مکہ کا تاریخی وجود اور مساجد کا قبلہ (گزشتہ سے پیوستہ)

کچھ عرصہ قبل جب، پیٹریشا کرون اور ڈین گبسن کا کام دیکھنے کا موقع ملا تو میں اور میرے ایک عزیز دوست “میاں عمران”  صاحب نے اس پر کام شروع کیا، اس پر ہم نے ایک مفصل قسط وار تحریری سلسلہ بھی شائع کیا۔ اب دوبارہ مکالمہ پر یہ تحریر شائع ہوئی تو سوچا کیوں نہ اس پر لکھا جائے، پہلی تحریر میں چند باتیں جمع کردیں تھی ۔ اس بار مختصراََ ان چند چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جسے حضرات بطور ثبوت پیش کرتے ہیں مکہ کی غیر موجودگی اور پیٹرا میں نبیﷺ کی پیدائش وغیرہ کو ثابت کرنے کے لیے، اگر تواریخ اور دوسرے رخ سے اسے دیکھا جائے تو یقین کیجئے، اس کے خلاف اتنے قویٰ دلائل موجود ہیں کہ پوری ایک کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔ اس پر چند ایک مسلمان مورخین نے جوابی کام بھی کیا ہے لیکن میں ان کا کام بطور دلیل اس لیے پیش نہیں  کرتا کیونکہ ہمارے اوپر عقید ت کا ٹھپہ فوراََ لگا دیا جاتا ہے اس لئے میں نے خصوصاَ تمام غیر مسلم محقیقین کا  کام پیش کیا تاکہ اعتراض نہ کیا جاسکے۔ اس سے قبل کہ ہم مساجد کے قبلہ کی طرف بڑھیں تو اتمام حجت کے لیے کچھ جدید و قدیم مورخین کے حوالہ جات آپ کے سامنے رکھتا چلوں۔

Reverend Charles Augustus Goodrich:
Whatever discredit we may give to these, and other ravings of the Moslem imposter concerning the Caaba its high antiquity cannot be disputed; and the most probable account is, that it was built and used for religious purposes by some of the early patriarchs; and after the introduction of idols, it came to be appropriated to the reception of the pagan divinities. Diodorus Siculus, in his description of the cost of the Red Sea, mentions this temple as being, in his time, held in great veneration by all Arabians; and Pocoke informs us, that the linen or silken veil, with which it is covered, was first offered by a pious King of the Hamyarites, seven hundred years before the time of Mahomet۔
(Religious Ceremonies and Customs, Or: The Forms of Worship Practiced by the several nations of the known world, from the earliest records to the present time, Charles Augustus Goodrich [Hartford: Published by Hutchinson and Dwine 1834] page 124)

John Reynell Morell:
…historically speaking, Mecca was a holy city long before Mohammed. Diodorus siculus, following agatharcides, relates that not far from the red sea, between the country of the Sabeans and of the Thamudites there existed a celebrated temple, venerated throughout Arabia.
(Turkey, Past and Present: Its History, Topography, and Resources By John Reynell Morell page 84)

Colin Macfarquhar:
The reign of the heavenly orbs could not be extended beyond the visible sphere; and some metaphorical powers were necessary to sustain the transmigration of the souls and the resurrection of bodies: a camel was left to perish on the grave, that he might serve his master in another life; and the invocation of departed spirits implies that they were still endowed with consciousness and power. Each tribe, each family, each independent warrior, created and changed the rites and the object of this fantastic worship; but the nation in every age has bowed to the religion as well as to the language, of Mecca. The genuine antiquity of the Caaba extends beyond the Christian era: in describing the coast of the Red Sea, the Greek historian Diodorus has remarked, between the Thamaudites and the Sabeans a famous temple, whose superior sanctity was revered by ALL THE ARABIANS: the linen or silken veil, which is annually renewed by the Turkish Emperor, was first offered by a pious King of the Homerites, who reigned 700 years before the time of Mahomet.“
(Encyclopaedia Britannica: Or, A Dictionary of Arts, sciences and Miscellaneous Literature Constructed on a Plan Volume 2, by Colin Macfarquhar page 183 – 184)

Andrew Crichton:
“From the celebrity of the place, a vast concourse of pilgrims flocked to it from all quarters. Such was the commencement of the city and the superstitions fame of Mecca, the very name of which implies a place of great resort. Whatever credit may be due to these traditions, the antiquity of the Kaaba is unquestionable; for its origin ascends far beyond the beginning of the Christian era. A passage in Diodorus has an obvious reference to it, who speaks of a famous temple among the people he calls Bizomenians, revered as most sacred by all Arabians.”
(The history of Arabia, ancient and modern Volume 1 [second edition] By Andrew Crichton page 100)

جن مساجد کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے، وہ زیادہ تر طائف اور مدینہ کی مساجد ہیں ۔ اہم بات، ان نقشوں میں قبلہ کے تعین کو سیٹلائیٹ امیجری کی مدد سے متعین کیا گیا ہے، مدینہ میں کچی مٹی کی بنائی گئی مساجد جو عام گھر کی مانند ہوا کرتی تھیں ان کے قبلہ کا تعین یہاں سے بیٹھ کر کرنا اور اس وقت پر قیاس کرنا ایک نہایت عامیانہ کام ہے۔ خیر، اگر ہم ان تمام نقشوں کو درست مان بھی لیں تو بھی وہ مساجد پیٹرا کی طرف رخ کیے ہوئے نہیں  ہیں۔ ایک تصویر دیکھتے چلیے، ایک لمبی بحث کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ یہ ہے، اس بات سے قطع نظر کہ یہ وہ تمام دلائل جن سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے وہ کیسے ہیں، میں مختصراََ صرف اس نتیجہ پر گفتگو کروں گا:

تحویل قبلہ (فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) سے عام مسلمان اور غیر مسلم مورخ واقف ہے، تحویل قبلہ مدینہ منورہ میں ہوا اس سے قبل مسلمانوں کا قبلہ قبلہ اول بیت المقدس تھا۔ یعنی مسلمان قبلہ اول کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہاں پر سمجھانے کی خاطر ہم مسجد قبلتین کو پیش کرتے ہیں تاکہ آسانی رہے کیونکہ اس کے دونوں قبلہ جات کی نشاندہی بآسانی کی جاسکتی ہے اور سعودی حکام نے باقاعدہ مسجد میں کردی ہوئی ہے۔ مسجد قبلتین وہ مسجد ہے جہاں قبلہ بدلا گیا اور قبلہ کعبہ کو بنادیا گیا۔ مسجد قبلتین کا پہلا رخ پترا کی طرف تھا۔ کیونکہ نقشہ کچھ ایسا تھا۔ اگر آپ اس نقشہ کو دیکھیں گے تو مسجد قبلتین کا پہلا قبلہ پترا ہی بنتا ہے۔ جس سے ان احباب کی بات سچ معلوم پڑتی ہے۔ مدینہ کے شمال میں پترا ہے۔ (مسجد قبلتین میں یہ رخ اب بھی دیکھا جاسکتا ہے، اسی کی بنیاد پر سمت واضح کی گئی ہے)

لیکن آپ جیسے ہی نقشہ کو مکمل دیکھیں گے تو اصل کہانی سامنے آتی ہے، یہ رخ اصل میں پترا کی طرف نہیں  بلکہ یہ رخ اصل میں یروشلم میں موجود بیت المقدس (شمال) کی طرف ہے۔ آپ جتنے بھی نقشہ جات اٹھا لیجئے یا ان کی سیٹلائیٹ ایمیجری اٹھا لیجئے ان سب کو بہت چھوٹا پیش کیا جاتا ہے، یا اس کے پیچھے پوری کہانی کو بیان نہیں  کیا جاتا۔

 

رہی بات کچھ دعویٰ جات کی یہ قبلہ دو سو سال تک درست نہ ہوسکا وغیرہ، تو عرض ہے کہ پہلے تو یہ ثابت کیا جائے  کہ کس بنیاد پر ایک چاردیواری والے گھر کی مانند بنی سپاٹ مساجد کے قبلہ کو متعین کیا گیا، ظاہر سی بات ہے اس کا تعین لوگوں کے  رخ کو دیکھ کر ہی کیاجاسکتا تھا۔ اور اگر تب تک محراب کا رواج مان بھی لیا جائے تب بھی اتنے کم وسائل میں مسجد کا رخ بدلنا یہ سب کرنا ممکن نہیں  تھا۔ اور ظاہر سی بات ہے یہ کام بعد میں کیا گیا ہوگا جیسا کہ نماز کے دوران ہی قبلہ تبدیل کیا تو بعد میں نماز کے فوراَ بعد مسجدکا رخ تو نہیں  بدلا گیا ہوگا  صرف نماز کا رخ شمال و جنوب کی رعائیت سے متعین کرلیا گیا ہوگا۔ اور اس کے بعد نئی بنائی جانے والی مساجد کا رخ کعبہ کی طرف رکھا گیا ہوگا، کیونکہ تحویل قبلہ کے بعد کسی مسجد کے فوراَ   منہدم کیے  جانے کا کوئی ثبوت نہیں  ملتا۔ ابن عمر کی روایت میں بھی فجر کے وقت ایک شخص نے آ کر بتایا کہ نبیﷺ پر وحی نازل ہوئی ہے اس لیے نمازی آج سے اپنے چہرے بیت المقدس سے مسجد حرام کی طرف پھیر دیں اور اس کے بعد مسجد قبلتین میں بھی، ایک منادی کرنے والے نے آواز لگائی تو پیش امام نے نماز کے دوران اپنا چہرہ موڑ دیا۔ اس کے بعد ایسی کوئی روایت کم از کم میرے ناقص علم کے مطابق نہیں  ملتی کہ کسی مسجد کو دوبارہ از سر نو صرف قبلہ کے تعین کے لیے تعمیر کیا گیا ہو۔

ایک  ریسرچ پیپر ستمبر پندرہ دوہزار سولہ کونعیم آصف اور ان کے ساتھی دوست نے یونیورسٹی آف پٹرا ملائیشا کے  آرکیٹکٹ ڈیمپارٹمنٹ  کے لیے  پبلش کیا تھا۔ اس میں انہوں نے مسجد نبویﷺ  کا نقشہ پبلش کیا ہے وہ دیکھ لیجئے:

میں حیران ہوں کہ اس قسم کی مساجد کی سیٹلائیٹ ایمیجری اول تو آئی کہاں سے، اور اگر آ گئی تو اس میں قبلہ کا تعین آج بیٹھ کر کیسے کیا گیا، یہ ایک معمہ ہے، جو ابھی تک میں حل نہ کرسکا، اگر آپ کرلیں تو مجھ تک ضرور پہنچائیے گا۔ ھذا ما عندی والعلم عنداللہ

اس تحریری سلسلہ کا خلاصہ “الحاد” نامی ویب سائٹ نے شائع کیا تھا ، پیش کردہ  احادیث اور روایات  کا کچھ حصہ اس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مکمل تحریر کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔اس کے علاوہ ڈین گبسن کے ایک  اور علمی مغالطے کی طرف اشارہ  کرتا چلوں اس کے نزدیک اسکندریہ لائبریری مسلمانوں نے تباہ کی تھی، مولانا شبلی نعمانی نے اس پر ایک رسالہ شائع کیا تھا۔ ہوسکے تو احباب ملاحظہ کرلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

والسلام!

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply