تقویت (Reinforcement) ایک جادو : ( آخری حصہ )

1۔ فطرت و نوعیت : ہر انسان کی اور خصوصاً بچے کی پسند پر کوئی زور نہی اس لئے تقویت جس سے بچہ کام کو کرنے پر راضی ہوجائے ایسی ہو جو بچے کی دیرینہ ہو۔ اسکی پسند کےمطابق ہو۔ یہ بات یاد رکھیں چیز بھلےلاکھوں کی ہو — اگر بچے کی من بھاتی نہی ہے تو بچہ اس چیز کی خاطر کبھی رزلٹ نہی دیگا — جب کہ کوڑی کے مول چیز جو بچے کو بہت زیادہ پسند ہے اسکے حصول کی خاطر نا صرف بچہ جلد وہ چیز مطلوبہ چیز سیکھے گا بلکہ عین مطابق نتیجہ بھی دیگا۔
واضح رہے کہ تقویت بچے کو جتنی زیادہ پسند ہوگی بچے میں اتنی ہی تحریک پیدا کرے گی۔ اس لئے اس معاملے میں والدین کو بچے کی پسند کا دھیان تو رکھنا ہی ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ چیز والدین کی اسطاعت کے مطابق بھی ہو۔ اگر آپ بچے کو کھلی چھوٹ دیں کہ بیٹا جو کہو گے دیں گے۔ تو ایسے میں ممکن ہے بچہ بائیک یا ہوائی جہاز مانگ لے اور والدین کو شرمندگی اٹھانا پڑے اور شرمندگی کو کم کرنے کے لئے بچے کو ہی برا بھلا لعن طعن کرنے لگیں۔ اس لئے قبلہ درست کریں جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچے کے سامنے اپنی اسطاعت کے مطابق اسکی سب سے پسندیدہ چیزیں رکھیں اور بچے کو اختیار دیں کہ وہ اسمیں سے اپنی دیرینہ چیز چن لے۔ یوں والدین کی عزت بھی بچتی ہے دوسرا بچے کو آزادی کا احساس ہوتا ہے — ساتھ ہی والدین پر بچے کا بھروسہ بڑھتا ہے کہ مجھے ناصرف اختیار دیا جاتا ہے بلکہ میری پسند کا بھی مان رکھا جاتا ہے — اس بات سے والدین اور بچے کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اور بچے میں خوداعتمادی آتی ہے۔ اور نتیجہ سوفیصد رہتا ہے۔
ایک بات اور واضح رہے کہ صرف مادی چیزوں کی نوعیت اور فطرت اہم نہی بلکہ سرگرمی اور لفظی تقویت میں بھی آپ بچے کی مرضی یا اپنی سمجھ سے اس چیز کا چناؤ کرسکتے ہیں جو بچے کی سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

2۔ وقت : یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ بچے کو تقویت کب دی جائے۔ اس بات تمام ہی ماہرین متفق ہیں کہ کام کے ہونے اور مطلوبہ نتائج ملنے پر فوراً ہی تقویت دے دینی چاہئے۔ اسی صورت میں تقویت کا فائدہ ہے ورنہ جتنی دیر ہوگی فائدہ کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ اور بہت ممکن ہے کہ بچے کو یاد ہی نا رہے کہ مجھے یہ تقویت کس بناپر ملی اور اسکو یاد دلایا جائے تو عین ممکن ہے کہ بچے کی اس تقویت کو لیکر کر اور اسکے حصول کی خواہش یا تو کم یا پھر دم ہی توڑ گئی ہو۔ اس لئے اس بات کو یقینی بنالیں کہ کام کے مکمل ہوتے اور نتیجے کے حصول پر فوری تقویت کی فراہمی ضروری ہے۔

3۔ تعدد (Frequency) :
ابتداء میں جب کام سیکھانا اور پختگی ڈالنی ہوتی ہے تو تقویت کی فراہمی ہر بار کی جائے گی۔ لیکن جب محسوس ہو کہ اب بچہ کام سیکھ گیا ہے تو آہستہ آہستہ تقویت کی فراہمی کم کرتے جائیں اور آخر اس پوائنٹ پر ٹھیر جائیں جس پوائنٹ پر کم سے کم دفعہ تقویت دینے پر مطلوبہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں۔اور بچہ کام کو سرانجام دیتا رہے۔ جب محسوس ہو کہ بچہ پختہ ہوچکا ہے اور بغیر تقویت کی فراہمی کے کام کررہا ہے تو تقویت کی فراہمی بند بھی کی جاسکتی ہے۔

4۔مقدار: یہ بات قابل توجہ ہے کہ تقویت کی مقدار کتنی ہو — کہ جس سے کم پر بچہ کام کرنے سے انکار کردے — والدین بڑے بچوں سے مقدار کی بابت طے کرسکتے ہیں کہ وہ کتنی مقدار پر مطلوبہ کام کریں گے۔

مثال :- ایک بچہ کہتا ہے کہ اگر آپ مجھے روزانہ بیس روپے دیں گے تو میں انگوٹھہ چوسنا بند کردوں گا۔ ایسے میں بچے سے سودے بازی کریں " کہ میں تمکو روزانہ پانچ روپے دوں گا۔ اس سودے بازی پر بچہ خود اپنی صحیح مقدار بتادیگا کہ مجھے دس روپے روز کے چاہئیں۔ آپ ڈن کیجئے اور اس بات کا یقین رکھئے کہ بچہ اس دس روپے کے حصول کے لئے انگوٹھا چوسنا بند کردے گا جو کہ عین ممکن تھا کہ اسکے منہ مانگے بیس روپے یا دس روپے سے کم پر نتیجہ نہی دیتا۔

5۔ شدت: خوش اخلاقی کو شعار بنائیں اور بچے کو تقویت دیتے وقت جتنا گرم جوشی , جتنے جوش و جزبے اور اچھے طریقے سے تقویت پیش کریں گے بچہ مطلوبہ کام اتنا ہی اچھا کرے گا — مردہ دل سے , ناراض ہوکر , کڑھتے ہوئے یا پریشان ہوکر تقویت دینا نا صرف کم فائدہ مند ہوگا بلکہ والدین اور بچے کے رشتے کو بھی متاثر کرے گا۔

احتیاط: تقویت کے سلسلے میں ایک بات گرہ سے باندہ لیں کہ جس چیز یا طریقے کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بچے کو کسی اور کام / طریقے یا کسی دوسرے فرد سے ہرگز ہرگز نا ملے ۔ یا بچے کو بلاوجہ ہی وہ تقویت ہرگز نا فراہم کریں— کیونکہ بچہ بھی انسان ہے اور یہ انسانی فطرت کہ دیرینہ چیز بھی جب مطلوبہ کام کے بغیر ملتی رہے تو وہ اپنی کشش کھو دیتی ہے اور انسان اس چیز سے جلد اکتا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( اگلے حصے \ باب میں کرداری مسائل مثلاً ضد , بدتمیزی , نافرمانی وجہ اور حل کے موضوع پر بات ہوگی۔ جڑے رہئے۔ سلامت رہئے )
۔
۔
سعدیہ کامران*
۔

Facebook Comments

*سعدیہ کامران
پیشہ مصوری -- تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔ سیاحت زبان کلچر مذاہب عالم خصوصاً زرتشت اور یہودیت میں لگاؤ ہے--

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply