جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/4

مشکل سڑک:
منصور اسماعیل اس بات پر غصہ ہورہے تھے کہ میں ہر جگہ معلومات لینے کے لیے رُکتا ہوں۔انھیں لگ رہا تھا کہ یہ عمل منزل تک جلد پہنچنے میں رکاوٹ ہے۔لِہٰذا زیادہ جان کاری لینا ممکن نہ رہا۔دیوسائی کے سفر میں عمران رزاق کاغصہ تھا تو اس سفر میں منصور اسماعیل کا۔
سڑک پر کام ہو رہا تھا گاڑیوں کو سنبھل کر چلنے میں مشکل ہو رہی تھی۔مٹی کے بھرے ہوئے ٹرک،جو سڑک کی تعمیر کے سلسلے مَیں اپنا کام سر انجام دے رہے تھے،یکے بعد دیگرے،گزررہے تھے۔دھول تھی،رستا کچا تھا اَور نیچے بائیں طرف دُور تک لڑھکنے کو بڑی لڑھکن تھی۔جسے دیکھ کر ایک لمحے کوآدمی سانس لینا بھول جائے۔

خشک آنسو لیے پہاڑ اَور مینا خوڑ:
مشکل سڑک پر ہم رک رہے تھے یاپھر رینگ رہے تھے۔کچھ آگے چلے تو اک موڑ سے پار، چٹیل سفید چٹانوں سے دیار نکلے ہوئے تھے۔علاوہ بھی دائیں بائیں کچھ درخت تھے۔ان پہاڑوں کو دیکھ کر لگتا ہے ہزاروں صدیاں پہلے یہ پانی میں ڈُوبے ہوئے ہوں گے۔پھر پانی کے ڈل سے یہ باہر آے اَور اَپنے آبی مسکن کی یاد میں،جس سے یہ بچھڑ گئے صدیوں روتے رہیں ہیں۔ان کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔مگر آنسووں کے نشان چہروں پر آج بھی موجود ہیں۔
اِن پہاڑوں سے پیچھے بھی چوٹیاں ہیں انھیں مینا خوڑ کی چوٹیاں کہا جاتا ہے۔یہ چوٹیاں اس وقت گہرے سفیدکہر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔مینا خوڑ اکایک حصہ تخریب کا شکار ہے۔یہ تخریب ایک کھڑی ڈھلوان بنارہی ہے۔دیار اس تخریب کو روکنے کے لیے،یہاں بہت ضروری ہیں۔مگر نہ فطرت نے انھیں یہاں اگنے دیا نہ کسی انسان نے۔

درّہ لواری اَور لواری سرنگ:
راستے کی تنگی،گرد اَور مٹیالے کہر سے نکل کر موڑ کاٹا تو، لواری سرنگ سامنے تھی۔ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار سرنگ سے لے کر موڑ تک کھڑی تھی۔ گاڑیاں اَور لوگ رستا کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔سرنگ سے اُوپر کئی ہزار فٹ سخت چٹان کھڑی ہے۔اس کے دہانے سے لگ کر،ذرا سا دائیں طرف اُوپر مٹی کے تین گھر ہیں۔تینوں اس وقت آباد تھے۔ یہ گھر لواری سرنگ پر ایک خاموش آباد ی کی جھلکیاں ہیں۔ یہ وقتی بساؤ ہے۔بس دو ماہ بعد مکینوں کو یہ جگہ چھوڑنی ہے،کیو ں کہ موسم یہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے گا۔اخروٹ اَور دُوسرے چند پھل دار درخت گھروں کے آگے لگے ہیں۔یہ کسی مہذب اِنسانی آشیانے کا بھرپور پتا دے رہے تھے۔سرنگ کے اُوپر کئی ہزار فٹ بُلند نوکیلا پہاڑ کسی سخت جاں کوہ پیما کا منتظر ہے۔
اِسی کے بالکل دائیں ہاتھ درسَ پہاڑ ہے۔ یہ بالکل ننگا ہے۔اس پر جانے کا کوئی رستا نہیں۔ پہلے پہل گئے زمانوں میں یہاں مارخور ہوتے تھے۔اَب نہیں ہیں۔اس سے پیچھے کی پہاڑی کالاڈَب کہلاتی ہے۔اِ س پر سبزہ ہے اَور تناور دیار ہیں۔سرنگ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک پل ہے،پل کے آغاز میں اس طرف ایک پڑتالی چوکی ہے۔صر ف سواریاں اَور گاڑیاں ہی نہیں بلکہ سامان کے بڑے بڑے ٹرک بھی کھڑے تھے۔
سرنگ بند تھی کیوں کہ اَندر کام ہورہا تھا۔پُل کا اَگلا سراسرنگ سے جڑا ہے۔سرنگ سے چترال اَسّی (۰۸) کلومیٹر ہے۔مرکزی بڑے کتبے سے پیچھے اک اَور کتبہ ہے۔
”لذیذ پھلوں کی سرزمین پر آپ کو خوش آمدید“
یہ کتبہ محکمہ زراعت چترال کی طرف سے لگایا گیا ہے۔
سرنگ نے 06:30 شام کھلنا تھا۔یوں ہمارے پاس کافی وقت تھا۔ زیادہ تر گاڑیوں کے اِنجن چل رہے تھے اَور گاڑیاں کھڑی کھڑی کانپ رہی تھیں۔ہماری گاڑی نے کانپنا بند کر دیا۔پہلے شفقت دوسرے پر عرفان اشرف پھر منصور اسماعیل اَور وقاص جمیل باہر آئے۔

دَرّہ لواری پر آوارگی:
باہر ہلکی خنکی تھی۔ہم دّرہ لواری کی چوٹیوں پر نہیں چڑھ سکتے تھے۔یہ مشکل کام تھا۔کسی کوہ پیما کو ہی یہ مشقت زیب دیتی ہے۔ماضی میں گاڑیاں وہاں اُوپر، اس کے درمیان سے ہو کر گزرتی تھیں اَور انسان بھی۔یہ دَرّے قدیم گزرگاہیں ہیں۔دّرہ برزل اَور درّہ زوجی لا کی طرح بے شمار جانیں درّہ لواری نے بھی نگلی ہیں۔ بیس یا پچاس نہیں سیکڑوں جانیں۔
ہمارے پاس آوارگی کے لیے کافی وقت تھا۔لواری پر کوئی عارضی خیمہ بستی مسافروں کے لیے نہیں ہے نہ ہی بازار ہے۔دو چار کھوکھے ہیں۔ایک کھوکھے میں سٹوو پر کیتلی میں چاے پک رہی تھی۔ تھکے ہارے مسافروں کو،جب اچانک رُکنا پڑتا ہے اَور لواری پر بادل مزید خنکی پیدا کر لیتے ہیں تو وہ چاے کا ایک ایک کپ یہاں سے پی لیتے ہیں۔سٹوو کی سوں سوں اَور تیل کی ہلکی ہلکی بو فضا میں پھیلی تھی۔
سرنگ کے بائیں طرف،سرنگ تعمیر کرنے والے مزدوروں کی عارضی خیمہ بستی تھی اَور عارضی ورکشاپ بھی۔مَیں سڑک سے نیچے اتر گیا۔دُور گہرائی میں ایک نالہ بہہ رہا تھا۔برف اَگرچہ اِردگرد نظرنہیں آ رہی تھی،مگر ہواسرد تھی۔جو کفیت گاڑی سے اُترتے وقت تھی۔ماحول اس کے مقابلے میں کافی سرد ہو گیا تھا۔تھوڑی دیر میں موسم اَبرآلود ہو گیا۔اُوپر آیا تو میرے دوست چاے کا ایک ایک کپ پی چکے تھے۔ابتدائی موڑ پر بیت الخلا ہیں۔یہ سرنگ تعمیر کرنے والے مزدوروں کے لیے بنے ہیں مگر مسافر بھی استفادہ کرتے ہیں۔دَرسر چوٹی پر سبزے کا ایک ٹکڑا اُس کے ایک چٹانی حصے سے چمٹا ہے۔کسی وقت اُڑیال اَور مارخوروں کی یہ مشکل چراگاہ تھی۔پہاڑ کے پرلی طرف دیار کے درخت کی ایک نوک نظر آرہی تھی۔
اِس جگہ (لواری) کے متعلق ایک سےّاح نے لکھا ہے کہ چترال کے ایک میر نے، پانی کی ایک کوہل،محل یا گاؤں تک لانے کے لیے مارخوروں کے سیکڑوں ریوڑ شکار کر دیے تھے۔ جو بچے وہ گلگت کی چراگاہوں میں چلے گئے۔میر صاحب (والی ریاست) کو کسی مصاحب نے کہہ دیا کہ اگرمارخوروں کے سینگوں کو کاٹ کر پانی کا پائپ بنایا جائے تو،پانی اس پائپ کے ذریعے محل میں آ جائے گا۔ پائپ بنا یا نہیں،مگر درّہ لواری سے مارخوروں کا صفایا ہو گیا۔

سرنگ میں سفر:
شام کے 06:30 بج گئے تھے۔راستا کھل گیا تھا۔ہم آگے بڑھے،ضروری جانچ ہوئی توسرنگ میں داخل ہوگئے۔یہ سرنگ تقریباً سواآٹھ کلومیٹر ہے۔ روشنیاں اس کی داہنی دیوار میں پیوست ہیں۔گاڑیوں کی اپنی روشنیاں بھی کام کرتی ہیں۔ گاڑیوں کی روشنیاں جلانایہاں ضروری ہو جاتا ہے۔کسی سامنے جاتی گاڑی کو کراس کرنا، یہاں خطرے سے خالی نہیں،لِہٰذا منع ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ ہو جاتا ہے۔اس زیر زمین سفر نے چار کلومیٹر کا فاصلہ کم کردیا ہے۔نہ صرف کم بل کہ محفوظ بھی کردیا ہے۔جب سرنگ سے باہر تھے تو درّے پر پرانے رستے کے آثار دیکھے تھے۔وہ بلنداَور پر پیچ تنگ پگڈنڈی نما رستا مسافروں کے لیے خطرناک تھا۔
آدھے سے زیادہ سفر کے بعد سرنگ نیم کوس میں چلنے لگ جاتی ہے۔آغاز میں پل ہے تو اختتام پر بھی پل ہے۔ جانچ پڑتال جیسے آغاز میں ہے ویسے ہی نکلتے وقت بھی ہوتی ہے۔ایک موڑ کاٹنے کے بعد گاڑی پھر ایک اَوربل دار سرنگ میں داخل ہو جاتی ہے۔یوں درّہ لواری پر دوسرنگیں ہیں۔یہاں جس طرح اَورٹیکنگ منع ہے۔ایسے ہی تصاویر لینا منع ہے۔لیکن لوگ عادتاً باز نہیں آتے۔دستی فون لیے ہاتھ،گاڑیوں سے جھانکتے رہتے ہیں۔

بے رحم پہاڑوں پر بسیرے:
دونوں سرنگوں سے باہر آنے کے بعد پھر موڑوں کاسنگین سلسلہ آگے آتا ہے۔یہ موڑ اُترائی میں ہیں یا پھر دوسرے معنوں میں چڑھائی میں ہیں۔اسی سنگین سلسلے پر ایک کچا گھر ہے۔یہاں خطروں سے بے پرواہ بچے کھیل کُود رہے تھے۔شاید اس سنگینی کی سنگت میں رہتے رہتے وہ عادی ہوگئے ہوں۔بہت زیادہ سنگینیاں خطروں کا ڈر ختم کر دیتی ہیں۔گاڑی بان یہاں شاہد حفیظ تھے اَور وہ محتاط چل رہے تھے۔آگے بل دار اُترائی تھی اَور لگا تار تھی۔جب ہم درّے کی تہہ میں پہنچے تو وہاں کام ہو رہا تھا۔پھر مٹیالہ کہر اَور اس کہر میں شام اتر آئی تھی۔یہاں سے ایک نالا ہمارے ساتھ ساتھ بائیں چلنے لگا۔درّے سے کئی نالے پھوٹتے ہیں۔یہ سب اس کے چاروں اَطراف ترائیوں میں اتر جاتے ہیں۔
ہمارے بائیں طر ف نالے سے لگ کر ایک متوازی پہاڑ کھڑا تھا۔رستا ختم ہونے کو تھا مگر یہ ختم نہ ہورہا تھا۔اس کھڑے پہاڑ پر،نالے کے اُوپر ایک کچاگھر ہے۔دھوپ شاید یہاں مختصرمدت کے لیے اُترتی ہوگی۔اَخروٹ کے قدیم درخت اس کے آگے کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔کچھ ہی آگے دروش کا آغاز ہو جاتا ہے۔پہاڑ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔کچے گھر کے بعد پہاڑ پر ویرانی آباد ہے۔پھر ایک دیہات آتا ہے۔پہاڑ کی کھڑی چڑھائی پر،اس دیہات کے گھر وقفے وقفے سے آبادہیں۔دیہات کے آگے پتھریلہ نالا جس کی طغیانی نے ایک وسیع رقبے کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔ بہہ رہا ہے اُوپر تونگ اَور ایرو کے درخت ہیں۔مشکل زندگی کے عقب میں مشکل پہاڑ کھڑا ہے۔10 کلومیٹرخراب رستے پر چلنے کے بعد ہم قدرے تنگ مگر بہتر رستے پر آگئے۔اَب نالا جو سڑک کے بائیں بہہ رہا تھا،کے دونوں طرف تازہ پانی کی کوہلیں رواں تھیں۔یہ آب رسانی اَور آب پاشی کاکام کرتی ہیں۔یہ بات ہمیں کسی نے بتائی نہیں،یہ ان کی بناوٹ اَور مزاج سے لگ رہا تھا۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply