• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک تحریک عدم اعتماد کی کہانی (2،آخری قسط)۔۔افتخار گیلانی

ایک تحریک عدم اعتماد کی کہانی (2،آخری قسط)۔۔افتخار گیلانی

لوک سبھا میں حکومت نے اپوزیشن کی تمام تر توانائی کے باوجود 283ووٹوں کی مدد سے توثیق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مگر چونکہ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں حکومت اقلیت میں تھی، اس لئے وہاں سے توثیق حاصل کرنے سے قبل ہی واجپائی نے رابڑی دیوی حکومت بحال کردی۔ مگر اس کا ایک فائدہ ہوا، کہ لوک سبھا میں حکومت نے اپنی اکثریت ثابت کر کے نفسیاتی برتری حاصل کردی تھی۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت حکومت کو امید تھی، کہ دلتوں کی پارٹی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے پانچ اراکین غیر جانب داررہیں گے، کیونکہ اسکی پارلیمانی لیڈر مایاوتی نے اپنی تقریر میں کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ واجپائی کو فون پر پارٹی کے سربراہ کانشی رام نے یقین دلایا تھا کہ بہار میں دلتوں کے قتل عام کی وجہ سے ان کا اپوزیشن کے ساتھ جانا ناممکن ہے۔ مگر وہ بی جے پی کے ساتھ بھی نہیں جائینگے۔ اس حساب سے اب حکومت کو بس 268 اراکین کی حمایت درکار تھی۔ اسکے علاوہ ان کو امید تھی کہ اڑیسہ کی کانگریسی حکومت کے وزیر اعلیٰ گری دھر گومانگ، جنہوں نے ابھی تک لوک سبھا کی نشست  سے استعفیٰ نہیں دیا تھا، ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔ مگر جب گومانگ اس دن اپوزیشن بینچ میں بیٹھے نظر آئے، تو اعتراضات اٹھائے گئے۔ لوک سبھا کا کوئی ممبر اگر اسمبلی کیلئے منتخب ہوتا ہے، یا ریاست میں کسی عہدہ پر فائز ہوتا ہے، تو چھ ماہ تک ایوان کا رکن رہ سکتا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر گومانگ کو کانگریس نے ووٹ دینے کیلئے بلایا تھا۔ اعتراضات کے جواب میں اسپیکرجی ایم سی بالا یوگی نے ووٹنگ کرنے کا فیصلہ گومانگ کے ضمیر پر ڈال دیا۔ ضمیر نے گومانگ کو بتایا کہ اخلاقیات کے بجائے پارٹی وفاداری سپریم ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ گومانگ اب اڑیسہ میں بی جے پی کے اہم لیڈر ہیں۔ واجپائی کے پرائیوٹ سیکرٹری شکتی سنہا نے اپنی کتاب The Years that Changed India: Vajapyee Years میں لکھا ہے کہ اس دن حکومتی مشینری سے کئی غلطیا ںہوئی۔ اورناچل پردیش کی علاقائی جماعت جس کے دو اراکین تھے، تقسیم ہو گئی تھی۔ ایک ممبر وانگچھا راجکمار نے حکومت کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ مگر عدم اعتماد کی تحریک کے دوران کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ حکومتی وزراء ان کو بھول گئے تھے۔ جس سے خفا ہو کر انہوں نے حکومت کے خلاف ووٹ دیا۔ ووٹنگ سے چند منٹ قبل مایاوتی نے اعلان کیا کہ انکی پارٹی حکومت کے خلاف ووٹ کرے گی۔ مگر حکومت شاید پھر بھی پر امید تھی۔ آخر میں جس ووٹ نے حکومت کو باہر کا راستہ دکھایا، وہ نیشنل کانفرنس کے سیف الدین سوز کا ایک ووٹ تھا۔ اسکے بقیہ دو اراکین نے واجپائی حکومت کا ساتھ دیا۔ سنہا کے بقول جب واجپائی اپنے چیمبر میں واپس آئے، تو وہ خاصے مایوس تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جلد ہی انہوں نے اپنی حالت پر قابو پاکر کابینہ کا اجلاس طلب کیا اور پھر راشٹر پتی بھون جاکر صدر نارائنن کو استعفیٰ پیش کردیا۔

پارلیمنٹ کی کارروائی اور کابینہ کی میٹنگ وغیرہ کور کرنے کے بعد جب میں پورچ میں پہنچا ، تو دیکھا کہ میڈیا اور اپوزیشن لیڈروں کا ایک ہجوم پروفیسر سوز کے گرد جمع تھا۔ بڑی مشکل سے ان تک راستہ بناکر ، جب میں نے ان سے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر ساتھ ہی گاڑی میں بٹھایا۔ وہ راستے میں بتا رہے تھے کہ فاروق عبداللہ نے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں، کیونکہ اب کانگریس کی قیادت میں ایک سیکولر حکومت بننے والی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہرکشن سنگھ سرجیت نے انکو بتایا تھا کہ کوئی بھی سیکولر فرنٹ جو ہمیشہ نیشنل کانفرنس کی پشت پر ہوتے تھے، اب ان پر بھروسہ نہیں کریگا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ گاڑی انڈیا گیٹ کے پاس پنڈارہ روڑ پر مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی بیوہ بیگم اکبر جہاں کی کوٹھی پر پہنچی ہے۔ اندر جاکر معلوم ہو اکہ بیگم صاحبہ نماز ادا کر رہی تھی۔ فراغت کے بعد سوز نے ان کو اپنی دن کی کاروائی اور ایک روز قبل ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کا حال سنایا۔ وہ بس اپنا سر ہلاتی رہی ۔ اس دوران کمرہ میں ایک گرانڈیل کتا داخل ہوا، وہ سخت جزبز ہوگئی اور شکایت کرنے لگی کہ عمر عبداللہ نے کتے پال رکھے ہیں اور وہ گھر میں دندناتے ان کی جائے نماز کو ناپاک کردیتے ہیں۔ شاید سوز کا خیال تھا کہ بیگم عبداللہ کی مدد سے نیشنل کانفرنس کو ان کے خلاف کاروائی کرنے سے باز رکھیں۔ مگر مجھے لگا کہ بیگم عبداللہ کی پارٹی پر پکڑ تو اب دور کی بات، خاندان میں بھی کوئی ان کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عدم اعتماد کی اس پوری کارروائی کے بعد کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی نے وزارت اعظمیٰ کا دعوی کردیا اوربتایا کہ ان کے پاس 272اراکین کی حمایت ہے۔مگر جب صدر نارائینن نے ان سے حمایت کی دستاویزات مانگیں ،تو وہ صرف 233اراکین کے خطوط ہی جمع کرواپائی۔ ملایم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی نے سونیا گاندھی کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ کانگریس کے اندر بھی کسی غیر ملکی نژاد کو وزیر اعظم بنانے پر گومگو کی کیفیت تھی۔ سینیر لیڈران شرد پوار، پورن سنگما اور طارق انور نے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں یہ معاملہ اٹھایا، جس کی وجہ سے ان کو پارٹی سے برطرف کردیا گیا۔ انہوں نے بعد میں نئی جماعت نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے نام سے بنائی۔ کسی بھی فریق کے پاس 272اراکین نہ ہونے کی وجہ سے صدر نے پارلیمان کو تحلیل کیا اور اکتوبر میں انتخابات منعقد کروائے، جس میں بی جے پی کو واپس 182سیٹیں حاصل ہوئی، مگر اسکے اتحادیوں کو 106سیٹیں مل گئیں۔کانگریس کی سیٹیں 141سے گھٹ کر 114ہوگئیں۔ ؓبھارت میںواجپائی تیسرے اور آخری وزیراعظم تھے، جن کو پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بقیہ دو، وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ اور ایچ ڈی دیوی گوڑا تھے، جن کو ایوان نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے باہر کا راستہ دکھایا۔(ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply