تعلیمی تنزلی کی ذمہ دار حکومت یا استاد ۔۔۔۔سجاد اعوان

میں بحیثیت سچا پاکستانی اپنی ساری قوم و ملت سے استدعا کرتا ہوں کہ خدارا آؤ ہم سب ایک قوم بنیں،آپس کے جھگڑے ،فساد ، مذہبی ،سیاسی رنجشیں ختم کرکے صرف اور صرف اپنی نسل کی تعلیم و تربیت پر زور دیں ، یاد رکھیں قومیں اسلحہ و بارود یا خود کش دھماکوں سے نہیں بنتی، بقول حضرت اقبال ۔۔۔

‏ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے “

‏بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

قومیں تعلیم و تربیت سے علم و معرفت سے بنتی ہیں۔۔پھر اسی کی بنیاد پر ملک ترقی کرتے ہیں، کسی بھی قوم وملک کی ترقی و تنزلی کا راز جاننا ہو تو وہاں کا نظام تعلیم دیکھ لو، جو ملک اپنا نظام تعلیم بہترین انداز اورجدید تقاضوں کے مطابق چلا رہے ہیں وہ کائنات کو مسخر کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ، وہ لوگ چاند پر زندگی گزارنے کا سوچ رہے ہیں۔ان ملکوں کی حکومت اور اپوزیشن مل جُل کر تعلیم پر کام کرتے ہیں اس میں آئے دن بہتری لانے کی کوشش میں مگن ہیں ، اور ہم جن کے دین و مذہب میں سب سے پہلا حکم خداوندی تعلیم اور پڑھنے لکھنے کا ہے ، ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہماری وہ رفتار جو ہونی چاہیے تھی اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔جب تک ہم خدا اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے علم پر نہیں چلیں گے ہمارے نظام تعلیم میں برکت نہیں آئے گی۔

جب تک حکومت و اپوزیشن اور انتظامیہ  ایک جگہ اکھٹے ہو کر اس پر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کر کے اس پر عمل درآمد نہیں کرواتے ہمارا یہ سرکاری نظام تعلیم دن بدن تنزلی کا ہی شکار ہوتا رہے گا،سرکاری نظام ِ تعلیم پرائمری سکول سے لیکر ہائرایجوکشن تک فرسودہ اور ناقص ہے، اس کی سب سے بڑی وجوہات تمام سابقہ حکومتوں کی عدم توجہی ہے، افسر شاہی کی کرپشن اور عدم دلچسپی ہے، یہاں پر میں اپنے گاؤں کی مثال دیتا ہوں۔۔لڑکے اور لڑکیوں کے تین سرکاری سکولوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے ، اور تعداد ایک سو پچیس کے قریب ہے ، اور ان پر آٹھ اساتذہ ہیں جو ماشاءاللہ سب کے سب ایم فل ہیں ، اب ان کی تنخواہ اور سارے تعلیمی نظام کا حساب کتاب کریں تو ایک بچے پر ہر ماہ خرچہ تقریباً پانچ ہزار آتا ہے ، لیکن وہاں کا رزلٹ کچھ نہیں ، بہت سارے بچے انتہائی نالائق ہیں اور مجھے نہیں یقین کہ وہ اپنا تعلیمی سلسلہ ہائی سکول تک جاری رکھ سکیں گے ۔

دوسری طرف گاوں میں تین پرائیویٹ سکول ہیں جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے ، اور ان کی ماہانہ فیس دو ہزار تک ہے ، ان کا رزلٹ اور نظام تعلیم بہت ہی اچھا ہوتا ہے۔،

سوال یہ ہے کہ خرابی کہاں ہے ؟

سب سے پہلی نااہلی اور خرابی حکومت کی ہے جس کا کوئی معیاری چیکنگ سسٹم نہیں ہے، اس کے بعد سب سے بڑی خرابی کی جڑ پیشہ ور اساتذہ ہیں جو لاکھوں کی تنحواہیں اور دیگر مراعات لیتے ہیں اس کے باوجود اپنے فراض ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے، کیونکہ ان کے اپنے بچے یا عزیز سرکاری سکولوں میں نہیں ہیں اور پھر انہوں نے اپنی اپنی ٹیوشن اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں ، ان کو کیا لگے سرکار کے سکول سے ،ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، ہر کسی کا کوئی نہ کوئی سیاسی سماجی اثرو  رسوخ ہے جو وہ بوقت ضرورت استعمال کر لیتے ہیں۔

حکومت وقت کو نظام ِ تعلیم میں بین الاقوامی معیار کی تبدیلیاں لانی ہوں گی ، بہت اچھے اور جدید طرز کے نصات اور ٹریننگ سنٹر کھولنے ہوں گے جس طرح کہ پرائیویٹ سکول  والے کر رہے ہیں ،ہر ضلع کے ایجوکیشن آفیسر کے آفس میں آن لائن مانیٹرنگ سسٹم اور کوچنگ سسٹم ہونا چاہیے۔ہر سکول کو ایک ماہانہ ٹارگٹ نصاب دیا جائے اور ان سے اس کی پراگریس لی جائے ، پراگریس کم کرنے والے سکول اور ماسٹر کو سزا دی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ کم از کم ہر سرکاری ملازم پر لازم کرے کہ وہ اپنا بچہ سرکاری سکول میں داخل کروائے ، اگر حکومت اور متعلقہ ادارے سرکاری سکولوں میں بہتری نہیں لا سکتے تو پھر اس پر کھربوں کا بجٹ ضائع نہ کریں بلکہ اس سے کم بجٹ میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے ڈیل کرکے بچوں کی فیسیں ان کو ادا کرکے ان سے بہترین نتیجہ لیں۔

پاکستان کے ڈوبتے ہوۓ سرکاری سکولوں کو بچانے اور اس میں بہتری لانے کے لئے ہر پاکستانی کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ، ورنہ اگلے چند سالوں میں تعلیم غریب اور سفید پوش آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہو جائے گی ، میں” مکالمہ” کے توسط سے ہر باشعور پاکستانی سے رنگ و نسل اور فرقہ سے بالاتر ہو کر سوچنے کی اور اپنے حصے کی علم کی شمع روشن کرنے کی استدعا کرتا ہوں۔

خدارا تعلیم پر سیاست نہ کریں اس کو تجارت نہ بنائیں ،اساتذہ کرام سے بھی دست بستہ  درخواست گزار ہوں کہ  آپ کا منصب و مقام بہت بلند و بالا ہے ، آپکے ذمے  تو نبیوں اور پیغمبروں والا کام ہے ۔اگر آپ اپنے فرائض سے غافل ہو کر روپے پیسے کی جستجو میں نکل پڑے  ہیں تو پھر میری قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں آخر پر پارا چنار کے معذور استاد گلزار حسین کو  خراجِ  عقیدت پیش کرتا ہوں جس نے انتہائی سخت جسمانی معذوری کے باوجود کبھی بھی اپنے فرائض منصبی سے غفلت نہیں برتی ، میں اپنا آج کا کالم استاد گلزار حسین کے نام کرتا ہوں ۔

Facebook Comments

سجاد اعوان
Thinker,planner,ideologist, political & Social activist, public speaker, writer & true Pakistani.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply