سی پیک، پاکستان کی ترقی، ایک سراب یا حقیقت؟

پاکستان میں جب بھی کوئی سول حکومت، پاکستان کی ترقی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ کوئی  منصوبہ شروع کرتی ہے تو نامعلوم ذریعے سے اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی کرپشن سے ڈرایا جاتا ہے، تو کبھی اوور کاسٹنگ سے اور کبھی اس چیز سے ڈرایا جاتا ہے کہ اس پروجیکٹ سے پاکستان میں آمریت کا دور شروع ہو گا اور انسانی حقوق  کی خلاف ورزیاں ہوں گی۔ جب کچھ بھی نہ بن پڑے تو اس بات کا پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کی سلامتی اور مذہب کے لیے خطرہ ہے۔

آ ج کل کچھ فورمز پر اس بات کی تشہیر کی جا رہی ہے کہ یہ پروجیکٹ گیم چینجر (game changer ) نہیں، بلکہ گیم اوور(game over) ہے۔ آئیے اس بات کا تجزیہ کرتے ہیں اور کچھ بنیادی اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔

1. چین گوادر پورٹ سے نوے فیصد کمائے  گا اور پاکستان صرف دس فیصد۔ کسی بھی نئے بڑے پروجیکٹ کو بنانا، اسے کامیابی کے ساتھ چلانا، نیا انفرا سٹرکچر بنانے میں بہت بڑی سرمایہ کاری، مہارت اور اِختَصامی عِلم درکار ہوتا ہے۔ جو کہ پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ تو جب کوئی اتنی بڑی انویسٹمنٹ کرے گا تو لازمی طور پر اس کا پروفٹ میں سے حصہ  زیادہ اور بڑا ہو گا۔ پاکستان کو ایک پیسہ خرچ کیے بغیر اگر نیٹ پڑوفٹ میں سے دس فیصد ملتا ہے تو کیا بُرا سودا ہے؟ اگر پاکستان کی کوئی  جگہ کوئی  پیسہ خرچ کیے بغیر ترقی کر جاتی ہے تو اس میں کیا بُرائی ہے؟ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بغیر کسی بیرونی مدد کے اس بندرگاہ کو بنا سکتا تھا؟ اگر ہاں تو پچھلے ستر سال سے کیوں نہیں بنائی؟ اور اگر نہیں تو چین کے ساتھ کیوں نہیں بنا سکتے؟


2. چین کی کمپنیاں کو ٹیکس ریبیٹ اور چھوٹ ملے گی۔ جس کی وجہ سے لوکل کمپنیوں کو مشکل پیش آئے گی مقابلہ کرنے میں۔ یہ بھی ایک گمراہ کن بیان ہے۔ ابھی تک کوئی بھی لونگ ٹرم سرمایہ کاری کا پلان سامنے نہیں آیا۔ ابھی تک صرف پاور سیکٹر میں چین کی انویسٹمنٹ کے منصوبوں کا پتہ چلا ہے۔ جس میں چین کو ٹیکس میں چھوٹ ملی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ ہم شدید قسم کی پاور شارٹیج کا شکار ہیں۔ اس ریبیٹ سے عام پاکستانی کو سستی بجلی ملے گی۔ کیونکہ  جب پروجیکٹ سستا بنے گا تو لامحالہ بجلی بھی سستی ملے گی۔

3. سڑکیں بنانے کے لیے پاکستان پیسہ دے رہا ہے۔ جبکہ اسے استعمال چین کرے گا اور فائدہ اُٹھائے گا۔ پہلی بات کہ یہ سڑکیں پاکستان کی ملکیت ہیں اور ہوں گی۔ جتنا بھی ٹول ٹیکس جمع ہو گا وہ پاکستان کو ملے گا۔ ان سڑکوں سے لوکل پاکستانیوں اور بزنس مین کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ دوسری بات چینی کمپنیاں ان سڑکوں کو چینی پیسے سے بنا رہی ہیں، جو کہ اُن کو بہت رعایتی قیمت پر چین سے ملا ہے۔ پاکستانی عوام اور بزنس مین بھی اس انفراسٹرکچر کو استعمال کر سکتے ہیں۔

4. پاکستان نے جو انرجی سیکٹر کے لیے قرض لیا ہے اسے مہنگے داموں سود کے ساتھ واپس کرنا ہوگا۔ یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے۔ 46 بلین ڈالر قرضے میں سے تیس بلین ڈالر انرجی سیکٹر کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اس قرضے سے انرجی پروجیکٹ چینی کمپنیاں بنائیں گی۔ کما کر قرضہ بھی کمپنیاں ادا کریں گی۔ یہ انرجی پروجیکٹ بوٹ (boot) کی شرط پر بن رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے، بنانا، چلانا (عارضی مالک بن کر) اور آخر میں پاکستانی حکومت کو دے دینا ۔ حکومت پاکستان ان سے بجلی خریدنے کے بعد کمرشل اور عوام کو بیچے گی ۔ حکومت پاکستان نے کوئی قرضہ نہیں لیا ان پروجیکٹس کے لیے۔ چینی کمپنیاں قرضہ اپنے پروفٹ میں سے ادا کریں گی۔


5. پاکستان کو کوئی مالی فائدہ نہیں ان انرجی پروجیکٹس سے۔ یہ ایک مضحکہ خیز اعتراض ہے۔ ان پروجیکٹس سے پوری پاکستانی قوم کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ یعنی توانائی  کا مسئلہ حل ہو جائے  گا۔ اور کہا جا رہا ہے کہ مالی فائدہ نہیں ہو گا۔ پاکستانی حکومت کی تو اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنا پرانے  سرکولر دیبٹ ہی کو ختم کر سکے کجا کہ پاکستانی حکومت کچھ کمانے کا سوچے۔
6. ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انڈیا سولر بجلی چار سینٹ میں خرید رہا ہے جبکہ ہم کوئلہ کی بجلی آٹھ سینٹ میں خریدیں گے۔ پہلی بات کہ سولر کا کوئلہ سے کوئی  تقابل نہیں۔ دوسرا انڈیا اور پاکستان ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں بہت فرق ہے۔
7. ایک اور سب سے مضحکہ خیز الزام لگایا جاتا ہے کہ سی پیک دراصل چینیوں کی آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جو پاکستان پر قبضہ کر لے گی۔ آج سے کوئی  تین چارسو سال پہلے برٹش “ایسٹ انڈیا کمپنی انڈیا” کے نام سے پیسہ کمانے آئی  تھی۔ اس وقت انڈیا ایک سونے کی چڑیا تھی۔ کچھ ماہرین کے مطابق انڈیا کا جی ڈی پی تقریباً %25 تھا اور انگلینڈ کا %5 سے بھی کم تھا۔ اب چین دوسری بڑی معاشی طاقت ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں، یہ سب کو پتہ ہے۔ ہمارے پاس صرف ہوائی  باتیں ہیں اور کچھ نہیں۔ تو آخر چین ہمارے جیسے غریب ملک جو دہشتگردی کا شکار بھی ہے، پر کیوں قبضہ کرے گا؟ آخری بات کہ چین کی تاریخ کے مطابق یہ وہ قوم ہے جو قبضہ نہیں کرتی اور نہ مسلط ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

8. ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ چین کے آنے سے ہمارے مذہب اور ثقافت کو خطرہ ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ چین پیسہ کمانے آرہا ہے اسے ہمارے مذہب اور ثقافت سے کوئی  دلچسپی نہیں۔ البتہ وہ ہمیں ہرگز ہرگز بھی نہیں چھوڑے گا کہ ہم مذہب ، فرقہ اور قومیت کے نام پر کوئی  دہشتگردی کر سکیں۔ کیونکہ پیسہ وہاں کمایا جاتا ہے جہاں امن ہو۔چینی قوم دوسرے مذاہب اور کلچر کی تعظیم کرتی ہے، مگر وہ تجارت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہوئے اس کی راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کرتی چاہیے وہ کلچر سے ہو یا مذہب سے، مگر یہ سمجھنا کہ چینی مسلمانوں کے روزے، نماز پر پابندی لگا دیں گے تو یہ الزامات پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔ وہ مذہب کو ہر انسان کا ذاتی عمل سمجھتے ہیں۔


9. ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا ریا ہے کہ سی پیک سے پاکستان چینی چیزوں سے بھر جائے  گا اور ہماری لوکل انڈسٹری تباہ ہو جاۓ گی۔ ایک بات یاد رکھیے کہ چینی یہ انفراسٹرکچر پاکستان کو اپنی چیزیں بیچنے کے لیے نہیں بنا رہے، بلکہ دوسری دنیا تک اپنا مال پہنچانے کے لیے بنا رہے ہیں۔ چائینز کنٹینرز سیل بند چین کے  بارڈر سے چلیں گے اور سیل بند ہی گوادر سے باہر کی دنیا کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ پاکستان تو پہلے ہی سے چینی مال سے بھرا پڑا ہے۔ اس سڑک کا سمگلنگ سے کوئی  تعلق نہیں۔

10. ایک عجیب بات جو اس بار ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس پروجیکٹ پر سب سے زیادہ اعتراض پنجاب سے آ رہا ہے جسے سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ پختونخوا، بلوچستان، سندھ صرف اس بات سے خوش ہیں کہ اس پروجیکٹ سے ان کو دہشتگردی سے نجات ملے گی کیونکہ چین نے اب ہمیں چھوڑنا نہیں ہے مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے کو۔

11. ایک آخری اعتراض یہ ہے کہ چین کا ریکارڈ چونکہ انسانی حقوق کے معاملے میں خراب ہے اس لیے ہمارے ملک میں جب چینیوں کا عمل دخل زیادہ ہوگا تو ہمارے ملک میں بھی فرد کی آزادی مجروح ہو گی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جائیں گی۔ یہ اندیشہ وہ کرے جس کے ملک میں کبھی انسانوں پر ظلم نہ ہوا ہو۔ ہمارا اپنا ریکارڈ تو چین سے بھی بُرا ہے تو چین کے آنے سے اور کتنا ظلم زیادہ ہو جائے گا؟ ہم نے پچھلے ستر سالوں میں جتنا اپنے شہریوں پر ظلم کیا ہے، ان کو مارا ہے، اتنا ظلم تو شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ پاکستانی بہت سخت جان قوم ہیں۔ انہوں نے چار ڈیکٹیٹروں کو ذلت سے مار کر نکالا ہے، چالیس سال سے دہشتگردوں کے ہاتھوں مر ے۔ مگر پھر بھی ہار نہیں مانی۔ اس قوم کو قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بس یاد رکھیے چین کو صرف دو باتوں سے مطلب ہے۔ امن اور کام۔

سی پیک سے خود بخود خوشحالی نہیں آئے گی۔ کچھ ہمیں بھی ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے۔ ہمیں اپنی خوشحالی اور ترقی کے لیے خود اس پروجیکٹ سے راستہ نکالنا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ سی پیک منصوبے میں ہمارا تجارتی طبقہ سرمایہ کاری اور حصہ داری سے محروم ہوگا۔ پاکستانیوں کے لیے بھر پور مواقع موجود ہیں۔ مگر یہ ہماری حکومت کا کام ہے کہ وہ قومی مفادات کی خاطر کیا حکمت عملی بناتے ہیں جس سے ہم اس منصوبے سے بھر پور فوائد حاصل کرسکیں۔ اقتصادی زونز کا قیام بھی ہو گا۔ جس میں چینی اور پاکستانی مل کر انڈسٹریز لگائیں گے۔ سی پیک ہر ایک پاکستانی کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ مگر یہ زینہ اس وقت استعمال ہو سکتا ہے جب انفراسٹرکچر اور بجلی ہو اور چین یہ سب کچھ بنا رہا ہے آپ کے ملک میں۔ آپ کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی  یہ بات کہتا ہوں کہ ۔۔اچھی امید رکھیے کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔ اب پاکستان اور اس کی قوم نے صرف آگے جانا ہے اور بس۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم شکر گزار ہیں ڈاکٹر ہارون رشید، کے کہ ان کی ایکسپریس تریبیون کی ایک تحریر سے مدد ملی۔ ڈاکٹر صاحب سی پیک سنٹر یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply