غموں والی شام ۔۔حسن نثار

میں اپنی طرف سے بہت دور کی کوڑی لایا تھا کہ موجودہ حالات میں انڈے خرید تے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ ان میں کوئی ملاوٹ ہی نہ ہو۔ تازہ ترین انکشاف یہ کہ پلاسٹک کے انڈے ’’پکڑے‘‘ گئے ہیں۔ مبارک ہو ’’یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے‘‘۔ کیا کبھی کسی نے جانوروں اور پرندوں کو بھی اوور ایٹنگ کرتے دیکھا ہے؟

ڈاکٹر صاحب نے پندرہ بیس ٹیسٹ لکھنے کے ساتھ مہینے بھر کے لئے پانچ چھ دوائیں بھی لکھ دیں۔ مریض حیران ہے کہ اگر مرض کی تشخیص ہو چکی اور دوائیں لکھ دیں تو پھر اتنے ڈھیر سارے ٹیسٹ کیوں؟ نہیں تو رپورٹ آنے سے پہلے ہی دوائیں کیوں؟ گندا پانی پینے سے جنم لینے والی بیماریوں کے علاج پر جتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے اس سے کہیں کم لاگت سے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے لیکن حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کیونکہ ہم نوزائیدہ کے کان میں اذان دینے کے بعد اس کا برتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لئے رشوت دیتے ہیں تو دوسری طرف مردے کی نماز جنازہ (دعا) کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لئے بھی رشوت دینے کے بعد سوچتے ہیں کہ ’’برکت‘‘ کیوں روٹھ گئی اور اتنی ’’نحوست‘‘ کیوں چھائی ہوئی ہے۔

کاش کبھی ہم جیسوں کو بھی اسرائیل کے ایک سابق وزیر دفاع کا یہ جملہ پوری طرح سمجھ آ جائے کہ ’’ میں صرف اس دن سے ڈرتا ہوں جب عربوں کو بھی قطار بنانی آ جائے گی‘‘ واقعی جس قوم میں ’’ڈسپلن‘‘ ہی موجود نہ ہو اس کے مقدر میں ذلت اور زوال کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کے زمانہ تک یہی مشہور تھا کہ ’’شاہیں بناتا نہیں آشیانہ‘‘ پھر خبر آئی ’’بناتا ہے‘‘۔

سو شاہینوں نے زمینوں پر قبضے شروع کرکے ہائوزنگ سوسائیٹیاں بنانی شروع کردیں (ہائوسنگ غلط ہے) اس پر ریسرچ درکار ہے کہ بت پرستی اور شخصیت پرستی میں سے زیادہ پھٹکار زدہ حرکت کون سی ہے۔ غلیظ اور زہریلے پانی سے سیراب کی گئی فصلیں کس قسم کی نسلیں پیدا کریں گی؟ لاہور شہر کے باسیوں میں سے کتنے فیصد کو علم ہوگا کہ ’’محمودو ایاز‘‘ والا ایاز کبھی لاہور کا گورنر تھا اور اس کی قبر بھی لاہور ہی میں ہے۔

صحت مند قوموں کا تمام فوکس ’’فرد واحد‘‘ کی صحت پر ہوتا ہے، باقی اللہ کے سپرد۔ اس نے کہا ’’کبھی کبھی مجھے شک گزرتا ہے کہ میری موجودہ زندگی کسی گزشتہ موت کا نتیجہ تو نہیں‘‘۔ ملک اک بہت بڑی مشین کی مانند ہوتا ہے اور اس کی آبادی مشین کے کل پرزوں کی طرح ہوتی ہے۔ ہر پرزہ درست طریقے سے ’’بی ہیو‘‘ کرے تو کمال ورنہ ذلت و زوال۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان نامی مشین کے 22کروڑ پرزوں کی اکثریت ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہو۔ ایک ہی لمحہ میں دو بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک مونٹریال میں دوسرا سمبڑیال میں۔ ان میں سے ایک پیدا ہوتے ہی زندگی کی 99فیصد بازی ہار جاتا ہے۔ کیوں؟ کاتب تقدیر کی کتابت کا معیار ہر جگہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔

مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ ’’پرندہ‘‘ پنجرے سمیت اڑے گا یا اکیلا پرواز کرے گا؟ اور احتساب خواب سے آنکھ کب کھلے گی؟ مہذب دنیا سزائے موت کے خلاف ہے لیکن فرشتہ اجل کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہے۔ان کے دامن صاف، ہاتھ بھی صاف اور ملکی خزانہ بھی صاف کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ انسانی معاشرہ میں اشرافیہ سر کی مانند ہوتی ہے اور اگر سر میں بھس بھرا ہو تو؟ میں اوورہیڈز، انڈرپاسز، میٹرو، اورنج ٹرینوں کے نرغے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ 50سال پہلے کا لاہور پرسکون تھا یا آج کا؟اہل وطن کو مبارک ہو کہ پاکستان میں کاروباری ماحول 28درجہ بہتر ہوگیا۔ کاش اس ملک، معاشرہ میں ’’کاروبار زیست‘‘ کے لئے بھی ماحول کچھ درجہ بہتر ہو جائے۔کعبہ کے گرد چکر لگا کر یہ نہ سمجھوکہ عوام کو دیئے گئے ’’چکر‘‘ معاف ہو جائیں گے۔جسے اپنے ’’بانی‘‘ کی عزت کا خیال ہو، اس کا کوئی ’’ثانی ‘‘ نہیں ہوتا۔اس نے یہ مصرعہ سنا ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ اور مسکراتے ہوئے آئینہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔کہتے ہیں جس درخت کو پھل لگے وہ جھک جاتا ہے لیکن کچھ لوگ کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔  کچھ چوروں کی داڑھی میں تنکا نہیں،پورا چھانگا مانگا ہوتا ہے اور پھر وہ داڑھی ہی صاف کرا لیتے ہیں۔بے خودی بے ضمیری سے بدرجہا بہتر ہے۔

قانون اور قانون سازوں کی حکمرانی میں کیا فرق ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنے کے تاریخی معاہدہ پر ’’کرتار سنگھ‘‘ نام کی وہ فلم یاد آئی جو قیام پاکستان کے تقریباً عشرہ بعد ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم احمد ندیم قاسمی مرحوم کے کسی افسانے سے انسپائر ہو کر بنائی گئی تھی جس کے کرتا دھرتا سیف الدین سیف تھے۔ یہ فلم میں نے بچپن میں دیکھی جس کا ایک گیت مجھے مدتوں سے مسلسل ہانٹ کررہا ہے۔ منظر کچھ یوں تھا کہ بھوکے پیاسے تھکے ہارے مسلمان مہاجروں کا قافلہ سکھ جتھوں سے بچتے بچاتے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہی سجدہ ریز ہو جاتا ہے تو اک درد بھری آواز اوورلیپ کرتی ہے۔’’اج مک گئی اے غماں والی شامتینوں ساڈا پہلا سلام‘‘’’یعنی آج غموں بھری شام ختم ہوگئی اور اے دھرتی! ہمارا پہلا سلام قبول کر‘‘۔یہ گیت سیف الدین سیف صاحب نے لکھا تھا۔ آج زندہ ہوتے تو میں پوچھتا….. کیا واقعی غموں بھری شام ختم ہوچکی؟ اور یہ سکھوں کے جتھوں کی جگہ کون آگئے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply