سفیروں کا تحفظ

سفیر وں کے تحفظ کے متعلق اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کے بعض اہم اصولوں کی توضیح
محمد مشتاق
(مکالمہ کی ٹیم مشتاق صاحب کی مشکور ہے اس علمی سوال و جواب کی اشاعت کے منتخب کرنے پر)
محترم جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات نہایت اہم ہیں۔ ان کے جوابات مسئلے کے تفصیلی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں پہلے چند بنیادی نکات پیش کیے جاتے ہیں ۔

استثنا یا تحفظ ؟
فاروقی صاحب نے سفیروں کو حاصل “استثنا “پر سوال اٹھایا ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی قانون “استثنا” کو نہیں مانتا بلکہ “تحفظ” کی بات کرتا ہے ۔
کسی شخص پر ریاستی قانون کے اطلاق کے متعلق بین الاقوامی قانون نے عام طور پر دو اصول تسلیم کیے ہیں : ایک علاقائیت (territoriality)کا اور دوسرا قومیت (nationality)کا۔ پہلے اصول کی رو سے یہ طے پایا ہے کہ جو شخص بھی کسی ریاست کی علاقائی حدود میں پایا جاتا ہے ، اس پر اس ریاست کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسرے اصول کی رو سے مانا گیا ہے کہ کسی ریاست کے شہری پر اس کی اپنی ریاست کے قانون کا اطلاق ہر جگہ ہوتا ہے خواہ وہ اپنی ریاست کی علاقائی حدود کے باہر ہو ۔ اب اگر ریاست الف نے ریاست ب کی طرف اپنا سفیر بھیجا ہے تو وہ ریاست الف کا شہری ہے اور ریاست ب کی علاقائی حدود میں پایاجاتا ہے۔ چنانچہ قومیت کے اصول کی رو سے اس پر ریاست الف کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ جو فعل بھی کرے اس کے لیے وہ اپنی ریاست کی عدالتوں کے سامنے جوب دہ ہوگا لیکن ریاست ب کی علاقائی حدود میں موجودگی کے باوجود اس پر ریاست ب کے قانون کے اطلاق نہیں ہوتا ، نہ ہی وہ ریاست ب کی عدالتوں کے سامنے جوب دہ ہے ۔ اسے “اختیار سماعت سے استثنا” (immunity from jurisdiction) کہا جاتا ہے ۔
بین الاقوامی قانون میں یہ استثنا عام طور پر دو اشخاص کے لیے تسلیم کیا گیا ہے : سربراہِ ریاست اور سفیر ۔ ان دونوں کو یہ استثنا کیوں حاصل ہے؟ اس کی تفصیل میں جائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بین الاقوامی قانون نے ریاست کو حاکمیت اعلی (sovereignty)کا حامل مانا ہے اور اس تصور کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بھی مانا ہے کہ حاکمیت اعلی کا حامل کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا ۔ چونکہ ریاست کے سربراہ اور سفیر کو اس حاکمیت اعلی کا ترجمان یا نمائندہ سمجھا جاتا ہے ، اس لیے اس پر دوسری ریاست کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے ریاستی قانون کی رو سے وہ اپنی ریاست کی عدالتوں کے سامنے جواب دہ ہو ۔
واضح رہے کہ یہ استثنا صرف سفیر کی ذات کو نہیں بلکہ سفارت خانے کی عمارت کو اور سفیر کے سامان (luggage) کو بھی حاصل ہےاور ان کو سفیر کی ذات کی طرح کسی بھی اقدام سے محفوظ (inviolable)مانا جاتا ہے ۔ پس یہ سامان اور زمین کا یہ ٹکڑا ریاست ب میں موجود ہونے کے باوجود اس کے قانون کے اطلاق کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں اور ان پر ریاست الف کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اسے extra-territorial jurisdiction ، یعنی اپنی علاقائی حدود سے باہر کسی شخص، شے یا جگہ پر اختیار ، کہتے ہیں ۔
یہ بین الاقوامی قانون کا “کلاسیکی تصور” ہے ۔ بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں اور بالخصوص پچھلے تین عشروں میں اس تصور میں بہت حد تک تبدیلی آگئی ہے اور اب اس استثنا اور تحفظ کو مطلق نہیں مانا جاتا ۔ اس پر تھوڑی مزید بحث کی ضرورت ہے ۔ تاہم یہاں سرِ دست جو سوال اہلِ علم کے سامنے رکھنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی قانون سفیر یا سربراہِ ریاست کو قانون کے اطلاق سے اس طرح کا “استثنا ” دیتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اسلامی قانون میں سفیر کو حاصل تحفظ کی بنیاد کس اصول پر ہے؟

اسلامی قانون میں سفیر کو حاصل تحفظ کی بنیاد
اسلامی قانون کی رو سے سفیر کو تحفظ اس امان کی رو سے حاصل ہوتا ہے جو مسلمانوں میں سے کوئی شخص اسے عطا کرتا ہے ۔ بہ الفاظِ دیگر، سفیر کی قانونی حیثیت “مستامن” کی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہاں عقدِ امان کے متعلق چند بنیادی اصول واضح کیے جائیں :
1۔ امان مسلمانوں میں سے کوئی بھی ایسا شخص دے سکتا ہے جو جہاد میں حصہ لے سکتا /سکتی ہو؛ یعنی ہر عاقل ، بالغ ، آزاد مسلمان مرد یا عورت۔ البتہ مسلمان غلام ، دشمن کی قید میں موجود مسلمان یا دشمن کے علاقے میں تجارت کی غرض سے جانے والا مسلمان دشمن کو امان نہیں دے سکتا۔
2۔ ایک مسلمان امان دے تو سارے مسلمانوں پر اس امان کی پابندی لازم ہوجاتی ہے ، یعنی مسلمانوں میں سے کسی ایک شخص نے بھی دشمن میں سے کسی ایک کے ساتھ یا سب کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ ان کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کیا جائے گا ، تو سب مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ اس شخص یا اشخاص پر حملے سے گریز کریں ، یہاں تک کہ اگر باغیوں نے بھی کسی کو امان دی تو حکمرانوں کے لیے اس شخص یا گروہ پر حملہ ناجائز ہوجاتا ہے ۔
3۔ مسلمانوں کے حکمران کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیار کے تحت موجود مسلمانوں کے امان کے اختیار کو محدود یا معطل کردے ، اگر مسلمانوں کی مصلحت کا یہی تقاضا ہو ۔ اگر حکمران نے امان دینے پر پابندی لگائی اور اس کے باوجود کسی نے امان دی تو اس امان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اسی طرح حکمران کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ کسی فرد یا افراد کی جانب سے دی گئی امان کو وہ ختم کردے ۔
4۔ امان کی خلاف ورزی سنگین ترین جرم ہے ۔ حالتِ جنگ میں بھی اور بدترین اضطراری حالت میں بھی امان کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے، خواہ امان صراحتاً قول کے ذریعے دی گئی ہو یا طرزِ عمل سے ہی دی گئی ہو ، جیسے مسلمان نے دوسرے فریق کو قریب آنے کا اشارہ کیا اور اس اشارے پر اعتماد کرتے ہوئے وہ قریب آیا تو پھر مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے۔ اسی طرح اگر دشمن کے علاقے میں داخل ہوتے وقت مسلمان نے ان سے کہا کہ میں تاجر یا سفیر ہوں تو اب اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ دشمن کے خلاف جنگی اقدام کرے حالانکہ اس مسلمان نے صراحتاً دشمن کو امان نہیں دی ہے لیکن خود کو سفیر یا تاجر کے طور پر پیش کرنے سے گویا اس نے اپنے طرزِ عمل سے tacitly دشمن کو امان دے دی ہے ۔
4۔ امان محدود مدت کے لیے بھی دی جاسکتی ہے اور وقت کی قید کے بغیر مطلقاً بھی ۔ پہلی صورت میں وقت کے خاتمے پر امان خود بخود ختم ہوجاتی ہے؛ دوسری صورت میں جب امان دینے والا فرد ، یا مسلمانوں کا حکمران ، مناسب سمجھے امان کے خاتمے کا اعلان کرسکتا ہے ۔ اسی طرح پہلی صورت میں امان کی مدت ختم ہونے سے قبل بھی امان کے خاتمے کا اعلان کیا جاسکتا ہے ،لیکن دوسرے فریق کے خلاف کسی قسم کا اقدام نہیں کیا جائے گا جب تک اسے امان کے خاتمے کی باقاعدہ اطلاع نہ دی جائے اور اسے اپنے محفوظ مقام تک پہنچنے کا موقع نہ دیا جائے ۔
5۔ امان جس طرح فرد یا چند گنے چنے افراد کو دی جاسکتی ہے ، اسی طرح ایک بڑے گروہ یا پوری قوم کو بھی دی جاسکتی ہے۔ اس آخری صورت کو عام طور پر “امن معاہدات “سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
6۔ جس شخص کو امان دی گئی اور وہ مسلمانوں کے علاقے میں داخل ہوا تو اس کے خلاف ہر طرح کا اقدام روک لیا جاتا ہے ۔ امان دی جانے سے قبل اس نے جو بھی جرم کیا ہو ، امان کے بعد – جب تک وہ امان برقرار ہے – اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مسیلمہ کذاب کے سفیروں کے خلاف اقدام نہیں کیا حالانکہ انھوں نے ایسا جرم کیا تھا جس کی سزا موت تھی ۔
7۔ امان لینے کے بعد البتہ اگر اس شخص نے ایسا کوئی قدم کیا جو مسلمانوں کے قانون کی رو سے جرم ہو تو اسے سزا دی جاسکتی ہے ، سوائے حدود سزاؤں کے ۔ تاہم افراد کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ نجی طور پر اسے سزا دیں، بلکہ سزا دینے کا اختیار حکمران ہی کے پاس ہے ۔ اسی طرح اگر امان لے چکنے کے بعد اس نے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام کیا تو اس کی امان ختم ہوجاتی ہے لیکن اس کے خلاف جنگی اقدام کا اختیار حکمران ہی کے پاس ہے ۔ البتہ جو لوگ براہِ راست اس کے حملے کی زد میں ہوں انھیں حملے کے خلاف دفاع کا حق حاصل ہے ۔
ماضیِ قریب تک بین الاقوامی قانون اس آخری شق کو نہیں مانتا تھا لیکن پچھلی نصف صدی میں قانونِ جنگ اور حقوقِ انسانی کے قانون میں ارتقا کی وجہ سے بین الاقوامی قانون نے اس سمت سفر شروع کردیا ہے ۔

ریاستی قانون میں سفیروں کا تحفظ
روایتی طور پر بین الاقوامی قانون میں سفیر کو مکمل تحفظ حاصل تھا کیونکہ سفیر کو ریاستی قانون کے اطلاق سے استثنا حاصل تھا ۔ چنانچہ اگر سفیر پر کسی جرم کا الزام بھی ہوتا تو زیادہ سے زیادہ اس کے خلاف جو کارروائی کی جاسکتی تھی وہ یہ تھی کہ اسے ناپسندیدہ شخص (persona non grata) قرار دے کر اس کی ریاست کی طرف واپس چلے جانے کا حکم دیا جاتا ۔ البتہ اگر جس ریاست نے سفیر بھیجا ہوتا وہی اس سفیر کا استثنا ختم کردیتی (waiver of immunity)تو اس صورت میں سفیر پر فوجداری مقدمہ چلایا جاسکتا ۔
یہ رواجی قانون 1961ء کے ویانا معاہدہ برائے سفارتی تعلقات (Vienna Convention of Diplomatic Relations)کے ذریعے باقاعدہ معاہدے کا حصہ بھی بنایا گیا اور پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کرکے خود کو اس کا پابند کیا ہے ۔ (بعض دوستوں نے کمنٹس میں جنیوا معاہدات کا ذکر کیا ہے ۔ سفارتی تعلقات کے متعلق اصل اہمیت ویانا کے اس معاہدے کی ہے ۔ جنیوا معاہدات کا تعلق قانونِ جنگ سے ہے جو ایک خاص تناظر میں اس بحث سے متعلق ہوجاتے ہیں لیکن عمومی بحث ویانا معاہدے پر ہونی چاہیے کیونکہ سفارتی تعلقات کے بارے میں قواعد و ضوابط ویانا معاہدے میں ہی طے کیے گئے ہیں ۔ )
جب کوئی ریاست کسی بین الاقوامی معاہدے کی توثیق (ratification) کرتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر تو وہ اس معاہدے کا پابند ہوجاتا ہے لیکن کیا ریاستی سطح پر اس ریاست کی عدالتیں اس معاہدے کی شقوں کو ریاستی قانون کی طرح نافذ کرسکیں گی؟ کئی ریاستوں کا قانون اس سوال کا جواب اثبات میں دیتا ہے ۔ ان ریاستوں کے نظریے کو monism کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نظریہ ریاستی قانون اور بین الاقوامی قانون کو ایک نظام کا حصہ مانتا ہے ۔ تاہم پاکستان سمیت وہ بہت سی ریاستیں جہاں برطانیہ کا کامن لا نافذ رہا ہے اس نظریے پر عمل پیرا نہیں ہے۔ یہاں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس معاہدے کی دفعات کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ریاست کی مقننہ ریاستی قانونی نظام کا حصہ بنادے۔ اس کے بعد ہی عدالتیں اس بین الاقوامی قانون کو ریاست کے اندر نافذ کرسکیں گی۔ اسے dualism کا نظریہ کہتا ہے کیونکہ اس کی رو سے ریاستی قانون اور بین الاقوامی قانون دو الگ نظام ہائے قوانین ہیں۔ چنانچہ کسی سفیر کو حاصل قانونی تحفظ کی حدود جانچنے کے لیے پاکستانی عدالتیں 1961ء کے ویانا معاہدے کی طرف نہیں دیکھتیں بلکہ اس قانون کی طرف دیکھتی ہیں جو 1972ء میں اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا ، یعنی Diplomatic Immunities and Privileges Act۔
اس تفصیل سے مقصود اس بات کی وضاحت تھی کہ کسی ریاست کے اندر سفیر کو حاصل تحفظ کا دارومدار صرف بین الاقوامی قانون پر نہیں ہوتا بلکہ اس ریاست کے قانونی نظام کو بھی دیکھنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ریاستی قانون میں سفیر کو اتنا تحفظ حاصل نہیں ہوتا جتنا بین الاقوامی قانون میں ہوتا ہے ۔ بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔
یہی کچھ سربراہِ ریاست کو حاصل تحفظ کے متعلق بھی کہا جائے گا ۔ پاکستانی صدر کو پاکستانی قانون سے کس حد تک استثنا حاصل ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے بین الاقوامی معاہدات میں سربراہانِ ریاست کو میسر استثنا کی طرف دیکھنے کے بجائے دستورِ پاکستان کی دفعہ 248 کی طرف دیکھنا پڑے گا۔
اسی اصول پر امریکی عدالتیں ، بالخصوص نیویارک میں جہاں ہر وقت سیکڑوں کی تعداد میں سفیر موجود ہوتے ہیں ، سفیروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون سے زیادہ امریکی قانون کو اہمیت دیتی ہیں ۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر نیویارک میں سفیروں کو وہ مکمل استثنا حاصل ہو جو ویانا معاہدے میں مذکور ہے تو ‘لٹ ہی مچ جائے گی!’

قانونِ جنگ ، حقوقِ انسانی کا قانون اور بین الاقوامی فوجداری قانون
یورپ میں انیسویں صدی عیسوی کے نصفِ آخر تک قانونِ جنگ صرف ریاستی تعامل اور رواج کی صورت میں تھا۔ 1864ء میں پہلی دفعہ باقاعدہ بین الاقوامی معاہدہ جنیوا میں کیا گیا جس کی رو سے جنگ میں زخمی ہونے والے لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے ریڈکراس کمیٹی کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ 1899ء اور 1907 ء میں ہیگ میں دو بڑی کانفرنسوں کے ذریعے رواجی قانون کے قواعد کو معاہدات میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد 1929ء میں جنگی قیدیوں کے تحفظ کے لیے جنیوا میں ایک اور معاہدہ کیا گیا ۔ تاہم قانونِ جنگ کی تدوین اور ارتقا کا عمل بیسویں صدی کے نصف ِ آخر میں بہت تیز ہوا ۔ 1949ء میں جنیوا میں چار ضخیم معاہدات وضع کیے گئے جن کی پاکستان سمیت دنیا کی تمام ریاستوں نے توثیق کی ہے ۔ ان معاہدات اور ان کے بعد آنے والے معاہدات نے قانونِ جنگ کو نہایت تفصیل سے مدون کرلیا ہے ۔ البتہ کئی مقامات پر اب بھی خلا پایاجاتا ہے اور درحقیقت اس خلا کو پر کرنے میں اسلامی قانون سے بہت زیادہ مدد لی جاسکتی ہے ۔
1945ء میں دوسری جنگ ِ عظیم کے فاتحین نے مفتوحین کے خلاف قانونِ جنگ کی خلاف ورزی کے الزام میں نورمبرگ (جرمنی) اور ٹوکیو (جاپان) میں عدالتیں قائم کیں ۔ ان عدالتوں کے منشور میں قرار دیا گیا کہ کسی ملزم کی سرکاری حیثیت اسے تحفظ نہیں دے سکے گی ۔ یوں پہلی دفعہ “استثنا” کو ختم کیا گیا ۔ ان عدالتوں پر بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی جانب سے سخت تنقید بھی کی جاتی رہی ہے اور ان کے حق میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن سب یہ بات مانتے ہیں کہ ان عدالتوں کے قیام اور ان کے فیصلوں سے بہرحال یہ فائدہ ضرور ہوا کہ بین الاقوامی قانون نے ریاستوں کی اعتباری شخصیت کا پردہ چاک کرکے افراد تک خطاب کی صلاحیت حاصل کرلی ۔ چنانچہ اس کے بعد نہ صرف قانونِ جنگ میں تیزی سے ارتقا ہوا بلکہ حقوقِ انسانی کا بین الاقوامی قانون بھی وجود میں آگیا اور اگلی نصف صدی میں ان دونوں قوانین کے اثر سے بین الاقوامی قانون میں ایک اور اہم شعبے کا اضافہ ہوا : بین الاقوامی فوجداری قانون ۔
1945ء میں اقوامِ متحدہ کے منشور میں اس تنظیم کے مقاصد میں حقوقِ انسانی کے تحفظ کا ذکر کیا گیا ۔ 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حقوقِ انسانی کی ایک فہرست منظور کی جسے “حقوقِ انسانی کا آفاقی اعلان “(Universal Declaration of Human Rights)کہا جاتا ہے۔ اس اعلان کو باقاعدہ بین الاقوامی معاہدہ بننے میں 18 سال لگے اور 1966ء میں اس مقصد کے لیے دو معاہدات سامنے آئے : ایک شہری و سیاسی حقوق کے لیے اور دوسرا معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے لیے ۔ اس کے بعد خواتین ، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے متعلق بھی معاہدات ہوئے۔ نیز علاقائی سطح پر بھی حقوقِ انسانی کے نفاذ کے لیے نظام وجود میں آگئے ، جیسے یورپ کی سطح پر یورپی عدالت برائے حقوقِ انسانی (European Court of Human Rights)۔
قانونِ جنگ اور حقوقِ انسانی کے قانون کے ارتقا نے بین الاقوامی فوجداری قانون کے لیے بھی راہ ہموار کی ۔ چنانچہ 1990ء کی دہائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے سابقہ یوگوسلاویہ میں جنگ کے دوران میں کیے جانے والے جرائم کے مقدمات کے لیے ، اور اس کے بعد روانڈا میں خانہ جنگی کے دوران میں ہونے والے جرائم کے مقدمات کےلیے عدالتیں بنائیں اور انھیں جو اختیارِ سماعت دیا گیا اس میں “استثنا” کی بات ختم کردی گئی ۔ نورمبرگ اور ٹوکیو کی عدالتوں کی بہ نسبت یوگوسلاویہ اور روانڈا کی عدالتوں کی بین الاقوامیت بھی عام طور پر تسلیم کی گئی ہے اور ان کے فیصلوں کو بھی بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی اکثریت نے تائید و تحسین کی نظر سے دیکھا ہے ۔
ان عدالتوں کے قیام نے ایک مستقل بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court) کے قیام کی طرف ریاستوں کو متوجہ کیا ۔ چنانچہ 1998ء میں معاہدۂ روم کی رو سے اس عدالت کا قیام عمل لایا گیا جس نے یکم جولائی 2002ء سے کام شروع کردیا ہے ۔ اس عدالت کو فی الحال تین طرح کے جرائم پر اختیار سماعت حاصل ہے : جنگی جرائم ؛ ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ ؛ اور ‘نسل کشی’۔ جلد ہی ایک چوتھے جرم ‘جارحیت’ ، یعنی ناجائز جنگ شروع کرنے پر بھی اس عدالت کو اختیارِ سماعت مل جائے گا۔ اس عدالت کے منشور میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ یہ عدالت کسی ملزم کو اس کی سرکاری یا ریاستی عہدے کی بنا پر استثنا نہیں دے گی ۔ چنانچہ اس عدالت میں موجودہ سربراہ ِ ریاست پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔ سفیروں کو حاصل استثنا بھی اس عدالت کے سامنے غیرموثر ہے ۔
پس پچھلی نصف صدی میں بین الاقوامی قانون نے بتدریج اسی سمت سفر شروع کردیا ہے جس طرف اسلامی قانون دنیا کو لانا چاہتا ہے ۔ تاہم بہت سی ریاستوں کے قانون کے اندر عام طور پر اب بھی ایک صدی پرانے مفروضات کارفرما ہیں جو جدید دور میں ناقابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں ۔
ان امور کی وضاحت کے بعد اب ہم فاروقی صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کے لیے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں ۔

فاروقی صاحب کا پہلا سوال
” اس عہد جدید میں سفارتخانوں میں صرف سفارتی عملہ نہیں ہوتا بلکہ متعلقہ ملک کے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار بھی ہوتے ہیں اور یہ دو شکلوں میں ہوتے ہیں. پہلی شکل ان اہلکاروں کی ہوتی ہے جو آتے ہی انٹیلی جنس اہلکار کی حیثیت سے ہیں یعنی جس ملک میں تعینات ہوتے ہیں اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ ہمارے انٹیلی جنس اہلکار ہیں۔ دوسری شکل ان انٹیلی جنس اہلکاروں کی ہوتی ہے جو انڈر کور آتے ہیں. مثلا بظاہر فرسٹ سیکریٹری نظر آنے والا ضروری نہیں کہ فرسٹ سیکریٹری ہی ہو. اگر دو ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہ ہوں تو یہ اہلکار دہشتگردی کے فروغ جیسی وارداتیں بھی کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے حال ہی میں بھارت کے سفارتی اہلکاروں کے کیس میں دیکھا بھی یعنی یہ سیدھے سیدھے محارب ہوتے ہیں ۔۔۔کیا شریعت اسلامیہ کی نطر میں انہیں بھی سفارتی استثناء حاصل ہوگا ؟”
اس سوال کے جواب کے لیے اس بنیاد پر غور کیجیے جس پر سفیروں کو اسلامی قانون کی رو سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ، یعنی امان کا عقد ۔ جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا ،اسلامی قانون سفیروں کو قانون کے اطلاق سے استثنا نہیں دیتا بلکہ مسلمانوں پر انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ جس شخص یا اشخاص کو انھوں نے امان دی ہے اس کے جان و مال اور دوسرے حقوق کی حفاظت کریں ۔ یہ امان دو طرفہ معاہدہ ہوتا ہے اور اس کی رو سے دوسرے فریق پر یہ بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو امان کے خلاف ہو ۔ چنانچہ اگر “مستامن” نے امان لینے کے بعد امان کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف کارروائی کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں :
1۔ اگر اس نے کسی شخص پر حملہ کیا تو اس شخص کو دفاع کا حق حاصل ہے اور دفاع کا یہ حق انھی قیود و حدود میں استعمال کیا جاسکتا ہے جن قیود و حدود میں کسی بھی دوسرے شخص کے حملے کے خلاف اسے استعمال کیا جاتا ہے ۔
2۔ اس کے خلاف مقدمہ چلاکر اسے عدالت سے سزا بھی دلوائی جاسکتی ہے ، سوائے حدود اور قصاص کی سزاؤں کے ، کیونکہ مستامن پر ان سزاؤں کا نفاذ نہیں کیا جاسکتا جنھیں اسلامی قانون کی رو سے “حق اللہ” کہا جاتا ہے ۔ البتہ قتل کی صورت میں دیت اور زخموں کے لیے ارش ،یا اگر صلح ہوجائے تو بدلِ صلح ، اس سے وصول کی جاسکتی ہے ۔
3۔ اگر اس نے “جاسوسی “کی تو اس کے خلاف اقدام کا حق حکمران کو حاصل ہے جو مناسب سمجھے تو اسے اس کے جرم کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب سزا دے سکتا ہے ، اور بعض سنگین صورتوں میں یہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے ۔
4۔ اگر وہ”جنگی اقدام” کرے ، مسلح جتھوں کی تربیت کرے ، ان تک اسلحہ پہنچائے ، ان کی معاونت کرے، یا خود جنگی کارروائی میں حصہ لے ، تو یہ سب امور امان کے خاتمے کا باعث بنتے ہیں اوران صورتوں میں حکمران اس کے خلاف ہر وہ کارروائی کرسکتا ہے جو کسی بھی دوسرے مقاتل کے خلاف کی جاتی ہے ۔
یہ سب کچھ اس صورت میں ہوتا ہے جب مسلمانوں نے اس ضمن میں دوسرے فریق کے ساتھ کوئی خصوصی معاہدہ نہ کیا ہو بلکہ صرف امان ہی دی گئی ہو ۔ اگر دوسرے فریق کے ساتھ انفرادی طور پر یا اس کی قوم کے ساتھ اجتماعی طور پر کوئی معاہدہ کیا گیا ہو تو پھر اس معاہدے کو بھی مدنظر رکھا جائے گا ۔ یہ اس معاملے کا وہ پہلو ہے جسے عسکری تنظیمیں عموماً نظرانداز کردیتی ہیں ۔ اس پہلو سے عصرحاضر میں کیے گئے بین الاقوامی معاہدات کو بھی دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے اور ان معاہدات میں تسلیم کی گئی پابندیوں پر عمل صرف بین الاقوامی قانون کی رو سے ہی نہیں بلکہ شرعاً بھی لازم ہے کیونکہ شریعت نے مسلمانوں پر لازم کیا ہے کہ وہ عہد اور وعدے کی پابندی کریں گے ۔
عام طور پر معلوم ہے کہ فقہائے احناف کے نزدیک حکمران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضروری سمجھے تو جنگی قیدی کو سزائے موت دے ۔ تاہم امام شیبانی نے السیر الکبیر میں تصریح کی ہے کہ اگر دوسرے فریق کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہوا کہ جنگی قیدی کو قتل نہیں کریں گے تو پھر جنگی قیدی کو قتل کرنا ناجائز ہوجائے گا۔ یہ بھی واضح ہے کہ جنگی قیدی کو اصلاً امان حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ مقاتل ہوتا ہے اور قتال میں حصہ لینے کے سبب سے ہی گرفتار ہوا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس عمومی معاہدے کی وجہ سے اس کا قتل ناجائز ہوجاتا ہے ۔ تو اس شخص کا قتل تو بدرجۂ اولی ناجائز ہوجاتا ہے جسے امان بھی دی گئی ہو اور جس کی قوم کے ساتھ معاہدہ بھی کیا گیا ہو کہ اس کے بھیجے گئے سفیر کو قتل نہیں کیا جائے گا خواہ اس نے خود یا اس کی قوم نے ہمارے خلاف جنگی اقدام کیا ہو۔
یہ تو اس صورت کا حکم ہوا جب اس نے بطور سفیر امان حاصل کرنے سے قبل کوئی جنگی اقدام کیا ہو۔ اگر اس نے بطورِ سفیر آنے کے بعد کوئی جنگی اقدام کیا تو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اس کی امان ختم ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف مناسب کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ بین الاقوامی معاہدات میں بھی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ چنانچہ ستر کی دہائی میں عراق کے سفارتخانے کے لیے آنے والے کنٹینروں میں اسلحہ پکڑا گیا اور سفارتخانے اور کنٹینروں کو بظاہر حاصل “استثنا” کے باوجود پاکستانی حکومت نے کارروائی کی اور بالعموم اسے ویانا معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کہا گیا ۔
جہاں تک “جاسوسی” کا تعلق ہے ، تو قانونِ جنگ کی رو سے جاسوسی کوئی جرم نہیں ہے لیکن جاسوس پکڑا جائے تو اسے قانونِ جنگ کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا، یعنی اسے جنگی قیدی تصور نہیں کیا جاتا بلکہ پکڑنے والی ریاست اس کے ساتھ اپنے ریاستی قانون کے تحت ہی نمٹتی ہے ۔ مزید برآں، اگر سفیر کے روپ میں آنے والے جاسوس نے صرف جاسوسی نہیں کی ، یعنی صرف معلومات اکٹھی نہیں کیں ، بلکہ جنگی کارروائی کے دوران میں کسی کو قید ، زخمی یا قتل بھی کیا تو قانونِ جنگ کی رو سے یہ”غدر” یعنی perfidy کہلاتا ہے جو ایک سنگین جرم ہے ۔ایسا البتہ صرف اس وقت ہوگا جب یہ کام اس شخص نے جنگ کے دوران میں کیا ہو ۔ اگر حالتِ امن میں اس نے یہ کام کیا ہو تو اس پر قانونِ جنگ ، یعنی جنیوا معاہدات اور دیگر متعلقہ قواعد و ضوابط، کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ حالتِ امن میں جاسوسوں پر ریاست کے اپنے قانون کا اطلاق ہوتا ہے ۔

یہاں البتہ چند امور مدنظر رکھنا ضروری ہے :
ایک یہ کہ اسلامی شریعت جنگ میں براہِ راست حصہ لینے (direct participation)اور بالواسطہ حصہ لینے (indirect participation) میں فرق کرتا ہے اور صرف اسی کو مقاتل قرار دیتا ہے جو جنگ میں براہِ راست حصہ لے۔
دوسرے یہ کہ جب کسی کو امان دی گئی تو محض اندیشے یا الزام پر اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر اس کی جانب سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اسے امان کے خاتمے سے آگاہ کرکے اس کے محفوظ مقام تک اسے پہنچایا جائے گا ۔ البتہ اس کی جانب سے امان کی سنگین خلاف ورزی براہِ راست ہوئی ہو تو پھر اس کے خلاف اقدام کیا جاسکتا ہے ۔
تیسرے یہ کہ ایسے شخص کے خلاف کارروائی کا ختیار افراد کو نجی طور پر حاصل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا حکمران ہی اس کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے ۔
اس آخری امر کے مختلف پہلووں پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے جو اگلے سوال کے جواب میں کی جائے گی ۔

فاروقی صاحب کا دوسرا سوال
“کیا کسی عسکری تنظیم کو یہ حق ہوگا کہ وہ یہ کہہ کر کسی سفارتخانے پر حملہ کردے کہ ہمارا ٹارگٹ سفیر نہیں بلکہ یہ محارب انٹیلی جنس اہلکار تھے، وہ ہمیں مارنے کے مشن پر تھے سو ہم نے انہیں مار دیا ؟”
اس سوال پر مختلف پہلووں سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔ اگر سفارتخانہ کسی مسلمان ریاست کے اندر ہے اور متعلقہ افراد وہاں کی حکومت کی اجازت سے آئے ہوں تو جب تک حکومت امان کے خاتمے کا اعلان نہیں کرلیتی ، تب تک کسی کو ان افراد پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہ حملہ حکومت خود بھی نہیں کرسکتی ، کسی سے کروا بھی نہیں سکتی اور کسی کو کرنے بھی نہیں دے گی ۔
2۔ اگر کسی ریاست میں مسلمانوں کی حکومت اور باغیوں کے درمیان حالتِ جنگ ہو اور فریقین میں ایک گروہ نے کسی تیسرے شخص کو امان دی تو دونوں گروہوں پر لازم ہوگا کہ اس تیسرے شخص پر حملہ نہ کرے کیونکہ ایک مسلمان کی دی گئی امان سب مسلمانوں پر لازم ہوجاتی ہے اور چونکہ بغاوت یا خانہ جنگی کے باوجود دونوں گروہ مسلمان ہی رہتے ہیں ، اس لیے دونوں پر اس امان کی پابندی لازمی ہوگی ۔ البتہ اگر یہ شخص جنگ کے دوران میں ان برسرِجنگ فریقین میں کسی فریق کی مدد کرتا ہے تو دوسرے فریق کے لیے اس کے خلاف کارروائی جائز ہوجاتی ہے ۔ تاہم یہاں وہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جنگ میں براہِ راست حصہ لینے اور بالواسطی حصہ لینے میں شریعت فرق کرتی ہے اور اس فرق کا اثر اس شخص پر حملے کے جواز پر بھی پڑ سکتا ہے ۔
3۔ اگر مسلمانوں کے علاقے سے باہر جاکر غیرمسلموں کے علاقے میں کسی سفارتخانے پر حملہ کیا جائے تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ کیا مذکورہ قوم کے ساتھ مسلمانوں کا امن کا معاہدہ تھا یا نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ مذکورہ سفارتخانے یا اس کے عملے کے ساتھ مسلمانوں کا امن کا معاہدہ تھا یا نہیں ؟ اگر اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے تو پھر اس حملے کو قانوناً غلط نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ حکمتِ عملی پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ اگر مذکورہ قوم کے ساتھ ، یااس سفارتخانے کے عملے کے ساتھ ، مسلمانوں کا امن کا معاہدہ ہوا تھا تو پھر دوسرے مسلمانوں کو اس پر حملے سے گریز لازم تھا ، الا یہ کہ عملہ مسلمانوں کے اس گروہ کے خلاف برسرِ جنگ ہو ۔ اس صورت میں البتہ یہ دیکھا جائے گا کہ حملہ آور کہاں سے آئے؟ اگر حملہ آور ایک مضبوط جتھا رکھتے ہوں اور وہ ان مسلمانوں کے علاقے سے آئے جنھوں نے اس عملے کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تھا تو پھر وہ مسلمان بھی اس حملے کے لیے ذمہ دار متصور ہوں گے ۔ البتہ اگر حملہ آور چند گنے چنے افراد ہوں ، یا کسی آزاد علاقے سے حملہ آور ہوئے ہوں ، تو دوسرے مسلمان اس حملے کے لیے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔

فاروقی صاحب کا تیسرا سوال
“ا گر حملہ واقعتا انٹیلی جنس اہلکاروں پر ہی کیا گیا اور سفیر بھی زد میں آگئے تو حکم شرعی کیا ہوگا ؟”
اس سوال کا جواب دوسرے سوال کے جواب سے واضح ہوگیا ہوگا۔
اگر سرے سے حملہ ناجائز تھا ، تو پھر یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ حملے کی زد میں کون آیا ۔
البتہ اگر حملہ جائز ہو اور پھر اس کی زد میں بعض وہ لوگ بھی آگئے جنھیں امان دی گئی تھی تو یہ شرعاً غلط ہوا ۔ اس صورت میں ایک تو حملے کے وقت، جگہ اور ہدف کے انتخاب میں ہر ممکن احتیاطی تدبیر اختیار کرنا ضروری تھا ؛ دوسرے یہ یقینی بنانا ضروری تھا کہ جس شخص کو امان دی گئی تھی وہ کسی طرح بھی زد میں نہ آئے ۔
اگر اسے بچانا ممکن ہی نہیں تھا تو پھر یہ حملہ موخر کرنا ضروری تھا کیونکہ غدر، یعنی عہد شکنی کی اجازت کسی صورت بھی نہیں ہے ، یہاں تک کہ اضطرار کی حالت میں بھی نہیں ۔
البتہ اگر یہ معلوم نہیں تھا کہ مذکورہ شخص بھی اس مقام پر موجود تھا ، یا غالب گمان یہ تھا کہ وہ وہاں سے نکل گیا ہے ، اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھی حملے کی زد میں آیا ہے تو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ غلطی ہوئی ہے اور اس کی تلافی ضروری ہے جس کے لیے معاہدے میں اگر کچھ طے کیا گیا ہو تو اسی پر عمل کیا جائے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ضمنی سوال
بعض دوستوں نے کمنٹس میں بھی بہت سے سوالات کیے ہیں۔ توقع یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کا جواب اس تفصیلی بحث میں آگیا ہے۔ ایک بات کی البتہ خصوصی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ نکتہ کئی دوستوں نے اٹھایا ہے ۔
سفیر کو دیے گئے تحفظ کی بنیاد شرعاً امان کے عقد پر ہے اور امان کا عقد مقررہ وقت کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے ، جیسے “تمھیں دس سال کے لیے امان دے دی گئی ” اور وقت کی قید کے بغیر مطلقاً بھی ، جیسے “تمھیں امان دے دی گئی “۔ اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سفیر صرف ایک مخصوص بیغام لے کر مختصر وقت کے لیے آٰیا ہے یا طویل مدت کے لیے اقامت پذیر ہے اور دونوں گروہوں کے درمیان مسلسل رابطے کا کام کررہا ہے ۔ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے اسے امان کن شرائط پر دی ہے اور وہ ان شرائط کی پابندی کررہا ہے یا نہیں؟
ھذا ما عندی ، والعلم عند اللہ ۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply