• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سکول فار آل کیچ کے نادار طلبا کے لئے امید کی ایک نئی کرن۔۔ظریف بلوچ

سکول فار آل کیچ کے نادار طلبا کے لئے امید کی ایک نئی کرن۔۔ظریف بلوچ

کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا، شہر بند اور کاروباری سرگرمیاں ماند تھیں۔تعلیمی ادارے بھی بند اور زیادہ تر لوگ اپنی مصروفیات ترک کرکے اپنے اپنےگھروں میں بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ کورونا نامی وبا ہزاروں گھروں کو اجاڑ چکی تھی، اور لاکھوں افراد اس وبا کا  شکار ہوکر زندگی اور موت کی جنگ لڑرہے تھے، لیکن دوسری طرف  کیچ کا ایک نوجوان اتفاق ایمن کیچ کے تعلیمی ماحول کو قریب سے دیکھ کر کچھ نیا  سوچ رہا تھا۔ ایک ایسا منصوبہ جو علاقے کے غریب طلبا و طالبات کے ادھورے تعلیمی خوابوں کو ایک نئی منزل کے راستے پر گامزن کرے۔

ایمن آخرکار اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی  جائے جو ان بچے اور بچیوں کے سر پر دستِ شفقت رکھ کر پرائمری سے میٹرک تک انکے تعلیمی اخراجات برداشت کرے، اور  تعلیم سے دور بچوں کو آگہی فراہم کرکے دوبارہ سکولوں تک پہنچا دے۔ یہ  کوئی  آسان کام نہیں تھا مگر انسانیت کی خدمت سے سرشار اتفاق ایمن نے چند دوستوں کو ساتھ ملا کر سکول فار آل کی بنیاد رکھی، اور تربت کے غریب و نادر طلبا و طالبات کا ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا، تاکہ ادارے کی جانب سے شروع کیے گئے کام میں براہ راست ضرورت مند طلبا و طالبات مستفید ہوسکیں۔

عورت ذات۔۔ظریف بلوچ

النعیم ریسٹورنٹ تربت کے آخری کونے پر بلاک سے بنائے گئے ایک بنچ پراتفاق ایمن سکول فار آل کے مشن و وژن بیان کررہے تھے اور یہ ایمن بلوچ سے میری پہلی اتفاقیہ ملاقات تھی ۔ کراچی سے تربت پہنچنے کے بعد پنوں کی  سرزمین پر مجھے ایسے کرداروں کی تلاش تھی، جو حقیقی معنوں میں معاشرے کے لئے درد رکھتے ہوئے معاشرے کی  بہتری کے لئے مثبت سرگرمیوں کو فعال رکھے ہوئے ہیں۔

ایمن کے مطابق اس وقت سکول فار آل بیس کے قریب بچوں اور بچیوں کے تعلیمی اخراجات پورے  کررہا  ہے، جو تربت کے مختلف سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ہمارا ادارہ ان طلبا کو سپورٹ کرتا ہے جن کے والد یا سرپرست کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار سے کم ہے۔ چونکہ ادارے کے پاس پروجیکٹ نہ ہونے کی وجہ سے محدود وسائل ہیں۔ادارہ آؤٹ آف سکول بچوں کو بھی سکول کی طرف راغب کرنے میں سرگرم ہے۔

سادہ مزاج رکھنے والا ایمن اس بات پر پُر امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب سکول فار آل کے نیٹ ورک کیچ سمیت پورے صوبے میں پھیل جائے گا اور ہم سینکڑوں غریب اور نادار بچوں و بچیوں کو مفت تعلیم کےزیور سے آراستہ کریں گے۔

لوگوں کی ڈونیشن پر یہ ادارہ چل رہا  ہے کیونکہ اس وقت ادارے کا سرمایہ لوگوں کی جانب سے دیے گئے محدود ڈونیشن ہیں جو کہ ادارے کو زندہ رکھنے کے لئے آکسیجن کا کام کررہے ہیں۔

سبین بلوچ :گوادر کی ایک باہمت خاتون استاد ۔۔ظریف بلوچ

Advertisements
julia rana solicitors

نفسانفسی کے اس دور میں سماج کی  بہتری اور مثبت تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے غریب اور نادار بچوں اور بچیوں کا  تعلیمی بوجھ اٹھانا کوئی آسان کام نہیں مگر جن کے جذبے اور حوصلے بلند ہوں تو انکے لئےکوئی کام مشکل نہیں ہے اور ایمن جیسے جذبہ رکھنے والے نوجوان ایسے کام کرتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ہم روز فضول کاموں میں سینکڑوں اور ہزاروں روپے لٹاتے ہیں اگر ان میں سے کچھ پیسے سکول فار آل یا اس جیسے  کسی سماجی ادارے کے حصے میں ڈالیں تو اس سے نہ صرف سینکڑوں ایسے بچے تعلیم ے زیور سے آراستہ ہوں گے جو انکے لئے ناممکن ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply