• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹرمپ- خان ملاقات؛ باڈی لینگویج کا تجزیہ۔۔عارف انیس ملک

ٹرمپ- خان ملاقات؛ باڈی لینگویج کا تجزیہ۔۔عارف انیس ملک

لو جی فیر چوہدری انکل سام سے ملاقات ہو ہی گئی!

باڈی لینگویج کے ایک طالب علم کے طور پر اس ملاقات کا شدت سے انتظار تھا کہ سطور اور بین السطور بہت کچھ کہا جائے گا. ٹرمپ سے دو (صدر بننے سے پہلے بحیثیت سپیکر) اور خان سے مختلف مواقع پر درجنوں ملاقاتیں رہیں. دونوں کی بدن بولی کو بھرپور پڑھا تھا، کچھ قیافے لگائے تھے جو تقریباً جوں کے توں پورے ہوئے. میں اس فیلڈ میں اپنے بیس برس کے تجربات سامنے رکھتے ہوئے دونوں کو پرفارمنس کے اعتبار سے ایک، ایک نمبر دوں گا.

ہم میں سے ہر ایک کا سگنیچر پوز ہوتا ہے. ٹرمپ کا بھی ایک خاص پوز ہے اور وہ اسی میں نظر آیا. یہ ڈیل میکر یا بریکر کا پوز ہے اور اکثر سربراہی کانفرنسوں میں وہ ایسے ہی بیٹھا نظر آئے گا. وہ عموماً کرسی کی نکڑ پر قدرے آگے جھک کر بیٹھتا ہے. اور اسی دوران اس کے ہاتھ ریورس سٹیپل بناتے ہیں جس میں دونوں ہاتھ مل کر تکون بناتے ہیں اور انگوٹھے تکون کی چھت. جب ایک لیڈر آگے ہو کر اس طرح بیٹھے تو اس کا مطلب ہوتا ہے میرے پاس بکواس کے لیے وقت نہیں، سو میرے کام کی بات کرو، ورنہ میں تو گیا . اس کا یہ مطلب بھی ہوتا ہے کہ آئی ایم رننگ دا شو. سٹیپل اعتماد کو ظاہر کرتا ہے اور ریورس سٹیپل اس امر کو کہ میں آپ کی بات بخوبی سن رہا ہوں. ساتھ ساتھ سر کی خفیف جنبش بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے.

خان کا سگنیچر پوز کرسی کی پوری نشست استعمال کرتے ہوئے کمر کرسی کی پشت سے ٹکاتے ہوئے، ٹانگ پر ٹانگ رکھنا ہے. یہ بھی اعتماد کا خاص پوز ہے. گو سفارتی زبان میں زیادہ مقبول نہیں کہ اس سے رعونت جھلکتی ہے. خان بات کرتے ہوئے انگلی کا اشارہ کرتا ہے جو کرکٹ میں فیلڈنگ کی اٹھک بیٹھک کرنے کی عادت سے متعلق ہے اور جارحانہ ہونے کی وجہ سے ڈپلومیسی کی دنیا میں زیادہ مقبول نہیں ہے.

کانفرنس میں ٹرمپ اپنے مخصوص من چلے انداز کی وجہ سے چھایا ہوا تھا. جو لوگ ڈپلومیسی کی زبان سمجھتے ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ اس نے کھلنڈرے انداز میں بیٹھے بیٹھے دھمکیاں اور آفریں ساتھ پھڑکا دیں. کسی بھی اور امریکی صدر کو یہ سب کچھ کہنا، تقریباً ناممکن تھا. وہ صحیح معنوں میں آرٹ آف ڈیل کا بادشاہ نظر آیا. مثلاً کشمیر پر ثالثی کی آفر، ایران جھوٹ بولتا ہے مگر پاکستان نہیں (ونک، ونک) ،کیوں مسٹر پرائم منسٹر؟ ہم نے دنیا میں اربوں ڈالرز لٹائے ہیں، پاکستان بھی یہ کیش لینا پسند کرے گا (ونک، ونک). مجھے پاکستانی رپورٹر امریکیوں سے زیادہ پسند ہیں. پاکستان پہلے اس لیے بدمعاشی کر رہا تھا کہ انہیں غلط صدر سے پالا پڑا تھا، اب وہ اصلی صدر سے ڈیل کر رہے ہیں (سو غلطی گنجائش نشتہ). بار بار دہرانا کہ پاکستان نے افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنا ہے (کوئی چوائس موجود نہیں). ہم نے افغانستان میں بموں کی ماں کی بوچھاڑ کی تو زمین پر چاند جتنا گڑھا پڑ گیا (ایک بلی بوائے کی دھمکی). اور پھر آخر میں خان کو پیش کش کہ میں تمہاری کیمپین رن کروں گا. اس پوری گفتگو میں سوائے پریس کے بارے میں بات کرنے کے علاوہ ٹرمپ نے پوکر فیس رکھا اور چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے.

خان نے اپنے آپ کو پروقار طریقے سے سنبھالا اور ایزی نظر آیا. اس نے شلوار قمیض کو عزت دی اور اچھا ہوا کہ شیروانی نہیں پہنی. گفتگو کے درمیان میں مشکل مراحل بھی آئے جب ایران، کشمیر اور پاکستان کے وعدے ایفا کرنے کی باتیں ہوئیں. اس وقت خان اپنی ہاتھ کی انگوٹھی سے کھیلتا نظر آیا جو کہ اس کے اندرونی اضطراب کی عکاسی تھی. چونکہ گفتگو کی کمانڈ ٹرمپ نے اپنے ہاتھ میں رکھی تو خان اس دوران دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے نظر آیا. بدن بولی کا یہ اشارہ خاص طور پر اس وقت سامنے آتا ہے جب سننے والا اپنی طوفانی سوچوں کے اوپر بند باندھ رہا ہوتا ہے. خان کے اندر بہت کچھ مچل رہا تھا، مگر اس نے اپنے اوپر قابو پائے رکھا، جو خان کو جانتے ہوئے ایک معرکے سے کم نہیں ہے. خان کی شکل میں پوری دنیا کو ایک ایسا پاکستانی لیڈر نظر آیا جو اعتماد سے بھرپور تھا اور جسے اپنی بات آگے پہنچانے کے لیے کسی پرچی کی کوئی ضرورت نہیں تھی. خان کا افغانستان پر جو دیرینہ مؤقف تھا، ایک طرح سے پورا ہوتا ہوا نظر آیا کہ طالبان صرف لاتوں کے بھوت نہیں ہیں، یہ امر خاص طور پر خان کے حق میں جاتا ہے. باقی پہناوے کی بات ہے تو خان کی وجہ سے چپل ہوسکتا ہے گلوبل ٹرینڈ بن جائے.

خان میں بحیثیت سٹیٹس مین کچھ کسر نظر آئی. جب بھی وہ بولا، کھل کر نہیں بولا اور ٹرمپ کہ ہاں میں ہاں ملاتا نظر آیا. تاہم اس کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ زیادہ بہتر رہا، ورنہ وائٹ ہاؤس میں وجنے والی چول بندے کا سر لے جاتی ہے. پاکستان میں میڈیا پر پابندی کے سوال کو بھی سر سے اتارا گیا. خان مزاح کو استعمال کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا، جیسے ٹرمپ اسے بطور ہتھیار برتتا ہے.

پریس کانفرنس، مجموعی طور پر گاجر اور ڈنڈے کا ملا جلا امتزاج تھا. ٹرمپ نے اپنی وش لسٹ پاکستان کے حوالے کردی ہے اور مچل بیٹھا ہے کہ اسے پورا کیا جائے. ساتھ جانے والے مائ گارڈ اس امر کو یقینی بنائیں گے. نارتھ کوریا کے بعد پاکستان، ٹرمپ کی لسٹ پر اونچے نمبر پر تھا جسے سدھایا جانا ضروری تھا . تاہم ٹرمپ کو اگر اپنی مرضی کی ڈیل نہ ملی تو وہ گاجر کو ہی ڈنڈے کے طور پر استعمال کر گزرے گا. پریس کانفرنس کا سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا، جب وہ ختم ہوگئی. اس وقت واشنگٹن میں موجود کتنے ہی لوگوں اپنے اندر دو گھنٹے سے رکا ہوا سانس چھت کی طرف اچھالتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا ہوگا.

Advertisements
julia rana solicitors london

عارف انیس
مصنف :باڈی لینگویج ڈکشنری

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ٹرمپ- خان ملاقات؛ باڈی لینگویج کا تجزیہ۔۔عارف انیس ملک

  1. بدن بولی میں ایک اور بات کی بھی اہمیت ہوتی ہے. کہ کیا ملنے والے دونوں رہنما برابر پوزیشن پر رہ کر مل رہے ہیں یا اس میں کافی تفاوت ہے؟ اس اینگل سے دیکھا جائے تو خان بہت کمزور پوزیشن پر تھا. اس کے پاس بارگینگ کے لیے باسکٹ میں کچھ خاص نہیں تھا سوائے طالبان اور افغانستان کے. اس میں بھی ٹرمپ کی کسی خاص ڈیل کی خواہش ہی اصل تھی. ورنہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے تو پاکستان کو روکھا جواب دے دیا تھا. ایسے میں خان کا کمپوز رہنا اور ٹرمپ کو زیادہ بولنے دینا.. پاکستان کے حق میں گیا. شاید پاکستان اس سے زیادہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا. ہماری اصل کمزوری معاشی رہی.

Leave a Reply to عابد Cancel reply