• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہمیں بھی ایک قاسم سلیمانی کی ضرورت ہے۔۔نذر حافی

ہمیں بھی ایک قاسم سلیمانی کی ضرورت ہے۔۔نذر حافی

ہمارے بہت سارے مسائل ہیں، ان مسائل کی جڑیں ہماری فکری قیادت میں ہیں، ہمارے ہاں فکری اور نظریاتی قیادت کا سہرا ہمارے میڈیا کے سر سجتا ہے، ہمارے میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا وہ امریکہ و یورپ کے میڈیا کی ہی کاپی کرتا ہے، ہمیں آج بھی یہ معلوم ہی نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کس شخصیت کا نام ہے!؟ ہمیں بار بار یہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایرانی جنرل تھے اور بس۔۔۔ یہ آدھی سچائی ہے، ہمیں ہمیشہ آدھی سچائی ہی بتائی جاتی ہے۔ مکمل سچائی یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ایرانی جنرل اور ایک فوجی شخصیت تھے بلکہ مکمل سچائی یہ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے راستے میں کھڑی ایک دیوار تھے، انہوں نے اپنی بصیرت کے ساتھ اسرائیل پر تباہی کا خوف سوار کرکے صرف ایران کا دفاع نہیں کیا بلکہ پورے عالم اسلام کا دفاع کیا۔ امریکہ اور مغرب جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے تھے، قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو خلیج فارس میں بھگو کر ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔

اگر امریکہ و یورپ کے منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہو جاتا تو ساری اسلامی ریاستوں کے ٹکڑے ہو جاتے۔ قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو ناکام کرکے ساری اسلامی ریاستوں کی حفاظت کی، اسی طرح ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ داعش کو فقط شام اور عراق کیلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ سارے جہانِ اسلام کیلئے بنایا گیا تھا، قاسم سلیمانی نے داعش کا خاتمہ کرکے پورے جہانِ اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ و یورپ کے خلاف صرف شیعہ ہلال سرگرم ہے، بلکہ قاسم سلیمانی نے عراق، شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کرکے اور حشد الشعبی کو فعال کرکے شیعہ ہلال کے ساتھ سُنی ہلال کو بھی ملایا اور اب یہ ہلال ماہَ کامل بن چکا ہے۔ اب امریکہ و یورپ کی استعماری کارروائیوں کے خلاف صرف شیعہ ہلال نہیں بلکہ دشمن کے مقابلے میں شیعہ و سُنی بدر یعنی ماہ کامل ہے۔

قاسم سلیمانی نے اپنی جدوجہد سے حالات تبدیل کر دیئے ہیں، اب سوچیں بدل چکی ہیں، اب ہر عقلمند خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی، وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ امریکہ و یورپ کو کسی شیعہ یا سنی سے محبت ہے اور نہ نفرت۔ انہیں سعودی عرب سے اس لئے پیار نہیں کہ وہ وہابی ریاست ہے بلکہ اس لئے پیار ہے، چونکہ سعودی عرب نے اپنے خزانوں کے منہ ان کیلئے کھول رکھے ہیں۔ اگر آج بھی سعودی عرب اپنے خزانوں کے منہ سیل کر لے تو یہی امریکہ اور یورپ سعودی عرب کے خلاف اسی طرح میدان میں اتر جائیں گے، جس طرح شام کے خلاف میدان میں ہیں، اگر آج بشار الاسد امریکہ و یورپ اور اسرائیل کو مرحبا بکم اھلا و سھلا کہہ دے تو یہی شام کا بادشاہ بشار الاسد امریکہ و یورپ اور اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن جائے گا۔

کون نہیں جانتا کہ آج امریکہ و یورپ کو ایران کے ساتھ شیعہ ہونے کی وجہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے، انقلاب سے پہلے بھی ایران شیعہ ہی تھا، شہنشاہ ایران بھی آج کے سعودی بادشاہوں کی طرح امریکہ و یورپ کا چہیتا تھا۔ انقلاب کے بعد ایران نے امریکہ و یورپ کو اپنے وسائل کے لوٹنے سے روکا ہے۔ اگر آج کی ایرانی حکومت بھی اپنا سرمایہ، اپنے ذخائر، اپنی تہذیب و ثقافت اور سب کچھ امریکہ و یورپ کے قدموں میں ڈال دے تو پھر جھگڑا کس بات کا رہے گا۔ قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مقاومتی زندگی میں اہل سنت کو یہ شعور دیا ہے کہ ہم کوئی الگ الگ ہلال نہیں ہیں، بلکہ ہم امت واحدہ اور ماہ کامل ہیں، ہم دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ دہشت گردوں کو ہم پر مسلط کیا جاتا ہے، ہم میں سے چند نادان لوگوں کو خرید کر ہمیں الگ الگ کرکے شکار کیا جاتا ہے۔ لہذا دہشت گردوں کے مقابلے میں ملتیں متحد ہو جائیں۔

عراق جہاں نوّے فی صد علاقے پر داعش قابض ہوچکی تھی، وہاں سے داعش کو قاسم سلیمانی نے صرف اسلحے کے زور پر باہر نہیں نکالا بلکہ حشد الشعبی کے پلیٹ فارم پر عراقیوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد کرکے داعش کو باہر نکالا ہے۔
شام میں صرف بشار الاسد کی فوج تنہا داعش کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی تھی، قاسم سلیمانی نے شامی قوم کو داعش کے مقابلے میں متحد کرکے یہ معرکہ سر کیا ہے، یمن میں صرف سرکاری فوج امریکہ و یورپ کے جدید ہتھیاروں اور سعودی عرب کے حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی، قاسم سلیمانی نے یمنی قبائل کو اپنے دشمن کے مقابل متحد کرکے انہیں سرفراز کر دیا ہے، فلسطین میں تنہا فسطین اتھارٹی مچھر مارنے کی طاقت نہیں رکھتی، فلسطینیوں کو مقاومت کیلئے قاسم سلیمانی کے تفکر نے متحد کئے رکھا ہے۔

یہ قاسم سلیمانی کی بصیرت کی جلائی ہوئی شمعیں ہیں کہ آج کسی بھی محاذ پر اہل تشیع اپنے آپ کو اپنے اہل سنت برادران کے بغیر تنہا اور ادھورا محسوس کرتے ہیں، آج خود ہمارے سلفی، اہلحدیث، وہابی اور دیوبندی برادران سعودی حکومت کی امریکہ نوازی پر اعتراض کرتے ہیں، آج خود سعودی شاہی خاندان کے اندر ایسے افراد موجود ہیں، جو سعودی حکومت کی امریکی و اسرائیلی غلامی کو ننگ و عار سمجھتے ہیں۔ یہ عالم اسلام میں بیداری، یہ شیعہ سنی وحدت، یہ اپنے ملک کے دفاع کیلئے متحد ہو جانا، یہ دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم، یہ امریکہ و استعمار کا نوکر بننے کو توہین سمجھنا۔ المختصر یہ کہ بیداری، ہوشیاری، بصیرت، قومی وقار، اسلامی وحدت اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دینے کا نام قاسم سلیمانی ہے۔

ایسے میں بحیثیت پاکستانی میں یہ سوچتا ہوں کہ کاش پاکستان کی تاریخ میں بھی کوئی ایسا قاسم سلیمانی جنم لے، جو پنجابی، بلوچی، کشمیری، سندھی، شیعہ اور سنی کے الگ الگ ہلال جمع کرکے انہیں ماہ کامل بنا دے، انہیں ملکی و قومی مفادات کیلئے متحد کر دے۔ جو گریٹر اسرائیل کی طرح گریٹر ہندوستان کے راستے میں کھڑا ہو جائے، جو مظلوم فلسطینیوں کی طرح مظلوم کشمیریوں کے سر کا سائبان بن جائے، جو نفرتوں کو مٹا دے، مسنگ پرسنز کو ان کے پیاروں سے ملا دے اور اپنے ملک کے اندر حشد الشعبی کی طرح تمام قبائل اور فرق و مذاہب کو اپنے ملک کی سلامتی کے لئے متحد کر دے۔ جی ہاں ہمیں بھی ایک قاسم سلیمانی کی ضرورت ہے، جو بے شک کوالالمپور سمٹ میں نہ جائے، بے شک نہ جائے! لیکن یہ نہ جانے کا فیصلہ وہ کسی سے ڈر کر نہ کرے بلکہ یہ اس کا اپنا فیصلہ ہو۔ ہمیں ایک ایسے جنرل قاسم سلیمانی کی ضرورت ہے، جو اپنے فیصلے خود کرنے والا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply