قرآنی لفظ “قلب” سے کیا مراد ہے؟(قسط2)۔۔۔۔حافظ محمد زبیر

قرآنی لفظ “قلب” سے کیا مراد ہے؟(قسط1)۔۔۔۔حافظ محمد زبیر

قرآن مجید میں قلب سے متعلقہ تین اور اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوئی ہیں؛ فواد، صدر اور لُب۔ قرآن مجید اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ ایمان کا محل اور مقام انسانی ذہن نہیں بلکہ دل ہے جیسا کہ مسلمان اور مومن کا فرق بیان کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار نئے نئے مسلمانوں سے یوں ارشاد ہے: وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ۔ ترجمہ: اور لیکن تم یہ بات کہہ لو کہ ہم نے اسلام قبول کیا ہے اور [رہی ایمان کی بات تو] ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ ایک اور جگہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں فرمایا: وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ۔ ترجمہ: اور اللہ عزوجل نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں کھبا دیا ہے۔

قلب سے مراد ہارٹ ہے تو صدر سے مراد انسان کا سینہ ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ کو ان کے لغوی معانی میں ہی استعمال کیا ہے اور یہی ان الفاظ کی حقیقت ہے۔ اور حقیقت کی موجودگی میں مجاز مراد لینا جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کی کوئی صریح دلیل موجود ہو۔ قرآن مجید نے اسلام کی نسبت صدر کی طرف کی ہے بلکہ علم کی نسبت بھی صدر ہی کی طرف ہے۔ پھر اس صدر میں قلب ہے کہ ایمان کی نسبت اس قلب کی طرف ہے۔ پھر اس قلب کی کئی حالتیں ہیں، جن میں ایک فواد بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلامِ۔ ترجمہ: جس کو اللہ عزوجل ہدایت دینا چاہتے ہیں تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں علم کی نسبت جا بجا صدر کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا العِلْمَ۔ ترجمہ: بلکہ وہ واضح آیات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ۔ ترجمہ: جو تمہارے سینوں میں ہے، اسے چھپا لو یا ظاہر کر لو، دونوں صورتوں میں اللہ تعالی اسے جانتا ہے۔

تو انسان کا دل، ایمان اور اخلاق حسنہ کا محل اور مقام ہے جیسا کہ کفر، نفاق اور رذائل کا محل اور مقام بھی دل ہی ہے۔ قلب میں ایمان اور اخلاق کی روشنی جب بڑھتی ہے تو وہ ایک نور کی صورت اختیار کر لیتی ہے کہ جس نور سے انسان کا سینہ منور ہو جاتا ہے اور اسی نور سے وہ خیر اور شر میں تمیز کرتا ہے۔ اور اسی تمیز کا نام علم ہے۔ سورۃ النور کی آیت 35 میں اسے تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ بندہ مومن کے دل میں ایمان کے نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے کہ جس میں چراغ ہو۔ تو یہاں طاقچے سے مراد سینہ ہے اور چراغ سے مراد دل ہے۔ اسی لیے علم کی نسبت سینے کی طرف ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان کا کفر، نفاق اور رذائل کہ جن کا محل اور مقام قلب ہے، بھی حد سے بڑھ جائیں تو ان کی تاریکی اور ظلمت انسان کے سینے کو کور کر لیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض رذائل کی نسبت سینے کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلاَّ كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ۔ ترجمہ: ان کے دلوں میں تکبر ہے کہ جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں۔

شیطان کا وسوسہ انسان کے علم میں پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ۔ ترجمہ: میں اس شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ تو اسی وسوسے کو ہم شکوک وشبہات (doubts) کہتے ہیں جبکہ انسانی خواہشات کا محل اور مقام انسان کا دل ہے کہ جنہیں ہم نفسانی خواہشات (desires) کہتے ہیں۔ انسان کو دونوں طرح سے آزمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر قلب اور صدر دونوں کو جمع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ۔ ترجمہ: تا کہ اللہ تعالی جو تمہارے سینوں میں ہے، اس کی آزمائش کرے اور جو تمہارے دلوں میں ہے، اس کی چھان پھٹک کرے۔ تو ابتلاء اور تمحیص میں فرق ہے۔ ابتلاء تو علم کی ہے اور تمحیص جذبات کی ہے۔

جہاں تک فواد کی بات ہے تو یہ دل کی ایک کیفیت اور حالت ہے۔ فواد کا لغوی معنی توقد ہے جیسا کہ توقدت النار یعنی آگ کا بھڑکنا، شعلہ مارنا۔ تو فواد سے مراد جذبات کا بھڑکنا بھی ہو سکتا ہے اور معرفت کا پہلو بھی مراد ہو سکتا ہے جو کہ آگ کے بھڑکنے کا نتیجہ ہے یعنی روشنی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: مَا كَذَبَ الفُؤَادُ مَا رَأَى۔ ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے اس کو نہیں جھٹلایا کہ جس کو آپ نے دیکھا۔ تو یہاں مراد مقام معرفت ہے جو دل کی ایک حالت اور کیفیت ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت میں فواد اور قلب کو جمع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغاً إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا۔ ترجمہ: اور موسی علیہ السلام کی والدہ کا دل خالی ہو گیا تھا اور قریب تھا کہ وہ راز کو ظاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو۔ تو کس سے دل فارغ ہو گیا تھا، پختگی اور میچورٹی کی کیفیت سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply