خون آشام ۔آنگ سان سوچی۔۔۔داؤد ظفر ندیم

میں پنجاب یونیورسٹی میں علم سیاسیات کا طالب علم تھا جب محترمہ آنگ سان سو چی کا نام پہلی بار پتہ چلا۔ یہ وہ دور تھا جب برما واپس پہنچنے کے بعد آنگ سان سو چی نے ملک میں جمہوریت کے لیے کوششیں شروع کی ہوئی تھیں ۔ آنگ سان سو چی نے مارٹن لوتھر اور مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفلے پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں پرامن ریلیوں کا انعقاد کیا اور ملک میں جمہوریت کے کوششیں جاری رکھیں لیکن فوجی حکمرانوں نے طاقت کا بے دریغ استعمال سے ان کی پرامن جدوجہد کو کچل کر رکھ دیا۔ انیس سو نوے میں ہونے والے انتخابات میں آنگ سان سو چی کو نااہل قرار دیئے جانے اور حراست کے باوجود ان کی سیاسی جماعت نے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔
محترمہ جنوبی ایشیا میں ہم جیسے جمہوریت پسند نوجوانوں کے لئے بہادری کی ایک علامت بن گئیں
اس وقت تو ہم لوگ محترمہ کے لئے زبردست احترام اور عقیدت سے بھرے تھے جب برما کے فوجی حکمرانوں نے 1991ء میں ان کی جماعت نیشل لیگ فار ڈیموکریسی کی کامیابی کو ماننے سے انکار کر دیا اور آنگ سان سو چی کو حراست میں لے لیا۔ دوران حراست ہی آنگ سان سو چی کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل انعام کمیٹی میں شامل فرانسس سیجسٹیڈ نے آنگ سان سو چی کو ’کمزورں کی طاقت‘ قرار دیا تھا۔ دو عشروں میں پہلی بار انتخابات میں آنگ سان سو چی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہ نہ صرف برما کے لوگوں کے لیے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لئے امید کی نشانی بن گئیں۔۔ آنگ سان سو چی کو 1995ء میں رہا کر دیا گیا لیکن ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں برقرار رکھی گئیں۔ دو ہزار نو میں آنگ سان سو چی کو دو ہزار نو میں حراست کی خلاف ورزی کے الزام میں اٹھارہ ماہ کی سزا سنا دی گئی۔
ان کے والد نے برما کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر ن انیس سو سینتالیس میں ملک کو اقتدار اعلیٰ کی منتقلی کے دوران قتل کر دیا گیا۔ باپ کے قتل کے وقت آنگ سان سو چی کی عمر صرف دو برس تھی۔ انیس سو چونسٹھ میں آنگ سان سو چی پہلی آکسفورڈ یونیورسٹی پہنچیں جہاں انہوں نے فلسفے، سیاست اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ہی آنگ سان سو چی کی اپنے شریک حیات مائیکل ایرس سے ملاقات ہوئی۔ کچھ عرصہ تک جاپان اور بھوٹان میں رہنے کے بعد آنگ سان سو چی نے برطانیہ میں مستقل سکونت کا فیصلہ اور ایک گھریلو ماں کی طرح اپنے دو بچوں، الیگزینڈر اور کم کی پرورش شروع کی۔
نومبر 2010ء میں برما کی فوجی حکومت نے ان کی رہائی کا اعلان کیا جس کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا گیا۔
یہ ایک امید کی بات تھی ایک نئے سورج کے طلوع ہونے کی نشانی، مگر آج جب محترمہ برما میں ایک مضبوط سیاسی حیثیث رکحتی ہیں عملا حکومت کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں تو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات نے ان کا تابناک چہرہ دھندلا دیا ہے آج کا نوجوان انھیں ایک نسل پرست اور جابر حکمران کے طور پر دیکھتا ہے کہا جاتا ہے وہ فوج سے تعلق خراب کرکے برما میں آمریت کی واپسی نہیں چاہتی مگر ان کو سوچنا چاہیئِے کہ وہ ایک ایسے ملک میں حکومت کی راہنمائی کر رہی ہیں جہاں ان کے امن، جمہوریت اور برداشت کے دعوءوں کو سخت دھچکا پہنچ رہا ہے ہم جیسے ان کے پرانے خیر خواہ یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اگر کچھ بہتری نہپیں لا سکتیں تو حکومت ضرور چھوڑ سکتی ہیں
ہر آنے والا دن ان کی شخصیت کے بت کا پاش پاش کر رہا ہے۔ اب ان کے کسی مداح کے لئے ممکن ہی نہیں رہا کہ ان کا کسی طرح بھی دفاع کر سکے برمی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرکے جو کالک تیار کی ہے وہ ان کے چہرے پر انڈیل دی ہے کاش انھیں اس بات کا احساس ہو سکے کہ اب ان کا تابناک ماضی، ان کی امن پسندی، جمہوریت کی جدوجہد اور برداشت کی باتیں دور رہ گئی ہیں اب ان کی پہچان ایک ایسی لیڈر کے طور پر کی جائے گی جن کے دور میں بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ان کی نسل کشی کی۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ میری زندگی لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply