نمرتا، نوشین اور پریا کماری۔ ۔امر جلیل

ایک تھی نمرتا۔ایک تھی نوشین۔ ایک تھی پریاکماری، بلکہ ہے۔ میرا مولیٰ پریا کماری کو اپنی امان میں رکھے۔ اسکی حفاظت کرے۔ کل کائنات کا خالق اور مالک پریا کماری کا بال بھی بیکا ہونے نہ دے۔ نمرتا اور نوشین اللہ سائیں کو پیاری ہوچکی ہیں۔
آسمانوں پرجب سمجھ بوجھ بانٹی جارہی تھی تب ہم فقیر نہ جانے کہاں تھے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سی باتیں فقیر کی سمجھ میں نہیں آتیں۔جب تک ہم اس دنیا میں مستیاں، بلکہ خرمستیاں کرتے رہتے ہیں۔ لوگوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ لوگوں کو زندہ رہنے کا مزاچکھاتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے سروسامان، جمع پونجی درودیوار اور املاک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ان کو جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیتے ہیں۔ ان کو ایسے چکروں میں ڈال دیتے ہیں کہ عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے وہ لوگ پاگل خانے پہنچ جاتے ہیں۔ اور پھر نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ دنیا کو تاراج کرنے والے اچانک اللہ سائیں کو پیارے لگتے ہیں اور یہ دنیا چھوڑ کرچلے جاتے ہیں۔ اپنے پیچھے ڈراؤنے قصے کہانیوں کے انبار چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ کا واسطہ کبھی اندرون سندھ، اندرون پنجاب، اندرون بلوچستان کے سرداروںجاگیرداروں، وڈیروں اور پیروں سے پڑا ہے؟ لاکھ بھلانے کے باوجود آپ چھٹی کا دودھ یاد کرنے پرمجبور ہوجائیں گے۔ کیا مجال کہ وہ کسی کی پکڑمیں آئیں۔انہوں نے ملک کو جاگیر کی طرح آپس میں بانٹ رکھا ہے۔وہ اپنی اپنی حدود میں اختیار کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی حدود میں ان کا اپنا قانون چلتا ہے۔ اپنی اپنی رعایا سے ووٹ لیکر وہ ایوان اقتدار میں رعب داب سے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

نمرتا لاڑکانہ کے میڈیکل کالج میں پڑھ رہی تھی۔ ڈاکٹر بننے والی تھی۔ کالج کے ہاسٹل میں رہتی تھی۔ ایک روز وہ اچانک اللّٰہ سائیں کو پیاری ہوگئی… وہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کوبھی بہت پیاری تھی۔مگر جب وہ اللّٰہ سائیں کو پیاری ہوگئی تب وہ یہ دورنگی دنیاچھوڑ کر چلی گئی۔ دنیا چھوڑنے کے لیے نمر تا نے دوپٹے کا پھندا گلے میں ڈال کر چھت کے پنکھے سے لٹک کرجان دے دی۔ سرکاری سیانے جائے واردات پر پہنچے دیکھتے ہی انہوں نے فیصلہ سنادیا کہ یہ کھلم کھلا خود کشی ہے۔
یہ درست ہے کہ جب سوجھ بوجھ بانٹی جارہی تھی اس وقت فقیر گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ مگر فقیروں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ نمرتا نے چھت سے لٹکتے ہوئے پنکھے سے اپنا دوپٹہ کیسے باندھا ہوگا۔سیانوں کو فقیروں کے وسوسے کی بھنک پڑگئی۔ سیانوں نے رپورٹ میں لکھ دیا کہ پلنگ پر کرسی رکھ کر، اور پھر کرسی پرکھڑے ہوکر نمرتا نے اپنا دوپٹہ پنکھے سے باندھا تھا اور پھر دوپٹے کاپھندہ گلے میں ڈال کر پنکھے سے لٹک گئی تھی۔ اس کی موت دم گھنٹے سے ہوئی تھی۔فقیر کی جاسوسوں اور کھوجیوں سے سلام دعا نہیں ہے۔ فقیر نے اپنے پلنگ پرکرسی رکھ کر، کرسی پر کھڑے ہونے کی سعی کی تھی اور دھڑام سے گر پڑا تھا۔ فقیر نے دوسری بار پلنگ پر رکھی ہوئی کرسی پر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور دوسری مرتبہ بھی فرش پر آگرا۔فقیر نے تیسری مرتبہ پلنگ پررکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ تیسری مرتبہ بہت برے طریقے سے منہ کے بل نیچے گرا اور اٹھنے کے قابل نہ رہا۔ تب فقیر نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ فقیر نے لکھا کہ پلنگ پرکرسی رکھ کر، اور پھر کرسی پر چڑھ کر، کھڑے رہ کر پنکھے سے دوپٹہ باندھنا امکان سے باہر ہے۔ سیانوں کاکوئی ماہر پلنگ پر کرسی رکھ کر، کرسی پر دس سیکنڈ کے لیے کھڑا ہوکر دکھائے۔نمرتا کواس دنیا سے رخصت ہوئے دوتین برس گزر گئے ہیں۔ دنیا کو تاراج کرنے والوں کابول بالا ہے۔ یہ خودکشی کاکیس ہے۔ فائل بند…ٹھپ… نمرتا اللّٰہ سائیں کو پیاری ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نمرتا کے اللّٰہ کو پیاری ہوجانے کے دوسال بعدحال ہی میں میڈیکل کالج کی طالبہ نوشین کاظمی اللّٰہ سائیں کو پیاری ہوگئی۔ وہ بھی عین نمرتا کی طرح اللّٰہ سائیں کو پیاری ہوگئی۔ اسکی لاش بھی ہوسٹل کے کمرے میں چھت کے پنکھے سے لٹک رہی تھی۔ لیکن نوشین نے نمرتا کی طرح چارپائی یا پلنگ پرکرسی رکھ کر، اور پھر کرسی پر کھڑے ہوکر چھت کے پنکھےسے دوپٹہ باندھ کر اور دوسرے سرے سے دوپٹہ کا پھندا بناکر، گلے میں ڈال کر خود کشی نہیں کی تھی۔ نوشین نے میز پرکھڑے ہوکر پنکھے سے دوپٹہ باندھا تھا، اور دوپٹہ کے دوسرے سرے سے پھندا بناکر گلے میں ڈال کرخودکشی کرلی تھی۔ یہ میرا کہنا نہیں ہے۔ یہ سرکاری سیانوں کی چھان بین سے اخذ کردہ نتیجہ ہے۔ واردات کرنے والوں سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے۔ وہ لوگ نوشین کے پیروں کے نیچے سے میز ہٹانابھول گئے تھے۔ پنکھے سے لٹکتی ہوئی نوشین کے پیر میز کوچھو رہے تھے۔ گلے میں پھندہ ڈال کر اللّٰہ سائیں کو پیارا یا پیاری ہونے کے لیے آپ کا لٹکنا، ہوا میں معلق ہونا لازمی ہے۔ نوشین کی لاش ہوا میں معلق نہیں تھی۔ نوشین سندھ کے انقلابی،ہردل عزیز شاعر استاد بخاری کی نواسی تھی۔ کیس ٹھپ…closed۔
سات سال کی پریا کماری اپنے گھر کے سامنے کھیل رہی تھی۔ ماں باپ پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑی۔ پریا کماری غائب ہوگئی اس سانحے کودس پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ مجھے شدت سے محسوس ہورہا ہے کہ پریا کماری اپنی بچی ہے۔ میری روح کا حصہ ہے۔ لگتا ہے میں گم ہوگیا ہوں انہی دنوں سندھ کے لوگوں نےبڑے جوش وخروش سے ثقافتی دن منایا تھا۔ لاکھوں لوگ اگر مل کر میری بچی کو تلاش کرتے تو آج پریاکماری اپنے گھر ہوتی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply