پاکستان میں پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری(قسط2)۔۔عارف انیس

اک باتوں کا دریا ہے، اور تیر کے جانا ہے۔۔
ایک کتاب ہے، ایک صاحب کتاب ہے۔ ایک کتاب کو پڑھنا ہے، ایک صاحب کتاب کو پڑھنا ہے، سننا ہے، دیکھنا ہے۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ یا سیلف ہیلپ انڈسٹری میں بعض اوقات دونوں ایک ہوجاتے ہیں۔

پرسنل ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے مقررین اور مصنفین کا برصغیر پاک و ہند پر بہت اثر رہا ہے۔ بہت دفعہ کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کو کانوں کا چسکہ ہے۔ قابض انگریزوں کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی کے پیچھے بھی مقررین کی قوت کارفرما تھی، آزادی کی تڑپ اس دور کے حساب سے شعر و شاعری اور دیگر اشاعت کے ذریعے لوگوں تک پہنچائیں گئیں۔ جنگ آزادی کے بعد مولوی نذیر احمد اور سرسید کے کام میں بھی مجھے پرسنل ڈیویلپمنٹ یا خود کاری کے لوازمات ملتے ہیں کیونکہ ان تحریروں کے ذریعے مسلمانان ہند کو تبدیلی پر اکسایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی حالت زار سے آگاہ کرنے کے لیے، آنے والے مشکل دور کے لیے تیار کرنے کے لیئے اور خودی کو بیدار کرنے کے لیے علامہ اقبال نے بھی شاعری اور نظموں کے ذریعے عام مسلمانوں کو عمل پر اکسایا ۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، بہادر یار جنگ، عطاء اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری جیسے لیڈرز دراصل اپنے دور کے اعلی پائے کے شعلہ بیان مقررین تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذولفقار علی بھٹو ایک بہترین اسپیکر گزرے ہیں اور ان کی وجہ شہرت ان کی خطابت کے جادوئی انداز میں پوشیدہ تھی۔ 1971 کی مایوس کن شکست کے بعد بھٹو نے ایک مایہ ناز مقرر ہونے کی وجہ سے پوری قوم کو اکٹھا کر کے مایوسی کے اندھیروں سے نکالا۔ عمران خان کے جوہر آپ سب نے کینٹیرز پر دیکھ ہی لیے ہیں۔ طاہر القادری بھی اسی صف میں شامل ہیں۔

پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری میں سپیکنگ کے جدید ماڈل کی داغ بیل تقریبا ً آج سے سو سال قبل ڈیل کارنیگی نامی امریکی شہری نے ڈالی، جب زندگی کے کچھ نا خوشگوار اتفاقات کی وجہ سے 1912 میں اسٹوڈنٹس کو پبلک سپیکنگ سکھانا شروع کی، جو تھوڑے ہی عرصے میں خاصی مقبول ہو گئی۔ 1913 میں بزنس والے افراد کے لیے پبلک سپیکنگ کے عنوان پر ایک کتاب لکھ ڈالی، جس سے موٹیوشنل سپیکنگ کے ایک ایسے شاندار کیرئیر کا آغاز ہوا، جو 1955 میں اس کی وفات تک جاری رہا۔

آج سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری اربوں ڈالرز ڈالر مالیت کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ بعد ازاں بہت سے نامور موٹیویشنل اسپیکر اس بزنس کو امریکہ سمیت پوری دنیا میں فروغ دیتے رہے،جن میں جم رون، زگ زیگلر، سٹیون کووے، جیک کینفیلڈ، برائین ٹریسی اور لیز براؤن سرفہرست رہے۔موٹیویشنل اسپیکنگ کے حوالے سے ڈھیر ساری کتابیں بھی لکھی گئیں، جن کا اردو سمیت دنیا بھر میں 50 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

جدید موٹیویشنل اسپیکنگ بزنس ماڈل کو اپنے موجودہ مقام پر پہنچانے میں گزشتہ تیس سالوں میں جس شخص نے سب سے کلیدی کردار ادا کیا ہے اسے موٹیویشنل اسپیکنگ کی دنیا سے واقفیت رکھنے والے لوگ ٹونی رابنز کے نام سے جانتے ہیں جس کے بارے میں کل میں نے تفصیل بتائی کہ رابنز کا ایک دن 10-7 کروڑ میں پڑتا ہے۔ رابنز ارب پتی ہے اور فجی میں کئی جزائر کا مالک ہے۔

ایک مؤثر پروفیشنل اسپیکر ہونے کے لیے وسیع مطالع اور سوچ کی گہرائی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عام طور پر سامعین کا جوش و جذبہ ابھار کر انھیں کسی کام کرنے کی طرف مائل کر لینا موٹیویشنل اسپیکنگ تصور کیا جاتا ہے۔ تقریر بذات خود ایک ٹول ہے جس سے انسانی جذبات کو اچھے اور برے دونوں قسم کے کاموں کے لیے ابھارا جا سکتا ہے۔ ہر وہ شخص موثر سپیکر ہے جو اپنے سامعین کی اندر کی دنیا میں ایسی تبدیلی لا سکے جسکا اثر کچھ دیر کے لیے باقی رہے، تو پھر چاہے وہ عالم دین ہو ، اسکالر ہو، ٹرینر ہو یا کسی بزنس کا مالک، اپنی صلاحیت کی بنا پر ایک موٹیویشنل اسپیکر شمار کیا جائے گا۔

پاکستان میں ڈھونڈنے سے بھی سن 1980 کی دہائی کے آخر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کے پہلے چند قدموں کے نشان ملتے ہیں۔ جدید طرز کی بزنس ٹریننگ اور پروفیشنل اسپیکنگ کے سب سے پہلے بیج میاں غنی مرحوم نے بوئے، جنہیں پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کے کچھ حلقوں میں ٹریننگ کا جناح بھی کہا جاتا ہے۔ میاں غنی پاکستان سوسائٹی فار ٹریننگ این ڈویلپمنٹ (PSTD) کے بانی بھی ہیں، جو اپنی طرز کا پہلا ادارہ تھا اور آج بھی ایک فعال ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بھی 1950 کی دہائی سے اس کار خیر میں مصروف ہے۔ میاں غنی کے ہم نواؤں میں ایک اور قابل ذکر نام عبدالواحد خان مرحوم کا ہے، جن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ سن 1984 میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم کے کوچ تھے۔ عبدالواحد نے بھی پرائیویٹ سیکٹر میں بحثیت موٹیویشنل سپیکر اور ٹرینر کچھ عرصہ کام کیا، لیکن اس دور میں موٹیویشنل سپیکنگ کا دائرہ اختیار ایک مخصوص طبقے تک محدود تھا اور زیادہ لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان ٹریننگ اور موٹیویشنل سپیکنگ انڈسٹری کے لئے 1991 کا سال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب کامران رضوی برطانیہ میں بیس سال گزارنے کے بعد کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر پاکستان واپس لوٹ آئے تو موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ انڈسٹری کا وہ باب شروع ہوا جس پر آج بھی تعمیراتی کام جاری ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب ٹریننگ اور ڈویلپمنٹ مخصوص محفلوں سے نکل کر عام ہونا شروع ہوئی۔ سن 1990 کی دہائی میں میڈیا اور کانفرنسوں کا رواج شروع ہوا، سکول، کالجز اور دیگر پلیٹ فارمز سے موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پروگرامز کا انعقاد کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں فیض سیال، عمر خان، سین سئی، فلپ لال، مزار بیگ، نسیم ظفر اقبال، میکس بابری، رمیز اللہ والا مرحوم، ندیم چوہان مرحوم اور سرمد طارق مرحوم نے کئ برسوں تک موٹیویشنل اسپیکنگ کے شعبے کو نکھارنے، عوام میں اس کی افادیت کی آگاہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کارپوریٹ سیکٹر میں موٹیویشنل اسپیکنگ کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن نے 1995 میں ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں داخل ہونے کےغرض سے پاکستان میں اپنا پہلا دفتر کھولا جو دو سے تین برس تک پاکستان میں کام کرتا رہا۔ یہ ابھرتی ہوئی ٹریننگ انڈسٹری کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ امریکن مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے اس اقدام سے متاثر ہو کر لمز اور آئی بی اے جیسے تعلیمی اداروں نے اپنے ایگزیکٹو پروگرام شروع کر دیے۔

1995 میں ہی پاکستان کے پہلے ٹرینرز ریسورس گروپ کی بنیاد رکھی گئی جو موٹیویشنل اسپیکنگ کو ایک جامع پروفیشن کا درجہ دینے کی طرف اہم قدم تھا۔ اس کے بانیوں میں اظہراقبال میر مرحوم، عالم ہیلی پوک، جمیل جنجوعہ، عائشہ چوہدری، سید نصرت علی اور کامران رضوی شامل تھے۔ گزشتہ 25 برسوں سے ہر مہینے کے آخری جمعرات والے دن ٹرینر ریسورس گروپ کی میٹنگ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد ٹریننگ انڈسٹری کے لیے بہترین پریکٹسز کو طے کر کے دیگر ٹرینرز اور آرگنائزیشنز تک پہنچانا ہے۔ 1990 کی دہائی میں ضیا محی الدین صاحب، جاوید جبار اور معین اختر مرحوم اپنے اپنے شعبے میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ معروف سپیکر ز بھی تصور کیئے جاتے تھے، مگر وہ محفلیں زیادہ تر ثقافت، تاریخ، حقائق، کامیڈی اور مزاح کے گرد گھومتی تھیں۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے بلاشبہ اشفاق احمد کی خدمات مثالی ہیں۔ خان صاحب کمال کے “داستان گو” تھے اور لوک دانش کو جدید دنیا کے ساتھ ایسے سبق آموز طریقے سے لپیٹتے تھے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے تھے۔

اکیسویں صدی پاکستان ٹریننگ انڈسٹری کیلئے نیا دور لے کر آئی، جب لوگ جوق در جوق ٹریننگ اور موٹیویشنل سپیکنگ کو کیریئر کے طور پر اپنانے لگے۔ اس حوالے سے سکول آف لیڈرشپ نے کلیدی کردار ادا کیا، جہاں سن 2002 میں پہلی مرتبہ لیڈرشپ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں پورے پاکستان سے ہر سال نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ دور حاضر کے معروف موٹیویشنل اسپیکر عمیر جالیا والا سکول آف لیڈرشپ کی ہی پیداوار ہیں ۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ قیصر عباس، ولی زاہد، فرہاد کرم علی، سہیل زندانی، قاسم علی شاہ اور راقم الحروف جیسے سپیکرز لے کر آئی۔

قیصر عباس کی اپنی کامیابی کی کہانی سامعین کا دل موہ لینے کے لیے کافی ہے، وہ سہیل زندانی اور فرہاد کرم علی کے ہمراہ، دور حاضر میں پاکستان کے سب سے زیادہ کامیاب کارپوریٹ ٹرینرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ٹرین دی ٹرینرز پروگرام اور ایک کوچ کی حیثیت سے ولی زاہد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ میکس بابری، راحیلہ نوریجو، عامر قریشی نے اپنے اپنے شعبوں میں لوہا منوایا۔ گزشتہ دس سالوں میں اگر کسی فرد واحد نے موٹیویشنل سپیکنگ کی ساکھ بڑھانے اور اسے عوام تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، تو وہ قاسم علی شاہ ہیں۔ موٹیویشنل اسپیکنگ کو مخصوص کمروں اور اداروں سے نکال کر ٹیکنالوجی کی مدد سے عام عوام تک پہنچایا۔ پہلی دفعہ لاکھوں پاکستانیوں نے براستہ موبائل پرسنل ڈیویلپمنٹ کی افادیت کو اپنی زندگی میں محسوس کیا۔ آج واٹس ایپ اور یوٹیوب کی مدد سے موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری نے دہائیوں کا سفر چند برسوں میں طے کر لیا۔ پاکستان بھر میں ہر سال اوسطً تین سو سے زائد یوتھ کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

کئی برسوں تک پاکستان میں ڈیل کارنیگی، جم دان اور برائین ٹریسی جیسے معروف موٹیویشنل سپیکرز کی کتابیں اردو میں ترجمہ کرکے استعمال ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں چند پاکستانی موٹیویشنل سپیکرز اور ٹرینرز نے پاکستانی معاشرے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیلف ہیلپ کے موضوعات پر کتابیں لکھیں، جس میں بشیر جمعہ کی کتاب “آج نہیں تو کبھی نہیں” ، فیض سیال کی “بدلو سوچ بدلو” “زندگی اور “شاہراہ کامیابی”، قیصر عباس اور میری مشترکہ کتب “شاباش تم کر سکتے ہو”، “ٹک ٹک ڈالر” اور قاسم علی شاہ کی لکھی گئ چند کتابیں شامل ہیں، مگر آج بھی پاکستان کی سپیکنگ انڈسٹری میں اوریجنل کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ کالم نگاروں میں عامر ہاشم خاکوانی نے کمال کے انسپائریشن کالم لکھے ہیں۔ ریاض خٹک بہت اچھوتے انداز میں اختصار کے ساتھ نئے در کھولتے ہیں۔

اپنے اپنے شعبوں میں اوج کمال تک پہنچنے والے افراد بھی تحریک پیدا کرنے والے کا کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ جن میں دین، تعلیم، بزنس این جی اوز، انٹرٹینمنٹ اور کارپوریٹ سے تعلق رکھنے والے بااثر لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو ان ناموں میں مولانا طارق جمیل، پروفیسر رفیق اختر، سید سرفراز شاہ، جاوید چوہدری، موسی رحمان، عندلیب عباس، سلیم غوری، ڈاکٹر صداقت علی، ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر جاوید اقبال، عمر عرفان مصطفی، رضا پیر بھائی، جسٹس ناصرہ اقبال، اعجاز نثار، ابرار الحق اور اظفر احسن سرفہرست نظر آئیں گے۔ ویسے تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی الیکشن فارم میں اپنا پیشہ “موٹیویشنل سپیکر” لکھا تھا جس کا علم مجھے 2015 میں ان کے ساتھ ایک ملاقات میں ہوا۔

پاکستان اور اسلام کی تاریخ، ثقافت اور روح کو آج کے جدید میڈیم کے ذریعے نوجوانوں تک پہنچانے کا کریڈٹ موٹیویشنل سپیکرز کو جاتا ہے۔ یہاں خاص طور پر قاسم علی شاہ اور عمیر جالیا والہ کا ذکر ضروری ہے۔ آج گھر بیٹھے اقبال کے پیغام کی سلیس اردو ہم تک پہنچ رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئی ذی شعور پاکستانی ہو جو واصف علی واصف، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، فیض احمد فیض اور حبیب غالب جیسے ناموں سے ناواقف ہو۔ شاید پہلی مرتبہ قائد اعظم کا پیغام ہمارے آج کے روزمرہ کے مسائل کے ساتھ نتھی کر کےہم تک پہنچایا جا رہا ہے۔ ماضی اور حال کا کوئی ایسا نامور پاکستانی نہیں ہے جس کی کامیابی اور اس کے پیچھے چھپا راز ہم تک آسان زبان میں نہ پہنچ پایا ہو۔ پھر چاہے ہم عبدالستار ایدھی کی بات کریں، جھانگیر خان، گل جی،عبدالقدیر خان یا پھر عمران خان۔ اب محنت کے بل بوتے پر کھڑے ہونے والے ہر قسم کے بزنس کی اندرونی کہانی کو بھی لوازمات کے ساتھ عام پاکستانی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب اور بھی بہت کچھ پروفیشنل سپیکرز کی بدولت ہی ممکن ہوپایا ہے۔

اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج بھی پاکستان میں موٹیویشنل سپیکنگ ایک پروفیشن کے اعتبار سے اپنے ایام طفولیت میں ہے۔ ابھی پر پرزے نکال رہی ہے اور ٹرینرز ٹرائب جیسے پلیٹ فارمز موٹیویشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ کو ایک پروفیشنل تربیت میں ڈھالنے کے لئےجتن کر رہے ہیں۔ آج مارکیٹ میں موٹیویشنل سپیکرز کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، مگر فعال سپیکرز کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری کے معروف ناموں میں شیخ عاطف احمد، سدرہ اقبال، زیدان خان، حماد صافی، صغیر احمد، ڈاکٹر عارف صدیقی، علی احمد اعوان، منیبہ مزاری، بلال شیخ، یاسر عرفات، دانیال صدیقی، اعجاز باجوہ، خواجہ مظہر نواز صدیقی، ڈاکٹر نعیم مشتاق، خبیب کیانی،احمد علی اعوان، سلطان خان، انیق حیدر، عمارہ خالد، رضوان اللہ، ندیم اکرم، اسد طاہر جپہ،عاطف مرزا، روشانا ظفر اور عثمان گلزاری شامل ہیں۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں پروفشنل اسپیکنگ اور ٹریننگ پاکستان میں سب سے تیزی سے پھیلنے والے شعبوں میں شمار ہوگا۔ ایک دن میں لاکھوں کمانے کا تصور اور ایک “سیلیبریٹی” کا سٹیٹس بہت سے لوگوں کو پرسنل ڈیویلپمنٹ کے شعبے میں آنے کے لیے ابھارتا ہے۔ تاہم یہ واضح کرتا چلوں کہ اس شعبے میں اپنا قد کاٹھ بنانے کے لیے 15-10 کا طویل سفر اور جاں گسل جدوجہد ہے۔ موسمی موٹیویشنل سپیکرز کی دکانیں رفتہ رفتہ بند ہوتی جائیں گی۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوئی بھی جوہر قابل لوگوں کی نظروں میں آئے بغیر نہیں رہ پائے گا۔ ایک منجھا ہوا مقرر اپنی تاریخ سے، کتابوں سے، ثقافت سے رہنمائی لے کر موقع اور سامعین کی مناسبت سے روحانیت کا تڑکا لگا کر اپنی بات کو اس انداز سے ایک کہانی کی شکل دیتا ہے کہ سننے والے موقع ومحل سے بے خبر ہو کر خود کو کہانی کا ایک کردار تصور کر نے لگتے ہیں۔ البتہ کسی بھی فن کی طرح اعلٰی پائے کا سپیکر بننے کے پیچھے سالوں کی ریاضت لگتی ہے۔ ڈھیر ساری سرٹیفیکیشن کرنے کے ساتھ ساتھ کئی مہارتیں بھی سیکھنی پڑتی ہیں۔ سینکڑوں، بلکہ ہزاروں کتابیں پڑھنی پڑھتی ہیں اور ان میں سے حکمت کا عرق کشید کرنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی مجھ سے کوئی پانچ سال پہلے پوچھتا کہ پرسنل ڈیویلپمنٹ انڈسٹری میں نام بنانے میں کتنا وقت اور سرمایہ خرچ ہوتا ہے تو میرا جواب ہوگا، دو سے تین کروڑ اور 20-15 سال۔ تاہم ٹیکنالوجی نے سب تلپٹ کردیا۔ اب 15 سال کا سفر درست رہنمائی میں 7-5 سال میں ممکن ہے۔
پاکستانی سیلف ہیلپ انڈسٹری میں کیا اچھا نہیں ہے، کیا اچھا ہوسکتا ہے؟ نئے سپیکرز کو کیا سیکھنا چاہیے، اور کیا یہ واقعی کیرئیر بن سکتا ہے؟ ٹیکنالوجی میں کیا امکانات اور خطرات پوشیدہ ہیں، اس پر کل گفتگو ہوگی۔
عارف انیس
( اس قسط کو لکھنے کے لیے تحقیق کے دوران مخدوم طارق محمود، انیق حیدر اور پرویز طفیل کے مواد سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ناموں میں کمی بیشی سہواً رہ گئی ہو، تو معذرت۔ کسی بھی غلطی کی تصحیح کر دی جائے گی )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply