مقدمہ(غیر سیاسی کالم اور بااخلاق مضمون)۔۔۔۔عارف خٹک

لڑکیوں کےساتھ گوشت اچھا لگتا ہے۔ لڑکی اگر بھرے بھرے جسم کی ہو، تو دیکھنے میں بھی اچھی لگتی ہے۔اور محسوس کرتے ہی بندہ چرس کو طلاق دیدے۔

کرنل خان لکھتے ہیں کہ مس لوسی کامڈن دوہرے اخلاق کی حامل ایک خوش مزاج خاتون تھیں۔مس لوسی اگر ایک قدم آگے بڑھ کے احوال پوچھتیں،تو ان کے اخلاق ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مزاج پوچھا کرتے۔
میرے نزدیک محبوبہ کا تصور بقول لالہ صحرائی،نا صرف ہوائی جہاز کی طرح اندر سے کُشادہ، آرام دہ اور نرم ہو۔ بلکہ اس کے اندر جاکر بندہ آرام سے سو بھی سکے اور اگلی صبح باہر نکل کر دنیا کی بے ثباتی پر چار حروف “لعنت” کے بھیج کر واپس اندر گُھس جائے۔

محبوبہ جتنے وزن والی ہو تو مرد کو اس کی اصل مردانگی کا احساس ہوتا ہے۔ پنجاب کے 75 کلو چوہدری بشیر کا 120 کلو ستارہ بیگ کو فرطِ جذبات میں ہلانا تو دُور، نیند سے بھی اُٹھا پائے، یا ان  کےبیگز کو ہلا پائے،تو یہ اس کی اصل مردانگی تصور کی جاتی ہے۔اور اس کی مس بیگز پنڈ کی عورتوں میں اپنے مرد کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔۔کہ کیا گھبرو شوہر ہے۔رات کو بیگز ہلا دیئے۔ ادھر پشاور کی 135 کلو کی شیربانو کو گود میں اُٹھا کر کمرے میں گول گول نہ گُھما لیں۔تو نسوار پھینکتی شیر بانو آپ پر لعنتی نظر مار کر بولتی ہے،کہ تم سے تو میرانشاہ کا عبدالمجید داوڑ اچھا تھا۔مزے کے جُھولے تو جُھولاتا تھا کم از کم۔
میرے دوست لالہ صحرائی نے ایک بار مُجھ پر الزام لگایا تھا،کہ پشاور کے گُل خان کو فقط لڑکی دے دو،تو وہ اس میں ہوا بھرنے کی جگہیں ڈھونڈنے لگ جاتا ہے۔ اوزار کا کیا ہے مُنہ سے بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔ لالہ کے اس الزام کو سُن کر مجھے لالہ کی تعلیمی قابلیت،جس پر پہلے ہی شک تھا اب یقین ہوگیا کہ فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی سے فائنانس پڑھنے والا بندہ ہی ایسی بات کرسکتا ہے۔ ورنہ لالہ کا مطالعہ اچھا ہوتا تو ایک روسی کہاوت اس کی نظروں سے کیسے بچ پاتی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ”مرد گوشت پسند کرتے ہیں اور کُتے ہڈیاں چباتے ہیں”۔

جب تک لڑکی کا ذاتی حدود اربعہ ہِل ہِل کر اعلان نہ کرتا پھرے،کہ میں یہاں ہوں۔مُجھے پکڑ کر سنبھالو،تب تک آپ اس کو صرف عورت بھی سمجھ لیں،تو ایسے مردوں کےلئے تو پشتو میں ایک بُہت بُرا لفظ ہے۔

میرے دوست حاجی عطاءاللہ خٹک کہتے ہیں،کہ محبوبہ اتنی نرم ہونی چاہیے کہ بندہ پاس لیٹ کر اس کے جیلی جیسے وجود کو فقط ہاتھ میں پکڑے اور گوشت کے کسی بھی ٹکڑے کو پنگ پانگ سمجھ کر اپنا سٹریس ریلیز کرکے آرام سے سو سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ حاجی صاحب بھی پنگ پانگ ہے۔ کبھی سخت ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے وزیرستان کے پلاسٹک شیر پشتون یار روز ننگی اور ذومعنی تصویر لگا کر اپنا نام بنا رہے ہیں، کہ مجھے دیکھو میں ہوں وزیرستان کا ببر شیر۔ کل اس کا ذاتی دوست بتا رہا تھا کہ موصوف نماز پڑھنے واسطے ایک بھری ہوئی سیگریٹ پی لیتا ہے کہ ایمان کا سرور وسرشاری برقرار رہے۔

ہم موٹاپے کی کیا تعریف کریں۔۔کیوں کہ اب تو دنیا میں بھری بھری عورتیں پسند کی جاتی ہیں۔ بلکہ یورپ میں تو اب 40 کلو کی خواتین ورزش گاہوں میں فقط اس واسطے موجود ہوتی ہیں،کہ مخصوص اعضائے ضعیفہ کو اعضائے رئیسہ میں کیسے بدل دیا جائے۔
ہمارے وطن خیبر پختونخوا  میں اگر ماں کمزور ہو تو اس کی مامتا بھی ادھوری ہوتی ہے۔ ہم نے کمزور ماؤں کے بیٹوں کو ہمیشہ نافرمان بنتے دیکھا ہے۔ اور ان ہی کمزور ماؤں کے بیٹے اپنے باپ کےلئے دوسری بیوی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ بلکہ آج کل کے لوگ تو وزن کے اتنے دلداہ بن چُکے ہیں ،کہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کےلئے امن کی بات چیت میں بھی اسلحہ نکال لیتے ہیں۔
ایک دن اماں سے بیوی کی شکایت کرنے لگا تو بُرا سا مُنہ بنا کر بولیں،کہ کیا دیکھ کر شادی کی تھی۔ جواب دیا،وزن کے علاوہ اس کے پاس اور تھا ہی کیا۔اماں ملامتی نظروں سے دیکھ کر بولیں۔ہور چوپو۔۔۔۔۔ بتایا اماں وہی تو کررہا ہوں۔یہ سُن کر ابا مُسکرا دیئے اور اماں شرما گئیں۔

کراچی کے مہاجر بھائیوں کے ہاں وزن صرف اردو کے “شعر” میں ہوتا ہے۔ باقی سب بے وزن ہے۔ اس لئے میں قائدِ تحریک کا دیوانہ ہوں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے کراچی کے بھائی ہماری محبوباؤں کی تذلیل نہیں کر پاتے۔ مبادا ہم ان کو جواب نہ دے دیں۔ بلکہ باہمی رواداری کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں،کہ بھائی لوگ ہمارے گُل مرجانوں کو مکمل اخلاقی اور سیاسی سپورٹ بھی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ خوش رکھے ہمارے ابا کو جو بچپن سے ہم سے کہتے رہتے تھے۔کہ بیٹا بیوی ایسی ہونی چاہیے کہ باجو والے کمرے تک آواز آئے۔ ہم نے اس “آواز” کی بابت دریافت کیا۔۔تو سر جُھکا کر بولے،خانہ خراب کروٹ بدلتے ہوئے جب آپ نیچے دب جاؤ تو آواز آئے گی۔ ابا سے ہم نے پوچھا کہ اگر بیوی موٹی نہ ہو تو کیا کیا جاوے۔ ابا نے جواب دیا یا تو خودکشی کرلی جائے یا کوئٹہ کے فضل خان بڑیچ کے ساتھ تین بول پڑھے جائیں،تاکہ یہ قضیہ ہی مُک جائے۔
ویسے اُمید افزا بات تو یہ ہے کہ اب ہم فضل خان بڑیچ کو تو کیا قمر نقیب خان کو بھی رشتہ بھیج سکتے ہیں۔اور مولویوں کے بدلے اس ناہنجار سے دل کھول کر لے سکتے ہیں۔ کیونکہ پشاور کے سرکاری سکولوں کے مرکزی دروازوں پر ہم جنس پرستی کا نشان اب سرکاری طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply