نواز شریف کا انٹرویو ۔۔۔طارق احمد

نواز شریف نے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی بات کی ہے۔ جو بارڈر پار کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ نواز شریف نے یہ نہیں کہا۔
ہماری ریاست انہیں بھیجتی ہے۔ نواز شریف نے یہ بھی نہیں کہا۔ ہماری ریاست ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کو پالتی ہے۔ ان کی سر پرستی فرماتی ہے۔ نواز شریف نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ ممبئی حملوں کو لے کر جن دہشت گردوں پر مقدمہ چل رہا ہے۔ وہ مقدمہ ابھی تک مکمل کیوں نہیں ہوا۔ اس مقدمے کی موجودگی اور ملزموں کی پاکستان سے گرفتاری کیا اس بات کا ثبوت نہیں  کہ یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز پاکستان سے گئے تھے۔ ممبئی حملوں میں پاکستانی شہری ملوث تھے۔ (اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے پاکستانی ٹی وی چینلز کے سامنے آ کر پوری تفصیل دی تھی جس کی پریس رپورٹس اور ویڈیوز موجود ہیں )
نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد پاکستانی شہری تھا اور گرفتار بھی پاکستان سے ہوا تھا۔
داعش کا بانی ابو مصعب زرقاوی افغانستان سے تربیت لے کر عراق جانے سے قبل پانچ سال تک کراچی میں رہا۔
انڈونیشین تاریخ میں دہشت گردی کے بدترین واقعے بالی بم دھماکوں کا مجرم عمر پاٹک ایبٹ آباد سے گرفتار ہوا۔
نائن الیون ہائی جیکرز کی ٹیم کے سربراہ محمد عطا نے منصوبے کی فائنل انسٹرکشنز القاعدہ کے ابو حفص سے کراچی میں لیں۔
ملا عمر، اسامہ بن لادن، ملا منصور، ابو الفرج، ابو زبیدہ پاکستان میں مارے گئے یا پاکستان میں گرفتار ہوئے۔
یہ تمام باتیں پاکستانیوں کے علاوہ پوری دنیا کو معلوم ہیں اور اگر کوئی پاکستانی شہری یا راہنما ان حقائق کی طرف قوم کی توجہ دلانا چاہے کہ آخر کب تک ہمارا ملک دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے مشہور رہے گا تو وہ مودی کا یار اور غدار ہے۔
کیا ان نان اسٹیٹ ایکٹرز نے پاکستان کے 80 ہزار شہریوں کو ہلاک نہیں کیا۔ کیا ان دہشت گردوں نے آرمی پبلک  سکول کے 150 معصوم بچوں کو شہید نہیں کیا ؟ کیا ضرب عضب اور رد الفساد انہی نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف نہیں تھی۔
رحمان ملک بطور وزیر داخلہ ممبئی حملوں میں ان نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ملوث ہونے کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جنرل مشرف ، جنرل پاشا ، جنرل درانی ، جنرل گل حمید اور عمران خان خود ان دہشت گردوں کی پاکستان میں موجودگی اور بھارت میں کاروائی تسلیم کر چکے ہیں۔
بھارتی میڈیا نے نواز شریف کے بیان کو ٹوسٹ کیا ہے۔ توڑ مروڑ کر یہ کہا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اور ہمارا میڈیا بوجہ اور نواز شریف سے نفرت کرنے والے بھارتی میڈیا کی اس شرارت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ نواز شریف کا انٹرویو ڈان اخبار میں موجود ہے۔ جسے پڑھ کر تصدیق کی جا سکتی ہے۔ وہ ایک سوال اٹھا رہے ہیں   کہ کیا وجہ ہے دنیا ہمارا موقف تسلیم نہیں کرتی ؟
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ، اس انٹرویو کی ٹائمنگ درست نہیں ۔ نواز شریف کو الیکشن میں نقصان ہو گا۔ تو کیا الیکشن کے خوف سے ایسے سوالات قالین کے نیچے ڈال دیے جائیں۔ یہی تو ہم آج تک کرتے آئے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں،نواز شریف کا ووٹر اس لیے نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے  کہ یہ ووٹر خود بھی دل و جان سے سمجھتا ہے۔ اس ملک میں ستر سالوں سے جو ہو رہا ہے۔ وہ درست نہیں ۔ یہ ووٹر ان نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ان دہشت گردوں کی مخالفت میں نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ نواز شریف اپنے انہی ووٹرز کا بیانیہ باہر لا رہے ہیں۔ سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔ جن پر بحث ہونی چاہیے۔ اور یہ بحث غداری کے تمغے بانٹے بغیر ہونی چاہیے۔ غدار تو فاطمہ جناح کو بھی کہا گیا تھا۔ بنگالیوں ، بلوچیوں ، پختونوں اور سندھیوں اور مہاجروں کو بھی غدار کہا گیا۔ اب پنجابیوں کی باری بھی آ گئی ہے۔ اگر اس سے ملک و قوم کو فائدہ ہے تو کہتے رہیں  لیکن سوچ رکھیں،ان باتوں سے فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہے۔ ہم اس کی بھاری قیمت دے چکے ہیں،دے رہے ہیں۔ ملک میں تقسیم خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی تقسیم ، علاقائی تقسیم ، لسانی تقسیم ، فرقہ وارانہ تقسیم ، ادارہ جاتی تقسیم اور اب عدلیہ میں تقسیم ہو رہی ہے۔ غصہ اور انتقام بڑھ رہا ہے۔ ذاتی اور ادارہ جاتی انائیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جیسے ہر چیز بھسم ہو جائے  گی۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔ بھارت سے دشمنی اور بغض نواز کا مطلب یہ نہیں ہم اپنے مشترکہ دشمن کو چھوڑ کر آپس میں لڑنا مرنا شروع کر دیں۔ ریجنل اور بین الاقوامی حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران کے بعد ہماری باری بھی آ سکتی ہے۔ وہ ادارے اور قوتیں جو اس ملک میں فیصلہ سازی کرتےہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری قبول کریں اور عقل و دانش کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی ناکامیوں کو اپنے مخالف سیاستدانوں کے سر منڈھ کر نہ پہلے ملک و قوم کا فائدہ ہوا ہے، نہ آئندہ ہو گا۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply