کیپیٹلزم میں قیمتیں کیسے طے ہوتی ہیں؟ -سجیل کاظمی

اکثر افراد جنھوں نے معاشیات کا زیادہ گہرا مطالعہ نہیں کیا ہوتا ان کو قیمت کوئی ایسی چیز لگتی ہے کہ جس کو رکھا جاتا ہے جسے تجویز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کمیونسٹ افراد اس بات کو خوب پھیلاتے ہیں کہ بڑھی ہوئی قیمتیں دراصل سرمایہ دار کے لالچ کا نتیجہ ہوتی ہیں جو کہ علمی بددیانتی اور معاشیات سے نابلد ہونے کا اعلان ہے۔
تو قیمت کے تعین کو سمجھنے کے لیے، ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ قیمت ہوتی کیا ہے؟ قیمت پیسے کی وہ مقدار ہوتی ہے جو کہ ایک commodity کے حصول کے لیے دی جاتی ہے اور یہ طے کیسے ہوتی ہے؟ اس کے لیے طلب و رسد کا اصول ہے، اس اصول کو ہم ذرا کھولتے ہیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں سب سے پہلے کہ طلب و رسد کیسے پیدا ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک صارف کی ترجیحات کے مطابق پیدا ہوتی ہے مثلاً اگر مختلف صارفین نے ایک commodity کو پسند کرلیا ہے تو اس commodity کی طلب پیدا ہونے لگے گی یعنی یہ تمام صارفین اس commodity کے پیسے دینے کو تیار ہیں۔ اسی طرح رسد دراصل پیداواری طرف کا کام ہے، جو کہ عمومی طلب ہی کے مطابق عمل کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی بھی کچھ limitations ہوتی ہیں مثلاً کچھ product بننے میں زیادہ محنت ہوتی ہے لہذا ان کی پیداوار کم ہی رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کی رسد کم رہتی ہے، اسی طرح ایسے product جو ایسی اشیاء سے بنتے ہیں جو کہ زمین پر ویسے ہی rare ہیں ان کی پیداوار بھی کم ہی رہتی ہے۔
اب یہ قیمت کیسے طے کرتے ہیں تو سب سے پہلے تو سرمایہ دار اس بات کا تخمینہ لگاتا ہے کہ اس کا ایک unit اسے کتنے کا پڑ رہا ہے خود یعنی اس پر اس کی production cost کتنی آرہی ہے اور پھر وہ اسے دیکھتے ہوئے منڈی کا تجزیہ کرتا ہے کہ آیا یہ منڈی میں اتنی قیمت پر بک بھی جائے گا کہ مجھے منافع بھی ہو اور میری production cost بھی پوری ہوجائے اگر ایسا نہ ہوتا نظر آرہا ہو تو سرمایہ دار پیداوار روک دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال Google Glass ہے جس کی production cost زیادہ تھی لہذا وہ ایسی قیمت پر نہ بک سکا جو بنانے والے چاہتے تھے لہذا اسے discontinue کردیا گیا۔ یہاں انسانوں کا پیچیدہ رویہ بھی نظر آتا ہے جس کی بات آسٹرین اسکول کرتا ہے کہ ساری قدر دراصل commodity کے consumer preferences سے align کرنے پر ہے ورنہ عام leather bags بطورِ luxury item قبول کرلیے گئے لیکن Google Glass جیسا futuristic gadget اس مقام پر پہچنے میں ناکام رہا۔
خیر، موضوع چل رہا تھا کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، جب سرمایہ دار اپنی لاگت مطابق اپنے product کی قیمت رکھ لیتا ہے تو پھر وہ اسے منڈی میں بھیجتا ہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ صارفین اسے خریدیں گے ممکن ہے کہ اس کمپنی کا ٹیگ لگا رہے اور وہ بازار میں unsold پڑی رہے کیونکہ یہ ان کے unpredictable رویے پر منحصر ہے، سرمایہ دار جو قیمت رکھتا ہے اسے economic terms میں قیمت کہا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ اس کی اپنے product کی evaluation ہے جبکہ اصل قدر وہی ہوگی جو ایک ایک صارف اس شے کو دیتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ آیا وہ اس شے کے پیسے دے گا؟ اور جیسے اگر سرمایہ دار کی شے پر 100 روپے خرچ آیا ہے اور اس نے 50 روپے اوپر منافع رکھ کر 150 کی کہہ کر مارکیٹ میں بھیجی ہے لیکن اگر صارفین اسے اس قابل نہیں سمجھے گے کہ اس کے 150 روپے دیے جائیں تو سرمایہ دار مجبور ہوگا کہ جیسے تیسے اس کھیپ کو ختم کیا جائے جو ظاہر ہے قیمت کم کرکے ہی ممکن ہے اور اگلی بار بنانے میں احتیاط کرے یا پھر کسی طرح production cost کم کرے۔ مگر اگر صارفین کی بڑی تعداد ایک commodity کے لیے اس کی طے کی گئی قیمت دینے کو تیار ہیں اور مثلاً 100 صارفین پیسے دینے کو تیار ہیں اور units محض 10 ہیں؟ تو یہی وہ موقع ہوتا ہے جب قیمت بڑھتی ہے یعنی قیمت بڑھنے یا عمومی مہنگائی کی اصل وجہ لالچ نہیں (جو کہ سرمایہ دار ہوسکتے ہیں لیکن مارکیٹ ان کے لالچ کو کوئی حیثیت نہیں دیتی) بلکہ اس شے کی کمی ہوتی ہے تو وہ 10 units اس بنیاد پر تقسیم کیے جاتے ہیں کہ کون کس کو outbid کرسکتا ہے مثلاً اگر اصل قیمت 150 ہے اور ایک فرد اس کے لیے 160 ایک یونٹ کے لیے دینے کو تیار ہے تو دیگر تمام افراد کو بھی وہی قیمت ادا کرنی پڑے گی یونہی قیمت بڑھتی ہے۔
یعنی مہنگائی کی اصل وجہ لالچ نہیں بلکہ commodities کی اپنی آپ میں قلیل ہونا ہوتا ہے اب آپ چاہے کتنی بھی قیمت set کرلیں اس کی، اس شے کو جتنا بھی بنیادی حق قرار دے دیں۔ اصل حقیقت نہیں بدلے گی کہ وہ مہنگی اور ایک مخصوص طبقے یا صرف چند افراد کو اسی لیے میسر ہے کیونکہ وہ سب کے لیے کافی نہیں ہے۔ آپ چاہے اس کو بنیادی حق قرار دے دیں لیکن یہ اعلان اس economic reality کو نہیں بدل سکتا کہ وہ شے سب کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کم ہے لہذا عملی حل دراصل اس شے کی production بڑھانا ہے نہ کہ ایسے اعلانات کرنا۔ اس کی ایک تاریخی مثال یورپ میں مصالحے، چینی اور نمک کی ہوگی۔ کسی زمانے میں نمک کو تنخواہ کے طور پر دیا جاتا تھا، چینی صرف اشرافیہ کے استعمال کی چیز تھی اور مصالحوں کی تجارت پر تو جنگیں بھی ہوجاتی تھی۔ یہ سب اشیاء اس وقت luxury items تھے لیکن آج یہ یورپ کے غریب ترین خاندان کے گھر بھی ایک بڑی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، وجہ؟ کیا یورپ نے انھیں بنیادی حق قرار دے دیا ہے؟ نہیں۔ کیا اس کی پیداوار کرنے والے کم لالچی ہوگئے ہیں؟ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اتنی زیادہ اب پیدا ہونے لگی ہیں کہ سب کو پوری آجاتی ہے لہذا اس کی قیمت اب بہت کم ہوگئی ہے۔
اب ایک بات کہی جاتی ہے کہ یہی تو سرمایہ دار کرتے ہیں کہ وہ قیمت بڑھی رہنے دیتے ہیں اور منافع کماتے جاتے ہیں اور کبھی پیداوار نہیں بڑھاتے۔ اب یہ پھر مارکیٹ کے اصولوں سے فارغ ہونے والی بات ہے۔ سب سے اہم یہ کہ طلب پوری کرنے کا سرمایہ داروں کو incentive ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ طلب پوری کرتے ہیں تو وہ بھی منافع کماتے ہیں اور اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ نہیں اٹھائیں گے تو کوئی اور اٹھا لے گا کیونکہ سرمایہ داری میں مقابلہ ہوتا ہے اور قدر ہر وقت بنی نہیں رہتی صارف کا رویہ تبدیل ہوتا ہے رہتا ہے، ایک بار desirability گئی تو جتنی بھی scarce ہوجائے کوئی شے وہ پھر اس کو استعمال نہیں کرتے بلکہ alternative کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں مثلاً اگر کوئی سرمایہ دار جان بوجھ کر گندم پیدا ہی نہیں کرے گا تو آخرِکار لوگ چاول کھانا شروع کردیں گے اور وہ منافع کمانے کا سنہری موقع گنوا دے گا لہذا ایسی صورت میں سرمایہ دار کبھی production روکتے نہیں بلکہ بڑھاتے ہیں تاکہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا لیا جائے۔ باقی رہی بات ہمارے سوشلسٹ برادران کی مثالیں کہ فلاں جگہ گندم دریا برد کردی جاتی ہے لیکن مارکیٹ میں نہیں لائی جاتی تاکہ قیمت کم نہ ہوجائے۔ اب اس پر میں کیا کہوں۔ میں سوشلسٹوں کے مناظروں سے تو ویسے ہی تنگ ہوچکا ہوں لیکن دیگر افراد سے یہی کہوں گا کہ سوچیں کہ انھیں دریا برد کرنے میں زیادہ فائدہ ہورہا ہوگا یا پھر اسے تھوڑے سستے داموں بیچنے میں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply