بیگم صفت

بیگم صفت
عاصم اللہ بخش

بیگم صفت ۔۔۔۔

کبھی ۔۔۔۔ نہیں، بالعموم ۔۔۔ جی بالعموم یہ خیال اتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی “بیگم صفت” قوم ہے تو وہ یقیناً ہم ہی ہیں۔ بیگم صفت، یعنی کچھ بھی کر لیجیئے آپ کے حصہ کبھی حرف تعریف نہیں آئے گا۔ ہمیشہ شکوہ شکایت اور نکما ہونے کا تمغہ آپ کے گلے بندھا رہے گا۔

آپ خود ہی دیکھ لیجیے ۔۔۔ اگر بھارت نے امریکہ کو اپنے ہوائی مستقر فوجی مقاصد کے لئے دیے اور اس کے بدلے چند مفادات حاصل کر لئے تو وہ ٹھہرے ڈِیل میکر” ۔۔۔۔ اور اگر ہم ایسا کر لیں تو ہم ہوئے “بخشو” یا بکاؤ۔ بھارت عرب شیوخ کو اپنے ملک کی خواتین سے پیپر میرج کی سہولت فراہم کرنے پر بھی سفارتی “دیو” اور ہم تلور کے شکار پر بھی وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں۔ اگر بھارتی شہری امریکی سینیٹرز کے ساتھ دیکھے جائیں تو ان کی “پہنچ” اور شاہ محمود قریشی کا صاحبزادہ سینیٹر جان کیری کا انٹرن ہو تو وہ “ایجنٹ”‘۔

اس سیریز کا تازہ ترین شمارہ جنرل (ر) راحیل شریف کی 34 ملکی اتحاد کی سربراہی ہے۔ اب وہ “ریال شریف”، بلکہ “شکریہ ریال شریف” ہو گئے، سعودی پٹھو بن گئے و علی ھذا القیاس ۔۔۔۔

پہلی بات یہ کہ اگر، بالفرض محال، راحیل شریف صاحب کے بجائے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ کو اس فورس کا سربراہ بنا لیا جاتا تو کیسا کیسا نوحہ اٹھتا ہمارے ہاں سے۔ احباب نے طعنے دے دے کر مار دینا تھا ۔۔۔ دیکھا، بڑے سعودی ہمدرد بنے پھرتے تھے، انہوں نے بھارت سے بندہ بلا لیا اور آپ کو پوچھا تک نہیں۔ فیس بک محاورہ کے مطابق یہ طے پا جاتا کہ سعودی عرب نے نہایت زور کی “چپیڑ” مار دی پاکستان کے منہ پر۔ ہمارے چند “آزاد منش” دوستوں کو تو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔۔۔۔ فوج کی محبت اس قدر عود کر آتی ان پر۔

دوستو اور بزرگو مایوس ہونے سے پہلے ۔۔۔۔ حالات کو دیکھ لیا کیجیے ، غور کر لیا کریں ۔۔۔۔ یقین جانیے مایوس کسی وقت بھی ہؤا جا سکتا ہے ، اس کا کوئی “ایکسپائیری ٹائم” نہیں ہوتا کہ 24 گھنٹہ میں مایوس نہ ہوئے تو آپ “حقِ مایوسیت” کھو بیٹھے۔

سب سے پہلی بات یہ کہ جنرل راحیل شریف کی تعیناتی پاکستان کی رضامندی سے ہوئی ہے۔ یہ کوئی پرائیوٹ بندوبست نہیں۔ اس سطح پر تعیناتی اس لیے نہیں ہوتی کہ ملک کی خارجہ پالیسی کے برخلاف کام شروع کر دیا جائے۔ جس یمن جنگ میں آپ سعودی ناراضگی کے باوجود شامل نہ ہوئے اب جا کر اس کی کمان شروع کر دی جائے۔

سعودی عرب اپنی آنیوں جانیوں کے سبب سفارتی اور فوجی محاذ پر مشکل میں ہے اور پاکستان اس صورت حال سے نکلنے میں ان کی مدد کر رہا ہے۔ اس مدد کا بنیادی نکتہ “Disengagement” ہے لڑائیاں نہیں۔

جنرل راحیل کی تعیناتی سے اگر کوئی بھی کیفیت جنم لینا چاہیے تو وہ فخر یا اطمینان ہو سکتا ہے کہ مسلم و عرب دنیا میں آپ کی فوجی صلاحیت کا اعتراف بلند ترین سطح پر ہے۔ ورنہ آپ کے خیال میں کیا صرف جنرل راحیل شریف ہی ریٹائر ہوئے ہیں ان 34/35 ملک کی مسلح افواج میں سے ؟ یا باقیوں کے پاس کوئی جنرل نہیں ہے ؟؟؟

جو دوست ایران کو نشانہ بنائے جانے سے فکر مند ہیں ان کے لئے بھی یہ عرض ہے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر حمایت پاکستان کی پالیسی نہیں اور پاکستان اس پر سختی سے کاربند ہے۔ جنرل راحیل کی تعیناتی سے ایران کو یہ اطمینان تو ضرور ہو سکتا ہے کہ یہ گٹھ جوڑ اس کے خلاف نہیںہے، لیکن اس تقرری سےتہران میں کوئی “حقیقی” تشویش ہرگز نہیں ہو گی۔ پھر جب حافظ سعید صاحب بھی امت میں شیعہ سنی تفریق کے خلاف کھل کر بات کر رہے ہوں اور سعودی عرب و ایران آئندہ سال حج کے معاملات پر بات کرنے کو پر تولنے لگیں تو یہ اندازہ بخوبی ہو جانا چاہیے کہ ہوا کا رخ مفاہمت کی جانب ہے مخاصمت کی طرف نہیں۔

صورتحال ایسی نہیں کہ ابھی سے نشتر آمیز و افروز اسٹیٹس اپ لوڈ کیے جائیں۔ پریشان مت ہو جائیں ۔۔۔۔ اپ ان اسٹیٹس ہائے کی تیاری پر محنت جاری رکھیں ۔۔۔۔ بس کچھ تؤقف کرلیں کہ صورتحال واضح ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے بعد اگر حالات وہ ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں تو ضرور اپ لوڈ کر دیجیے ۔ ورنہ پھر کچھ مثبت پوسٹ کر دیجیے گا ۔۔۔۔۔ صرف یہ ثابت کرنے کو کہ ہم سچ مچ “بیگم صفت” نہیں …

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply