حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ ۔۔۔محمد احمد

جب سیاسی سرگرمیاں اور گہما گہمی عروج پر ہوتی ہے تو مخالفین کے پاس ایک الزام بچتا ہے، یہ لوگ ملک کے مخالف اور اداروں کے دشمن ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ حکومتی کارندے اپنے مخالف سیاسی قائدین کی مقبولیت دیکھ کر، حواس باختہ ہوکر کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اور حیرت تب ہوتی ہے جب نیوٹرل اور غیرجانبداری کے دعویدار بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کل روزنامہ 92 کے معزز کالم نگار محمد اظہار الحق صاحب بھی اس کا شکار ہوگئے،اور مضحکہ خیز باتیں لکھ گئے۔بیحد تعجب ہوا ایک قلم قرطاس سے وابستہ شخص نے کیا لکھ دیا؟کس کی ایما پر لکھا؟ حکومت مخالفین کو یکسر ملک دشمن اور اداروں کا دشمن قرار دے دیا۔ اگر آپ ان سے سیاسی اختلاف رکھتے ہیں جو آپ کا حق ہے لیکن حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟

میرے محترم کالم نگار نے مولانا فضل الرحمن صاحب اور اس کی پوری جماعت حتی کہ جنہوں نے آزادی مارچ کی حمایت کی ہے سب کو ریاست کا باغی اور اداروں کا مخالف لکھا ہے۔ جمعیت علماء ہند کی باتوں کو لے کر مولانا صاحب کی حب الوطنی کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
شکوہ کس سے کریں اور فریاد کے لیے کس کے پاس جائیں۔قلم قبیلہ کے لوگ جب اس طرح قلم کی حرمت پائمال کرنے لگیں پھر قلمکاروں کی بات پر کون یقین کرے گا۔ جب ہمیں خود اس کے تقدس کی پرواہ نہ ہو۔پھر ہم کیوں عزت وتکریم کے درس دیتے ہیں؟

اظہار الحق صاحب سے کوئی استفسار فرمائے آنجناب نے اتنی بڑی جرات کرکے ملک کی صفِ اول کی قیادت کو بالخصوص مولانا فضل الرحمن صاحب کو ملک مخالف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کے پاس ثبوت کیا ہیں؟
جتنی ہمت آپ نے الزامات لگانے پر کی ہے تھوڑی سی مزید جرات عدالت جانے کی بھی کریں۔ ہم آپ کو یقین دہانی کراتے ہیں وطن عزیز کے غداروں کے خلاف ہم آپ کے ساتھ ہونگے۔ لیکن اگر آپ کے یہ الزامات محض الزامات ہی رہے تو پھر اپنی عاقبت سے ڈریں اور جھوٹ، الزام اور بہتان پر آئی ہوئی وعیدوں کا مطالعہ کریں اور پوری قوم سمیت مولانا فضل الرحمن صاحب اور اس کی جماعت سے معافی مانگیں۔مجھے مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رح کی بات یاد آگئی ۔۔انہوں نے اپنے نامور بیٹے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کو نصیحت فرمائی تھی کہ” بیٹے! جو بات آپ لکھیں یا کہیں تو اس طرح لکھیں کہ کل اگر عدالت میں ثابت کرنا چاہیں تو ثابت کرسکیں ورنہ ہرگز نہیں لکھیں”۔ اگر دنیا کی عدالت سے بچ گئے تو آخرت کی عدالت تو ہے ہی وہاں تو ضرور ثابت کرنا ہوگا۔

دیکھیں! اس نصیحت سے کتنا بڑا سبق حاصل ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ سب کو عمل کی توفیق بخشے۔
سیاسی مخالفین ایسی حرکتیں کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ جاہلیت اور تعصب کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن صحافی ایسی باتوں پر اتر آئیں یہ افسوسناک ہے۔ اجتماعی دانش سے ایک سوال ہے کہ آپ ہمارے ممدوح کے ان الزامات سے اتفاق کرتے ہیں؟ جواب اگر ہاں میں ہو تو پھر قانونی راستہ کیوں نہیں اپناتے؟ اگر نفی میں ہے تو پھر اتنے بڑے الزامات پر خاموشی کیوں؟ یہ آپ نئی جنریشن کو کونسا سبق سکھا رہے ہیں، پھر تو ان الزامات کا سلسلہ مزید بڑھتا چلا جائے گا۔ بہتر ہے ابھی سے روک تھام اور سدباب کرنا چاہیے۔

مولانا صاحب کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے، چالیس سال سے پاکستان کی سیاست کا حصہ ہیں۔ کبھی انہوں نے ایسی باتیں نہیں کیں ، جس پر کوئی یہ جرات کرے یہ ملک دشمن ہیں۔(البتہ سستی شہرت کے لئے الزامات بہت سوں نے لگائے ہیں لیکن ثابت کوئی نہیں کرسکا) نہ ہی جمعیت علماء اسلام ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہے۔ آج تلک کوئی الزام بھی نہیں لگایا گیا۔صرف یہ کہنا کہ یہ لوگ پہلے جمعیت علماء ہند کا حصہ تھے اس وجہ سے ریاست مخالف کی مہر ثبت کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ کوئی ذی شعور اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر آپ کے الزامات کی دلیل یہی ہے،پھر تو بہت سارے غدار ٹھہریں گے۔ جو لیگی رہنما پہلے گانگریس میں تھے پھر انہوں نے مسلم لیگ جوائن کی پھر ان سے بڑھ کر تو کوئی غدار نہیں ہوگا۔ اگر آپ مولانا فضل الرحمن صاحب کی ان باتوں کو کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے کو بغاوت سمجھتے ہیں تو یہ حق تو مولانا سمیت ہر شہری کو آئین پاکستان نے دیا ہے اور دستور میں لکھا ہوا ہے۔ آئین اور دستور پاکستان کی بات کرنا غداری ٹھہرا تو پھر یا آئین پاکستان میں ترمیم کرلیں یا پھر حق دیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

mmممیاد رکھیں! ہم یہاں پلے بڑھے ہیں اور ہماری تعلیم وتربيت میں اس وطن کی مٹی کا حصہ ہے ،ہمارا پاکستان کے علاوہ کوئی ٹھکانا نہیں۔ ہمارے شہدا ء کا لہو اس مٹی میں داخل ہے۔ ہم وطن کی محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اب آپ ہم سے ایمان اور آخری ٹھکانا چھیننا چاہتے ہیں؟یہ نہیں ہوسکتا۔ جناب اظہار الحق صاحب! یہ کالم لکھ کر آپ کسی کو خوش تو کرسکتے ہیں لیکن تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔اس لیے اس طرح کی باتوں سے اجتناب برتا جائے، بات دلیل اور شائستگی کے ساتھ کریں۔حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنا چھوڑدیں جو ملک دشمن ہیں، خدا نے ان کو نشان عبرت بنایا ہے اور جو نمک حرام اب بھی باقی ہیں وہ بھی خوار ہوکر رہیں گے ۔ آپ اپنا فریضہ سرانجام دیں یہ ریاست کا کام اپنے سر نہ لیں۔ جب ایک صحافی جانبدارانہ رائے قائم کرتا ہے اور اپنے مخالف کی عزت تار تار کرنے کے لیے قلم کا سہارا لیتا ہے تو یہ بدترین خیانت ہے ہمیں اس خیانت سے بچنا چاہیے۔

Facebook Comments