ولی اللہی نعرہ فک کل نظام۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

اے بادشاہوں۔ ملاء اعلیٰ کی مرضی اس زمانے میں اس امر پر مستقر ہوچکی ہے کہ تمام تلواریں کھینچ لو اور اس وقت تک نیام میں داخل نہ کرو جب تک مسلم، مشرک سے بلکلیہ جدا نہ ہو جائے۔ اور اہل کفر و فسق کے سرکش لیڈر کمزوروں کے گروہ میں جاکر شامل نہ ہو جائیں۔ اور یہ کہ ان کے قابو میں پھر کوئی ایسی بات نہ رہ جائے جس کی بدولت وہ آئندہ سر اٹھا سکیں۔
عزیزانِ من۔مغل بادشاہ محی الدین اورنگزیب عالمگیر نے ہندوستان پر 50 سال تک عادلانہ حکومت کرنے کے بعد 1707 میں وفات پائی۔ اورنگزیبعالمگیر کی وفات کے بعد وہ قیامت برپا ہوئیکہ شیرازۂ ملک کا ایک ایک ورق جدا ہوگیا۔ یورپ کی وہی سفید فام طاقتیں جن پر عالمگیر کے دادا، پردادا نے مہربانیوں اور شاہانہ عنایات کی بارش کی تھی، جن کو عالمگیر کے باپ” شاہجہان” نے شکنجۂ تادیب میں کسا تھا، جن کو عالمگیر نے پہلے ملک بدر کیا تھا پھر معاف کرکے انہیں تجارت کرنے کی اجازت دی تھی، ابھی 100 سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ عالمگیر کی راجدھانی پر ان کا تسلط تھا۔ اور عالمگیر کا پوتا “شاہ عالم” انکا وظیفہ خوار تھا۔ اس صدی کا آغاز” سلطان اورنگزیب عالمگیر” کی شاہانہ عظمت سے ہوا اور خاتمہاس فداء ملک و ملت کی شہادت پر ہوا جس کو دنیا شیر میسور “سلطان فتح علی ٹیپو” کے نام سے جانتی ہے۔ جس کے خون شہادت میں لتھڑے ہوئے جنازے کو دیکھ کر انگریز فاتح کی زبان بے ساختہ پکار اٹھی کہ ” آج ہندوستان ہمارا ہے”
مرکزی حکومت کے ارکان میں ایرانی تورانی یا شیعہ سنی اختلافات و کش مکش کا مرض جو عالمگیر کی زندگی تک دبا رہا تھا وفات کے بعد پوری شدّت سے ابھرا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں صرف 50 سال کے عرصے میں تخت دہلی پر 10 تاجدار بٹھائے اور اتارے گئے۔ ان میں سے صرف چار اپنی موت مرے باقی کے سر قلم کئے گئے یا تخت سے اتار کر آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔ صوبوں کے گورنر خود مختار ہوگئے اور جہاں پر جن قوموں کی اکثریت تھی وہاں انہی کی طاقت ابھری۔ اس طاقتوں کے تصادم سے سرزمین ہند کا چپہ چپہ میدان کار زار بنا۔ بار بار ان کے سیلاب دہلی تک پہنچے اور تین سو سالہ شہنشاہیت کے احترام کو پامال کیا گیا۔ اور یورپ کی وہ سفید فام طاقتیں جو ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں قدم جما چکے تھیں وہ اگرچہ آپس میں ایک دوسرے کے حریف تھیں مگر ہندوستان میں خانہ جنگی سے فائدہ اٹھانے میں سب شریک تھے۔ بلخصوص ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذمہ داروں نے تمام یورپین ساتھیوں سے آگے بڑھ کر اس خانہ جنگی میں وہ فائدہ زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جو ایک بیدار مغز حریف ایسے موقع سے حاصل کرتاہے۔
عزیزانِ من۔ جب وہ جنگی دور ایک عظیم انقلاب کا تقاضا کر رہا تھا تو حالات نے ایک نیاموڑ لیکر ایک مرتبہ پھر علمائے حق کے دروازے پر دستک دے دی۔
اور یوں امام الہند امام انقلاب شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے انقلاب کا علم بلند کیا۔ اور ایک ہمہ گیر علمی، روحانی اور سیاسی تحریک کا بیچ بو کر اس عظیم فکر کو پروان چڑھایا کہ آج تک ہر دینی سیاسی تحریک خود کو ولی اللہی تحریک کا حصہ سمجھتی ہے اور ہر دینی جماعت خود کو ولی اللہی جماعت سے منسوب کرتی ہے۔ شاہ صاحب کے اس دور کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد ان کے گہرے سوچ و بچار اور اعلیٰ تدبر نے یہ فیصلہ کیا کہ جو کچھ سماجی، معاشی یا اقتصادی تباہیاں اس وقت موجود ہیں ان کا اصل سبب ملوکیت و شہنشاہیت ہے۔ ان تباہیوں اور بربادیوں کا واحد علاج ” فک کل نظام” ہے۔ یعنی ” ہر باطل نظام کو توڑ دو” یعنی ایسا ہمہ گیر اور مکمل انقلاب جو سماج کے معاشی، سیاسی، اقتصادی غرض ہر ایک ڈھانچہ کو بدل ڈالے۔ کیونکہ اس وقت کا ہر ایک نظام خوا اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو شہنشاہیت کا پروردہ ہے اور وہ امراض جو شہنشاہیت کے ساتھ لازم ہوتے ہیں ہر ایک نظام میں سرایت کر چکے ہیں۔ بس کوئی اصلاح اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ہر ایک نظامِ کہنہ کو منہدم کرکے اس کی جگہ نظامِ نو تعمیر کیا جائے۔ یہی ہے فک کل نظام۔
اسی کے لیے شاہ صاحب نے سلاطین اسلام، ارکان حکومت، فوجی سپاہیوں، اہل صنعت و حرفت سمیت علماء اور پیرزادوں تک کو خطابات کئیں۔ اور بغیر کسی کے منصب کا لحاظ کیں ان کی خطاؤں اور غلط اعمال پر برسرِ عام تنبیہ کرکے اصلاح کی راہ سمجھائی۔ سب سے پہلے سلاطین اسلام سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے بادشاہوں ملاء اعلیٰ کی مرضی اس زمانے میں اس امر پر مستقر ہو چکی ہے کہ تمام تلواریں کھینچ لو اور اس وقت تک نیام میں داخل نہ کرو جب تک مسلم مشرک سے بلکلیہ جدا نہ ہو جائے۔
ارکان حکومت کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے امیرو۔ دیکھوں کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے، تم دنیا کی فانی لذتوں میں ڈوبے جارہے ہو اور جن کی نگرانی تمہارے سپرد ہوئی ہے ان کو تم نے چھوڑ دیا ہے تاکہ ان میں سے بعض کو تم کھاتے اور نگلتے رہو۔ فوجیوں سے خطاب میں فرمایا اے عسکریوں ۔ تمہیں خدا نے جہاد کے لیے پیدا کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اللّٰہ کی بات اونچی ہوگی اور خدا کا کلمہ بلند ہوگا۔ شرک اور اس کی جڑوں کو تم دنیا سے نکال پھینکوں گے۔ لیکن جس کام کے لیے تم پیدا کیے گئے تھے اسے تم چھوڑ بیٹھے ہو۔ اہل صنعت و حرفت کو فرمایا کہ اے اربابِ پیشہ۔ دیکھوں امانت کا جذبہ تم سے مفقود ہوگیا ہے تم اپنے رب کی عبادت سے خالی الذہن ہو چکے ہو۔ تم اپنے فرضی بنائے ہوئے معبودوں پر قربانیاں چڑھاتے ہو۔ تم میں سے بعض لوگوں نے فال بازی، ٹوٹکا اور گنڈے وغیرہ کا پیشہ اختیار کیا ہوا ہے۔ تم کتنے بدبخت ہو جو اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کررہے ہو۔ پیرزادوں کو مخاطب کرکے فرمایا اے وہ لوگوں جو اپنے آباء کے رسوم کو بغیر کسی حق کے پکڑے ہوئے ہو۔ میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا ہوگیا ہے کہ آپ ٹکڑیوں ٹکڑیوں اور ٹولیوں ٹولیوں میں بٹ گئے ہو۔ ہر ایک اپنا راگ اپنی منڈلی میں الاپ رہا ہے۔ اور جس طریقہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے سے نازل فرمایا تھا اسے چھوڑ کر ہر ایک تم میں ایک مستقل پیشوا بنا ہوا ہے۔ اور لوگوں کو اسی طرف بلا رہا ہے۔
ارے بد عقلوں۔ جنہوں نے اپنا نام علماء رکھا ہے تم یونانیوں کے علوم میں ڈوبے ہوئے ہو اور صرف و نحو اور معانی میں غرق ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ یہی علم ہے ۔ یاد رکھوں علم یا تو قرآن کے کسی آیت محکم کا نام ہے یا سنت ثابتہ قائمہ کا۔ تمہیں چاہئیے کہ قرآن سیکھو۔ زاہدوں اور خانقاہ نشینوں کو خطاب کیا کہ میں دین میں خشکی اور سختی کی راہ اختیار کرنیوالوں اور واعظوں، عابدوں اور ان کج نشینوں سے سوال پوچھتا ہوںکہ بہ جبر اپنے اوپر دین کو عائد کرنے والوں تمہارا کیا حال ہے۔ لوگوں کو تم جعلی اور گھڑی ہوئی حدیثوں کا وعظ سناتے ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کی مخلوق پر تم نے زندگی تنگ کر چھوڑی ہیں۔ عزیزانِ من۔ شاہ صاحب کےان خطبات میں سے چند خطابات تراش کر بطور نمونہ آپ کے گوش گزار کیا ہے ۔ محقق حضرات اگر خطبات بالتفصیل پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ شاہ صاحب کی کتاب” تفہیمات الٰہیہ” کا مطالعہ کریں۔ شاہ صاحب نے جب اصلاحی جدوجہد شروع کی تو آپ کی بڑی شدت کے ساتھ مخالفت کی گئی اور بہت ہی سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ مسجد فتح پوری سے نکلتے ہوئے آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن اتنی مشکل اور پر خطر حالات میں شاہ ولی اللہ وہ مرد میدان تھے جس نے امت کو اقتصادی اصول سیاسیات اور نظام حکومت کے بنیادی اصول، حقوق، تحفظات اور مذہبیات پر اصلاحی نظریات کا ایسا” پلیٹ فارم” مہیا کیاکہ بعد میں آنے والے لوگ آسانی کے ساتھ اسلامی نظریہ حکومت کو سمجھ سکے اور اس کو نافذ کرسکے۔ شاہ صاحب نے اصلاحی نظریات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ ٹریننگ سینٹر بھی قائم کیے اور اس کے لیے شاہ صاحب نے رجوع الی القرآن کی تحریک چلائی اور مسلمانوں کو یاد دلایا کہ نجات کا راستہ صرف قرآن کا بتایا ہوا راستہ ہے۔ شاہ صاحب نے قرآن کا مفہوم بھی واضح طور پر سمجھایا اور ایسے رضاکار تیار کیے جو ذاتی اغراض سے بہت بلند تھے، اپنی شخصیت کو فنا کرچکے تھے اور اپنے نصب العین کے لیے قربان ہو جانے کو ابدی زندگی تصور کرتے تھے۔ اٹھارویں صدی عیسوی کے ہندوستان میں ” فک کل نظام” یعنی مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کا نصب العین ایک چراغ تھا جو شہنشاہیت، شاہ پرستی اور اجارہ داری کی طوفان آنگیز آندھیوں میں امام انقلاب شاہ زمانہ امام ولی اللہ محدث دہلوی نے روشن کیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ولی اللہی نعرہ فک کل نظام۔۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

  1. شاہ ولی الله اپنے زمانے میں روہیلا سرداروں اور افغان حملہ آوروں کے لیے قلمی سپاہی کے علاوہ کچھ نہ تھے۔ انہی کے زمانے میں فرانس میں روسو اور دیگر مفکرین نے نئی دنیا اور نئے زمانے کی بنیاد رکھی- فرانس میں انقلاب آیا اور امریکا نے برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی- امریکا میں آزادی کے بعد بادشاہت کے بجاۓ صدارتی نظام جمہوریت قائم ہوا، انسانی حقوق کا اعلامیہ جاری ہوا۔ ادھر شاہ ولی الله کو دنیا میں ہونے والی ان تبدیلیوں کی کوئی خبر نہ تھی، ان کے خوابوں میں یہی نظر آتا رہا کہ وہ ہم وطن کفار کو مار رہے ہیں۔ مغربی مفکرین مغربی ہونے سے پہلے انسانی ہیں، اور سائنس یا سماجی علوم انسان کی میراث ہیں نہ کہ مغرب کی، ہم بھی ان علوم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
    انگریزوں کے خلاف علماء کی جدوجہد کے حوالے سے بھی سب دعوے ہوا میں ہیں۔ انگریزوں کے خلاف حقیقی جدوجہد کرنے والوں کے تاریخی آثار بہت زیادہ ہیں۔ نواب علی وردی خان اور سراج الدولہ سے لے کر ٹیپو سلطان اور سکھوں تک، کہیں علماء نظر نہیں آئیں گے۔ شاہ ولی الله نے تو نواب سراج الدولہ کے حق میں یا میر قاسم کے حق میں ایک فتویٰ بھی جاری نہ کیا۔ یہی سلوک ٹیپو سلطان کے ساتھ شاہ عبد العزیز کا ہے۔ شاہ اسماعیل دہلوی وغیرہ تو انگریزوں کے علاقوں میں آرام سے لشکر بنا کر سکھوں کی کمر میں خنجر گھوپنے آ گئے۔ جعلی کہانیوں سے نکل کر تاریخ پڑھیں!
    ڈاکٹرمبارک علی نے اپنی کتاب المیہ تاریخ میں بہت زبردست جائزہ پیش کیا ہے۔ ایک مثال کے طور پر اس مضمون کو پڑھیں:-
    https://www.mukaalma.com/72832/

Leave a Reply to حمزہ ابراہیم Cancel reply