• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نون لیگی پارلیمنٹیرینز خوف زدہ چوہے کی طرح حکومت کے خلاف احتجاج سے گریزاں ہیں۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

نون لیگی پارلیمنٹیرینز خوف زدہ چوہے کی طرح حکومت کے خلاف احتجاج سے گریزاں ہیں۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

خوف میں مبتلا لوگ کسی خاص ماحول، وقت یا چیز سے غیرمعمولی طور پر ڈر جاتے ہیں۔ خوف کے شکار لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کا خوف بے بنیاد ہے, اس کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔ یہ خوف اس قدر شدید نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ان سے انسان مفلوج ہو کررہ جاتا ہے- خوف کے مرض کا شکار ہونا لوگوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ایسے لوگ ایک طرف تو ان چیزوں سے بچنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں جو ان کو خوفزدہ کرتی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگوں سے اپنے خوف کو چھپانے میں بھی ہلکان ہوئے جاتے ہیں- عمران خاں حکومت کی انتہائی مایوس کُن کارکردگی کے باوجود بھی ملک میں موجود اپوزیشن کی طرف سے کسی طرح کی عوامی تحریک نہ چلانا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے اپوزیشن راہنما کسی انجانے خوف کا شکار ہیں،ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عوام مہنگائی, بےروزگاری, ٹیکسز کی بھرمار اور حکومتی جھوٹ کے تسلسل سے بلبلا رہی ہو مگر اپوزیشن عوامی مسائل پر سیاست کرنے کی بجائے غیر اہم مسائل پر ہلکی پھلکی بیان بازی تک ہی محدود ہو-

پیپلز پارٹی, نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کی حکومت ہٹاؤ تحریک اور لانگ مارچ میں شرکت کے حوالے  سےکسی بھی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے،پیپلز پارٹی نے تو صاف الفاظ میں اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ میں اس لئے شرکت نہیں کرے گی کیونکہ اس میں مولانا فضل الرحمن نے “حرمت رسول” کا مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف نون لیگ کے جیل میں بند قائدین میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی طرف سے واضح طور پر مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کی کھلم کھلا حمایت کے باوجود بھی نون لیگ کے پارلیمنٹیرینز لانگ مارچ میں شرکت اور عدم شرکت کے حوالے سے دو دھڑوں میں تقسیم ہیں، نون لیگ کے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ممبران کی اکثریت میاں شہباز شریف کی طرح لانگ مارچ کے خلاف ہے تو دوسرا دھڑا حکومت گرانے کے لئے لانگ مارچ کی حمایت کر رہا ہے۔

اگلے دن نون لیگ کی پارلیمانی میٹنگ میں لانگ مارچ میں شرکت کے فیصلے پر اتفاق تو نہیں ہوا لیکن مولانا فضل الرحمن سے کہا گیا ہے کہ وہ لانگ مارچ کو اکتوبر کی بجائے نومبر تک ملتوی کر دیں۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاج کے حوالہ سے نون لیگ کے بعض ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت اتنی خوفزدہ ہے کہ انہوں نے اپنے زیر اثر کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی رہائی کے لئے جیل کے باہر احتجاج کا سلسلہ موقوف کر دیں، زیادہ پرانی تاریخ نہیں ہے صرف 5 سال پرانی بات ہی ہے جب عمران خان  اپنے چند ہزار کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے – ان تاریخوں کے اخبارات نکال لیجیے یا ان تاریخوں کے نیوز ویڈیو کلپس نکال لیں۔ان میں عمران خان  کی تقاریر سن لیں، کس گرم جوشی سے وہ اپنے چند ہزار کارکنوں کو ہمت دلا رہے ہیں، اس کے مقابلہ میں آج کل کے دنوں میں نون لیگ کے لیڈروں کی تقریریں اور پریس بریفنگ سن لیجیے, انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا،ان کے لہجے  میں گھن گرج تو خیر کیا ہونی ہے, الٹا ان کی تقریریں سن کر ان کے کارکنان مایوسی کا شکار ہوتے ہوں گے۔

نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں بظاہر اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت ایک حالیہ اجلاس کے بعد ہونے والی پریس بریفنگ میں نون لیگ کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شیری رحمن کی طرف سے دی جانے والی پریس بریفنگ میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق ہوا ہے۔اس سلسلہ میں دونوں جماعتوں کے قائدین پارلیمنٹ کی باقی جماعتوں سے رابطہ کریں گے اور حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن تحریک چلانے کے لئے اتفاق رائے پیدا کریں گے۔دونوں جماعتوں کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے حکومت ہٹاؤ لانگ مارچ میں شرکت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔صرف وہی رٹے رٹائے جملے ادا کیے گئے کہ مہنگائی کا طوفان برپا ہے, سردیاں آنے والی ہیں جس میں گیس کے بل عوام کی کمر توڑ دیں گے۔

اپوزیشن راہنما اس پریس بریفنگ میں یہ بتانے سے لاعلم رہے کہ حکومت نے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت فی یونٹ ایک روپیہ 66 پیسے مزید مہنگی کر دی ہے جس کی وجہ سے عوام پر مزید 22 ارب روپے سے زیادہ ماہانہ بنیادوں پر بوجھ پڑے گا۔اپوزیشن راہنما اس موضوع پر تحریک کیوں نہیں چلاتے کہ پہلے سے ہی ٹیکس دینے والوں کو مزید نچوڑا جا رہا ہے اور نئے ٹیکس دہندگان بنانے میں حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ راقم کو شدید حیرانی ہے کہ کسی نے بھی اس طرف اشارہ نہیں دیا کہ حکومت مالی سال 2019 – 2020ء کی پہلی سہ ماہی یعنی جولائی تا ستمبر 2019ء میں ٹیکس جمع کرنے کے اپنے اہداف 1070 ارب روپے سے 116 ارب روپے کمی کا شکار ہے۔ اب ان کم جمع ہونے والے ٹیکسز کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف ای کی شرائط کے تحت بجلی, گیس, پٹرول اور دوسری ایسی بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا پزے گا اپوزیشن کے راہنماؤں کی طرف سے عوامی مسائل سے اس قدر لاتعلقی سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں عوام کی مشکلات کا احساس نہیں ہے بلکہ صرف اپنے راہنماؤں اور اپنے اوپر عائد الزامات اور نیب مقدمات کے خاتمہ کی ہی فکر اور تشویش ہے-

زیادہ تر تجزیہ نگاروں کی رائے میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اپوزیشن لیذر اور نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے شاید اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لی ہے اور اسی وجہ سے وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے یا اس کا حصہ بننے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے پارلیمانی پارٹی میں اپنے ممبران کی اکثریت کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے- اگر کوئی ڈھونڈنا چاہے تو اخبارات اور نیوز کلپس کی بھرمار ملے گی جن میں نون لیگ کے راہنماؤں کا دعویٰ  تھا کہ حکومت میاں نواز شریف کو گرفتار کر کے دیکھے, ایسی عوامی تحریک چلے گی کہ ملک کا نظام مفلوج ہو جائے گا- تحریک تو خیر کیا چلنی تھی, نون لیگ کے ممبران پارلیمنٹ تو مریم نواز شریف کی طرف سے نکالی جانے والی ریلیوں اور احتجاجی جلسوں میں بھی ڈرتے ڈرتے شرکت کیا کرتے تھے۔ وہ عجیب مخمصہ کا شکار تھے کہ اگر وہ ان احتجاجی جلسوں میں شرکت نہیں کرتے تو میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی گڈ بک سے نکل جائیں گے اور اگر شرکت کرتے ہیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور نیب کی بےرخی کا شکار ہوں گے۔ حتی کہ ان احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں شہباز شریف اور ان کے قریبی حلقوں میں سے کسی کی بھی شرکت کی اطلاعات نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد ہونے والی مایوس کن پریس کانفرنس کے بعد لاہور سے آئے ہوئے ایک نون لیگی ورکر نے ان حالات پر مایوسی اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے جیل جانے کے بعد نیب کے خوف سے نون لیگ کا شیر “شریف” ہو گیا ہے اور اب وہ گوشت نہیں بلکہ گھاس پھوس کھا رہا ہے- ایک دوسرے کارکن کا کہنا تھا کہ نون لیگی پارلیمنٹیرینز خوف زدہ چوہے کی طرح حکومت کے خلاف احتجاج سے گریزاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply