دو مُلکی نظریہ اور گلگت بلتستان۔۔شیر علی انجم

5 اگست 2019 کو ہندوستان نے جموں کشمیر لداخ کو اپنا آئینی حصہ قرار دیکر ہندوستانی آئین میں جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے موجود شق آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کردیا.اس ایکشن کے بعد پاکستان کی جانب سے سفارتی سطح پر  شدید احتجاج کیا گیا  اور موقف اختیار کیا کہ جموں کشمیر ہندوستان کا آئینی حصہ نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ کی  قراردادوں کے مطابق متنازعہ خطہ اور اس خطے کے عوام نے رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے.

اس حوالے سے پاکستان نے چین کی مدد سے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور کہا گیا کہ چین سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت سے پاکستان کے موقف کو بیان کرے گا. جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں  کہ چین خود غیر اعلانیہ طور پر اقصائے چن اور شگزگام پر قابض ہے  جو کہ ریاست کا تقریباً بیس فیصد رقبہ بنتا ہے.بعد میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کا سفیر اور  ریاستی عوام کو خود ارادیت دلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کا اعلان کیا اور اقوام متحدہ میں بھی ہندوستان نے ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان لداخ کو اپنے  آئینی اور قانونی حصے کے طور پیش کیا.

اگلے مرحلے میں انڈیا نے اس سے بھی خوفناک عمل کا اعلان کرتے ہوئے ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر لداخ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے خطہ لداخ کو براہ راست وفاق کے ماتحت کرنے کا اعلان کیا.اس حوالے سے بھی پاکستان کا موقف یہی تھا کہ جموں کشمیر متنازعہ خطہ ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی  قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے.اسی اثناء میں چین کے صدر نے ہندوستان کا تاریخی دورہ کیا جو کل تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر تھے لیکن اُنہوں نے اپنے دورے میں سوائے کشمیر کے ہر مسئلے پر ہندوستان سے کھل کر بات کی.

اس دوران گلگت بلتستان میں متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق کے مطالبے میں تیزی آگئی. یہاں تک کہ جو مذہبی جماعتیں دہائیوں سے صوبے کا مطالبہ کر رہا تھیں ، اُنہوں نے بھی متنازعہ حیثیت کے  مطابق حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کردیا. کچھ معاشرے میں اثر رسوخ رکھنے والی اہم مذہبی شخصیات نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر حقوق نہیں دیں گے تو ہم آزادی کی تحریک چلائیں گے اس حوالے باقاعدہ عوام سے حلف بھی لیا.آگے چل کر تحریک انصاف کی جانب سے شوشا چھوڑا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان دورہ سکردو کے موقع پر اہم اعلانات کریں گے لیکن نہ وہ آئے نہ اعلانات ہوئے. اس دوران ہندوستان کے آرمی چیف نے بھی گلگت بلتستان پر حملہ کرکے قبضہ کرنے کی دھمکی بھی دی.

یوں یکم نومبر یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر ایک بار پھر وزیر اعظم کا دورہ گلگت بلتستان سے بہت ساری امیدیں لگانا شروع کر دیں، لیکن وہ آئے اور آزادی مبارک کہہ کر چلے گئے. حالانکہ وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر میں توجہ دلانے کی کوشش بھی کی تھی، مگر وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کی بہتر سالہ محرومیوں کا ذکر تک نہیں کیا.اُسی دن ہندوستان نے لداخ کو باقاعدہ طور پر الگ یونین کا درجہ دیکر دہلی کے ماتحت کردیا اور دوسرے ہی دن سرکاری سطح پولیٹیکل میپ جاری کردیا جس میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے میر پور کو لداخ یونین میں شامل کرکے لداخ یونین کو ہندوستان کا باقاعدہ حصہ قرار دے دیا.اس حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام میں اندرونی سطح پر مایوسی پھیل گئی اور غیر محفوظ ہونے کی فکر پائی  جاتی  ہے.

دفتر خارجہ نے اس حوالے سے مختصر بیان میں ایک بار پھر جموں کشمیر کو متنازعہ اور اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ذریعے ہونا باقی ہونے کا اعلان کرکے میپ کو مسترد کردیا.سوال یہ ہے کہ ہندوستان اپنے ہر عمل کو قانونی اور آئینی قرار دے رہا ہے اور پاکستان کے  ہر بار متنازعہ ہونے کی دلیل پیش کی جاتی ہے. لیکن گلگت بلتستان کو آج بھی متنازعہ حیثیت کی  بنیاد پر حقوق دینے کیلئے تیار نہیں جبکہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کی سب سے بڑی اکائی ہے.اگر ریاست جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا دفاع واقعی میں کرنا ہے تو گلگت بلتستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنا ہوگا. اس خطے کے 22 لاکھ عوام کو حق حکمرانی دینا ہوگا.

اس وقت گلگت بلتستان میں عوامی سطح پر وہ عمل قانون بن جاتا  ہے جو کسی بھی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے نافذ کیا جاتا ہے. قومی سطح پر فیصلے بھی اسمبلی کے ہاتھ میں نہیں. لہذا گلگت بلتستان کو ریاستی پالیسی کے مطابق حقوق دیے جائےیں ،شاید دنیا آپکی بات سُنے. اس وقت عالم یہ ہے کہ ہندوستان گلگت بلتستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو مثال بنا کر کشمیر کو مسلسل ہڑپ کر رہا ہے اور گلگت بلتستان میں جارحیت کی دھمکی بھی دی جارہی ہے.مگر گلگت بلتستان اسمبلی کے فکری اور شعوری طور پر بانجھ سیاست دان نما افراد کو ایک دوسرے پر تنقید اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے خطے کے  مستقبل کی  کوئی فکر نظر نہیں آتی ، جو کہ گلگت بلتستان 22 لاکھ عوام کیلئے اور زیادہ مایوس کن عمل ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جو لوگ سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں اور دفتر خارجہ کے مسلسل بیانات کے باوجود آج تک یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ گلگت بلتستان کو کسی قسم کا نظام دینے کیلئے آئین میں ترمیم ہوسکتا ہے اُنہیں اب احمقو ں کی  جنت سے نکل کر گلگت بلتستان کی بین الاقوامی حیثیت کے مطابق حقوق کی جدوجہد کیلئے کوششیں کرنی ہوگی۔ کیونکہ جو پولیٹیکل میپ ہندوستان نے جاری کیا ہے اُس نے اسمبلی میں نمائندگی جیسے رنگیلے خواہشات کے راستے کو مزید بند گلی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply