں شہ سرخیوں کی زینت نہیں بن سکا۔ ویسے “معلوم ” تو ہے کیوں نہیں بن سکا۔
اور یوں مشرف کو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کے کاندھوں پر وردی کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا اور وہ انہوں نے وہ وردی اتار دی جس میں پرویز الٰہی نے انہیں دس بار منتخب کروانا تھا اور الطاف حسین نے جس پر پبلک میں بیالوجی کے ساتھ ذومعنی جگتیں کرنی تھیں جو ظاہر ہے طالبعلم یہاں لکھ نہیں سکتا۔ اسکے بعد ہارون رشید صاحب کے کھدر کے کرتوں ، سنہری پتے کی سگریٹ کے ہلکے کش لینے اور بے نظیر صاحبہ سے مشرفی ڈیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے جنرل کیانی ملک کے اگلے بادشاہ بن گئے۔ جی ہاں پاکستانی ریاست میں آرمی چیف حقیقی بادشاہ ہوتا ہے اور ملک کا وزیراعظم وہ بادشاہ ہوتا ہے جسے عام طور پر گفتگو میں کہا جاتا ہے ” یار تو بھی بادشاہ بندہ ہے”۔

زرداری صاحب “پاکستان کھپے” کے نعرے کے ساتھ پاکستان کے صدر بن گئے اور کچھ عرصے بعد میمو گیٹ کے ہنگام میاں صاحب نے اگلا وزیراعظم بننے کے لیے میثاقِ جمہوریت اور اے پی سے اعلامیے کو کالے کوٹ کا کفن پہنایا۔

مشرف صاحب دبئی روانہ ہوئے۔ ساری زندگی پاکستان پر حکمرانی کرنے کے بعد انکے لیے بھلا گوشہِ گمنامی میں رہنا کہاں ممکن تھا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی جماعت “آل پاکستان مسلم لیگ ” بنائی۔ وطن واپسی پر انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ فوج مجھے بچائے گی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ راحیل شریف میری حفاظت کے لیے کہاں تک جا سکتے ہیں۔ نون لیگ کے علاوہ باقی تمام مسلم لیگیوں کے مشرفی قیادت میں جمع کیے جانے کے منصوبے کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور مشرف صاحب کو بالآخر مختلف عدالتی کیسز سے بھاگنے کے لیے پردیس پاکستان سے ایک بار پھر اپنے دیس جانا پڑا۔ ان پر دوسری بار آئین توڑنے اور ایمرجنسی پلس نافذ کرنے پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 کا مقدمہ تھا جسکی سزا موت ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت میں یوسف رضا گیلانی نے مشرف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو “Undoable” قرار دیا۔ اس عہد میں سلمان تاثیر کے قتل سے پاکستانی سیاست نے ایک بالکل ہی نیا موڑ لیا جب انکے ایک سیکیورٹی گارڈ ممتاز قادری نے انہیں ایک توہینِ رسالت ص کے کیس میں توہینِ رسالت ص کے قانون کو انتقامی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے پر تنقید کرنے کی پاداش میں شہید کر دیا۔ اس سے پاکستان میں متشدد سیاست کا ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اور ایک سیاسی جماعت نے جنم لیا جسکا نام لکھنے سے مارک بھائی برامناتے ہیں ۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے باوجود تب سے اب تک نہ جانے کتنے لوگوں کو توہینِ مذہب کے نام پر سڑکوں پر اپنی عدالتیں لگا کر ناحق قتل کر دیا گیا۔

اسکے بعد نون لیگی دور میں مشرف کے خلاف کیسز بڑی سست رفتاری سے چلتے رہے۔ میڈیا میں ایک آواز عمران خان صاحب کی احتجاجی سیاست کو نواز شریف صاحب پر مشرف کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے لیے دباؤ بھی قرار دیتی تھی۔

اسکے بعد پانامہ کیس میں میاں صاحب کی نااہلی سے سیاست نے ایک اور نیا موڑ لیا اور اگلے انتخابات میں عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔ عمران خان کے عہد میں جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت کے ایک خصوصی بینچ نے مشرف کو سنگین غداری کے جرم میں سزائے موت دے دی جسے آئی ایس پی آر نے رد کرتے ہوئے قانون کے منافی قرار دیا اور اس پر وقت کے بادشاہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ناگواری سے قوم کو آگاہ کیا۔ اس در سے فیضِ اقتدار کی متمنی جماعتوں نے ملے جلے اور مبہم سے تاثرات کا اظہار کیا۔ حتی کہ مشرف کے خلاف مسلسل آرٹیکل 6 کا مطالبہ کرنے والے وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے بھی اس پر کہا کہ حکومت اپنے ردعمل کا اظہار وزیراعظم کی ملک واپسی کے بعد زمینی حقائق کا جائزے اور قانونی مشاورت کے بعد قومی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کرے گی۔ اور پاکستان کے نازک موڑ سے گزرنے اور قومی مفاد میں فیصلہ کرنے کو کون نہیں جانتا۔

کچھ دن کے بعد جسٹس وقار سیٹھ کی خصوصی عدالت کے اس بینچ ہی کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دے کر ختم کر دیا سپریم کورٹ کے جس جج نے یہ فیصلہ دیا آج کل انکی پرویز الٰہی سے “یارانہ” گفتگو کی ایک ٹیپ زبانِ زدِ عام ہے ۔اس بینچ کے اختتام کے فورا بعد جسٹس وقار سیٹھ کی کرونا سے ہلاکت کی خبر آ گئی اور اللہ اللہ خیر صلہ۔۔
اور پھر مشرف کو دل کی ایک ایسی بیماری لاحق ہو گئی جو انکے ڈاکٹر کے بقول دنیا میں بہت نایاب ہے۔ اسکے علاج کے دوران انکی تصاویر آتی رہیں اور پھر 5فروری 2023 کو دبئی کے ایک امریکی ہسپتال میں انکی موت واقع ہوگئی۔

مشرف کے جسدِ خاکی کو پاکستان لا کر خاموشی سے قومی پرچم میں ایک سادہ سی تقریب کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
پاکستان میں حاکم و رعایا میں صرف یہی ایک قدر مشترک ہے۔ جیتے جی انکی کوئی چیز آپس میں ایک سی نہیں ہوتی۔ لیکن بس مرنے پر ہی امرا پاکستان میں دفن ہوتے ہیں۔ انکا مرنے پر پاکستانی عوام اور رعایا سے اظہارِ یکجہتی اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ حکمران پاکستان کو سمجھتے رعایا کا قبرستان ہی ہیں۔
کہیں پڑھا تھا کہ اگر خدا پورے قرآن کی جگہ ایک لفظ کو نازل کرتا یعنی دینِ اسلام کی مکمل تفہیم اگر کوئی ایک قدر کر سکتی ہے اور پوری اسلامی تعلیمات کو ایک لفظ میں سمویا جا سکتا ہے تو وہ ہے “اعدلو”۔

اس اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں بسنے والوں کے لیے یہ بات لمحہِ فکریہ ہونی چاہیے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم ہر ظالم جابر اور بڑے مجرم کے لیے عموما ً یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ چلو خدا کی عدالت میں پہنچ گیا وہیں انصاف ہو گا۔
پاکستان کو جو شے فقط نام کا اسلامی جمہوریہ بناتی ہے وہ یہی ہے کہ ایوب خان سے لے کر مشرف تک ہر آئین شکن ظالم و جابر کو اسکے کیے کی سزا نہیں ملی۔ جبکہ ہم ایسے اقوال کے ماننے والے اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں کہ جہان میں کفر کا نظام چل جائے گا ظلم کا نظام نہیں چلے گا۔

بہرحال اب مشرف واقعی اس عدالت میں ہے جہاں کے فیصلے کو کوئی طاقت نہ مٹا سکتی ہے نہ جھٹلا سکتی ہے نہ عدل سے روک سکتی ہے اور نہ ہی اس عدالت کو کوئی ختم کر سکتا ہے۔
خود کو زمین کے خدا سمجھنے والے زمین و آسمان کے ازلی و ابدی خدا کے سامنے جب حاضر ہونگے تو شاید انکی حالت وہی ہو جو زمین پر خدا کی عام مخلوق کی انکے سامنے ہوتی ہے منصف و عادل خدا کی عدالت میں انصاف شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے۔۔۔
عہدِ مشرف کو طالبعلم نے ایک نظم میں بھی بیان کیا ملاحظہ فرمائیے۔
” مشرف خدا کی عدالت میں ”

میں نے جب ہوش کی آنکھ کھولی یہاں
ملک میں آمریت کا اک دور تھا
نوکِ بندوق پر تھا آئینِ وطن
حکمرا ں ایک آمر یہاں اور تھا

پھر سے جمہوریت تھی یہاں یرغمال
جبر کے سائے میں رب کی مخلوق تھی
ہر قلم دان پر جس کا قبضہ تھا تب
سر پہ ملت کے اپنی ہی بندوق تھی

اس ریاست پہ اک بار پھر دوستو
جبر اور دھونس کا آہنی راج تھا
خوف کی اک فضا تھی یہاں ہر طرف
سر پہ آمر کے خود ساختہ تاج تھا

جس کو چاہے یہاں زندگی بخش دے
جس کو چاہے یونہی جیتے جی ماردے
خود ہی منصف بنے اور خود ہی وکیل
حقِ انساں کو وحشت پہ بس وار دے

دیس میں ہر طرف خون بہتا رہا
آگ بارود کی ایک جلتی رہی
یو ں ہی پکتا رہا ایک آتش فشاں
اک قیامت سی تہہ میں تھی پلتی رہی

اور پھر جبر کی اک دہائی کے بعد
ملک برباد کر کے وہ آمر گیا
اپنی سلگائی اس آگ میں جھونک کر
ہم کو مکے دکھاتا وہ جابر

ملک بارود سے یہ لرزتا رہا
اک ندی خون کی ہائے بہتی رہی
اس کے کیے کی اس کو سزا نہ ملی
قوم لیکن سزا اس کی سہتی رہی

میرے جیسا قلم کار گمنام سا
خونِ دل کا دیا بس جلاتا رہا
اک گمنام شاعر تھا جمہور کا
دل پہ نوکِ قلم بس چلاتا رہا

وہ کہ جس نے دعائیں کمائی نہیں
اسکی خاطر کروں میں دعا کس طرح
یہ قلم تو امانت ہے مظلوم کی
ایک جابر کو کر دوں عطا کس طرح

Advertisements
julia rana solicitors london

آج وہ اس خدا کی عدالت میں ہے
ظلم ہر گز نہیں معاف ہو گا جہاں
کوئی بھی عدل سے روک سکتا نہیں
باخدا عدل و انصاف ہو گا وہاں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply