• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیر: زنجیر سلامت ہے،جھنکار سلامت ہے۔۔ انعام رانا

کشمیر: زنجیر سلامت ہے،جھنکار سلامت ہے۔۔ انعام رانا

بہتر برس سے زائد ہوتے ہیں کشمیریوں کی تازہ آزمائش کو شروع ہوے۔ آزمائش تو بہت پرانی ہے کہ کبھی مغلوں نے قبضہ کیا تو کبھی افغانوں نے، کبھی سکھ ریاست عوام کا خون چوستے رہی تو کبھی گلاب سنگھ نے فقط کچھ لاکھ کے عیوض بھیڑ بکریوں کی مانند خرید لیا۔ اس دوران مگر کشمیریوں کو اپنا ایک وطن موجود ہونے کا احساس باقی رہا۔ بلا سے آزادی نا تھی مگر وطن تو تھا، شناخت تو تھی۔

برصغیر کی آزادی نے جہاں پنجاب کی تقسیم کا ستم ڈھایا وہیں کشمیر نے بھی تقسیم دیکھی۔ جو پوری ریاست تھی اب ہندوستان اور پاکستان نامی دو ممالک کے زیر انتظام آئی گو نام کو ہی سہی ایک ریاست کا تصور البتہ باقی ضرور رہا۔ شیخ عبداللہ کو لاکھ برا کہیے، نہرو حکومت سے معاملات کرتے ہوے وہ دھارا تین سو ستر اور پینتیس اے جیسی شقوں کے ذریعے، آئینی اسمبلی سے پاس کئیے اک آئین کے ذریعے ریاست کو ہندوستان سے ایک الگ شناخت دینے میں کامیاب رہے۔ ادھر پاکستان میں بھی چاہے اسے پاکستانی حکومت کا کوئی سیکٹری ہی چلائے، اک آزاد کشمیر حکومت قائم ہے۔ اس سب کے دوران مگر اہلیان کشمیر کے دل میں آزادی اور اک آزاد وطن کا خواب برقرار رہا۔ اس آزادی کی شکل کسی نے جو بھی سوچی، مگر آزادی کی خواہش ضرور باقی رہی۔

بدلتے وقت نے ہندوستان میں مودی کی فاشسٹ حکومت کو قائم کیا اور ہندوستان مذہبی شدت پسندی اور فاشزم کی راہ پہ چل نکلا۔ ایسے میں واحد مسلم اکثریتی اور راہ کی رکاوٹ ریاست کشمیر آنکھوں میں کانٹے کی مانند کھٹکنے لگی۔ وہ ہندوتوا جسے ہندوستان کے مسلمان اور پچھڑی جاتیوں نے برداشت کر لیا تھا، کشمیر میں لاگو کرنا آسان نا تھا۔ ایسے میں مودی سرکار کو اپنی طاقت کا اظہار کرنا تھا اور راہ کی رکاوٹ یا سیکیولر روایات تھیں یا پاکستان اور افسوس دونوں ہی مضبوط رکاوٹ نا رہیں تھیں۔ رہا بین الاقوامی پریشر تو وہ تو کب کا معاشی مفادات کی دیوی کے آگے سیس نوا چکا تھا۔ پانچ اگست دو ہزار انیس کو اٹھایا فاشسٹ قدم مودی سرکار کا اپنے ہی آئین، اخلاقیات اور بین الاقوامی قانون کے منہ پر وہ تھپڑ ہے جسکی گونج تاریخ میں جنگ عظیم اوّل کی مانند دیر تلک قائم رہے گی۔

آج یہ صورت ہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر عملی طور پہ تین حصوں، لداخ کشمیر اور جموں میں بٹ چکا ہے اور برائے نام ہی سہی جو کبھی تھی وہ ریاست کشمیر مرحوم ہو چکی۔ سو دن سے زائد ہوتے ہیں کہ کشمیری دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کرے بھی تو کیا مگر افسوس جو کر سکتا ہے جانے کس خوف سے وہ بھی درست کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب سرینگر پہ کشمیر کا جھنڈا نہیں ترنگا لہرائے گا، مودی کے کارپوریٹ دوست سرمایہ کاری کے نام پر ہندوستانی مفادات لائیں گے، کشمیری اپنی زمین، زبان اور کلچر سے دور ہوتے جائیں گے، اردو رفتہ رفتہ ہندی میں گم ہو گی، شاید رفتہ رفتہ کشمیری بھی باقیوں کی مانند فقط ہندوستانی بن کر رہ جائیں گے۔ میرا بدترین خدشہ ہے کہ شاید آنے والے کچھ وقت میں پاکستان اور ہندوستان میں موجود کشمیر مزید کانٹ بانٹ کر کے جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پہ باقاعدہ ہندوستان و پاکستان کا آئینی حصہ بن جائے گا۔ کئی دوست اسی خدشے سے بہت دلبرداشتہ ہیں کہ جو کبھی ریاست کشمیر تھی نا رہی۔ مگر رکئیے، تاریخ میں یہ پہلی بار تو نہیں۔

پولینڈ کی اک ریاست تھی، اتنی مضبوط کہ 1683 میں یورپ میں عثمانیوں کا رستہ پولش بادشاہ جان سوبئسکی اور اسکی فوج نے جنگ ویانا میں روکا۔ مگر پھر وہ وقت آیا کہ 1795 میں پروشیا، آسٹریا اور رشیا نے اس ریاست کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ پولینڈ نام کی کوئی آزاد ریاست باقی ہی نا رہی۔ پولینڈ کی ریاست تاریخ کے ورق پہ ایک سو تئیس برس بعد جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ پر 1918 میں دوبارہ ابھری۔ گو بعد میں بھی جنگ عظیم دوئم میں جرمنی اور سویت روس نے اس پر قبضہ کیا اور جنگ کے بعد بھی یہ لمبے عرصہ تک سویت سے منسلک رہا مگر بطور ایک آزاد ریاست پولینڈ موجود تھا۔ ایک سو تئیس برس بہت لمبا عرصہ ہے۔ مگر اس دوران بھی “پولز” مایوس نہیں بیٹھے، اپنے تشخص کو گمنے نہیں دیا،آزادی کی اور آزاد ریاست کی خواہش کو مرنے نہیں دیا۔ اک جانب کچھ سر پھرے مسلسل بغاوتیں کرتے رہے جنھیں تاریخ “پولش بغاوتوں” کے نام سے یاد کرتی ہے تو دوسری جانب شاعر اور ادیب اپنا فرض نبھاتے رہے۔ ادبی تاریخ نے پولش شاعرہ ماریا کنوپنیکا کی معروف نظم “روٹا” محفوظ کی جہاں باغی شاعرہ نے پولش قوم کو جرمنائز کرنے کے خلاف مزاحمت لکھی۔

“روٹا”
ہم اپنی زمیں نا کھونے دیں گے
اپنی زباں کو دفن نا ہونے دیں گے
ہم پولش قوم ہیں
پولش عوام ہیں
پیاست کی شاہی اولاد ہیں
دشمن سے ہار نا مانیں گے
اے خدا مدد کر

رگوں میں آخری قطرہ خوں تک
اپنی روح کی حفاظت کریں گے
جب تک ظلم کا حکم
خاک و خوں نا کر دیں
پر شہہ نشیں اک قلعہ رہے گی
اے خدا مدد کر

جرمن ہمارے چہروں پہ نا تھوک پائیں گے
نا ہمارے بچوں کو جرمنا سکیں گے
ہمارا جھنڈا ہاتھوں پہ بلند رہے گا
روح ہماری رہبر ہو گی
اور سنہرے سنکھ کی آواز پہ ہم چل پڑیں گے
اے خدا مدد کر

ہم پولینڈ کا نام نا مٹنے دیں گے
اپنی قبروں میں زندہ نا اتریں گے
پولینڈ کے نام اور تفاخر پر
اپنی پیشانیاں بلند رکھیں گے
اور پوتا اپنے دادا کی زمیں واپس پائے گا
اے خدا مدد کر

ترجمہ؛ انعام رانا

ایڈم مکوئز نے “ڈیزادی” جیسا کھیل لکھا تو ہنریک شینکوئز اپنی قوم کو اس کا ماضی یاد دلاتا رہا۔ یہ ہی جذبہ تھا کہ جب بالآخر انیس سو اٹھارہ میں پولینڈ دوبارہ ایک ریاست کی صورت ابھرا تو وہ کسی شناختی بحران کا شکار نا تھا اور ایک قوم موجود تھی۔

صاحبو، تاریخ کی کتاب پہ سو سال بھی فقط ایک پیرا ہوتے ہیں۔ ہاں آج کشمیر بطور ایک ریاست نا رہا، مگر کشمیری تو قائم ہیں۔ بس اپنی آزادی کی، آزاد وطن کی خواہش کو، جذبے کو اور کوشش کو مرنے مت دیجئیے گا۔ جب تک آپ کو آپ کا وطن دوبارہ نا مل جائے اپنے ہاتھوں میں پہنائی گئی زنجیروں سے وہ جھنکار پیدا کرتے رہیے جو دنیا اور تاریخ کو کشمیر بھولنے نا دے، کشمیری قائم رکھے۔ آپ کی بغاوتیں برقرار رہیں، آپ کی شاعری کشمیر کی وادیوں میں گونجتی رہے اور آزادی کی شمع خواہ دھیمے شعلے سے جلے اسے جلائے رکھئیے۔
آئین زبان بندی زنداں پہ نہیں لاگو
زنجیر سلامت ہے، جھنکار سلامت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاعر:عاطف توقیر

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply