ویکسین (1) ۔ تاریخ/وہارا امباکر

بیماریوں کے خلاف میڈیکل سائنس کے ہتھیاروں میں سے سب سے موثر ترین ہتھیار ویکسین کا ہے۔ یہ صدیوں سے بنائی جاتی رہی ہے۔
یہ شروع کہاں سے ہوئی؟ اس بارے میں ہمیں ٹھیک علم نہیں۔ اس کے ابتدا کی عام بتائی جانے والی مشہور کہانی برطانیہ کے ایڈورڈ جینر کی ہے جنہوں نے جیمز فپس کو کاؤ پوکس کے جراثیم داخل کر کے چیچک کے خلاف ان کی امیونٹی بنائی تھی۔ لیکن اس کی ابتدا اس سے بہت پہلے اور یہاں سے بہت دور ہوئی تھی۔
چیچک کے دانے سے پیپ لے کر صحتمند شخص کی جلد پر رگڑی جاتی تھی اور اس سے اس شخص کو امیونٹی مل جاتی تھی۔ اس عمل کو variolation کہا جاتا ہے اور جب ایڈورڈ جینر نے یہ کیا تو یہ اس سے پہلے اچھی طرح سے اسٹیلش ہو چکا تھا۔ جینر نے اس میں جس جدت کا اضافہ کیا، یہ چیچک کے دانے کے بجائے کاؤ پوکس سے کرنے کا تھا۔
جینر کا طریقہ زیادہ محفوظ تھا اور ویکسین بنانے کے طریقوں میں میں نت نئی جدتوں کا سفر اب بھی جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویریولیشن کا طریقہ یورپ میں مقبول کروانے میں لیڈی میری وورٹلے مونٹاگو کا ہاتھ تھا۔ ان کے شہرت مصنف اور شاعری کے حوالے سے ہے اور “ترکیہ سے خطوط” کے نام سے ان کی یادداشتیں لکھی گئی ہیں۔ ان کے شوہر عثمانی سلطنت میں سفیر تھے۔
لیڈی مونٹاگو نے قسطنطیہ میں ویریولیشن کا عمل 1717 میں دیکھا تھا اور اپنے لکھے گئے ایک مشہور خط میں اس کا تذکری کیا۔ اس سے اگلے سال ان کے بیٹے کی ترکیہ میں ویریولیشن ہوئی جبکہ ان کی بیٹی کی برطانیہ میں 1721 میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ میں ابتدا میں اس کے خلاف بڑی مزاحمت رہی۔ ابتدائی تجربات قیدیوں پر کئے گئے۔ ان کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر بچ گئے تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا (اور یہ بچ گئے)۔
اس پروسیجر میں خطرات تھے اور برطانیہ میں اسے کرنے والوں میں اسے بہتری کے لئے تکنیک نکالیں اور جب جینر نے کاوؤپوکس کے ذریعے ویکسین بنائی تو یہ پہلے سے بہت محفوظ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ کہ یہ عثمانی سلطنت میں کہاں سے آئی؟
جس وقت لیڈی مونٹاگو نے یہ خط لکھا، اس وقت یہ دنیا میں کئی جگہوں پر کیا جاتا تھا۔ 1714 میں قسطنطیہ کے ڈاکٹر ٹمونیس نے لکھا ہے کہ ترکیہ میں یہ قفقاز، جارجیا اور دوسرے ایشیائی لوگوں نے متعارف کروایا تھا۔ اور جب انہوں نے یہ لکھا تو اس کے جواب میں برطانیہ کے کوٹن ماہر نے لکھا کہ ان کے ملازم نے اپنے بچپن میں لائبیریا میں بھی یہ کروایا تھا۔ جبکہ ویلز کے دو ڈاکٹروں نے لکھا کہ ویلز میں ایک صدی سے اس کو کروایا جاتا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حلب میں 1786 اس پر لکھنے جانے والے ریکارڈ میں ڈاکٹر رسل لکھتے ہیں کہ انہوں نے مورخین اور ڈاکٹروں کی اس پر مدد لی ہے اور سب کہتے ہیں کہ یہ پرانا طریقہ ہے۔
سوئی کا استعمال بھی پرانا ہے لیکن دیگر طریقے بھی استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں بچے کی کلائی کے گرد چیچک کے جراثیم سے بھرا اون کا ٹکرا لپیٹ دیا جاتا تھا۔ کئی جگہ پر کپڑے کا استعمال ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ابتدا میں دو جگہوں کا خاص طور پر ذکر آتا ہے۔ انڈیا اور چین۔ چین میں اس چیز کا تحریری ریکارڈ ہے کہ سولہویں صدی کے وسط میں چیچک کا مواد ناک میں ڈالا جاتا تھا۔
انڈیا میں اٹھارہویں صدی میں بنگال میں سوئی کی مدد سے یہ عمل کرنے کا ریکارڈ ملتا ہے۔ اور یہ اس سے بہت پہلے سے یہاں پر کیا جاتا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا اور عثمانیوں کے درمیان کی پریکٹس کی مماثلت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ انڈیا سے ترکیہ پہنچا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الگ الگ شروع ہوا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس کی جغرافیائی ابتدا کہاں سے ہوئی، ویکسین کی کہانی انسانی تاریخ میں میڈیکل کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ چیچک جیسے قاتل کا 1980 میں ہونے والا خاتمہ اس کی ایک مثال ہے۔ لیکن اس نے بہت سی اور بیماریوں کی روک تھام میں اور ہمیں محفوظ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply