ساری گیم ڈالر کی ہے۔۔محمد خان چوہدری

انکل ٹرمپ کی اگر آدھی بات ہی مان لی جائے تو کرونا وائرس کی ننھیال کا پتہ چلانا ممکن ہے۔ٹرمپ چاچو سے پہلے امریکہ میں ہمارے انکل سام بھی گزرے تھے، انہوں نے ہمارے اصلی ہینڈسم صدر صاحب کو اس زمانے میں ڈالر اور فوجی سازوسامان کی کھیپ دیتے  وقت یہ تنبیہ کی تھی کہ، بچُو! چین سے محتاط رہنا، اس وقت ہم انڈس سُپر ہائی  وے بنوانے کا سوچ رہے تھے، انکل سام بڑے شفیق اور ڈالر دینے والے بزرگ تھے، ان کے تحائف سے مصافحہ کے سگنیچر والے سامان سے ملک بھرا ہوا تھا ، ہم اس ہائی  وے سے دستبردار ہو گئے۔ لیکن اس بات کا قلق رہا کہ شاہراہ ریشم خواب و خیال ہو گئی، انکل سام بھی چلے گئے یہاں بھی حکومت بالغ ہو گئی تو جناب ہم نے کانٹا بدلا۔ امریکہ بہادر کے خارجی مطلب وزیر خارجہ کو بھیس بدلوا کے چین پہنچایا، چین اور امریکہ میں ایسا معانقہ کروایا کہ چند سالوں میں ان کی دوستی ہمالیہ کے برابر ہو گئی، چین نے کھل کے امریکہ کے سرکاری بانڈز میں سرمایہ کاری کی، امریکہ نے بھی اپنے بڑے بڑے صنعتکاروں کو چین میں کارخانے لگانے کی اجازت دی ۔
ہاں یہ امر موجود رہا کہ روس کے سویت یونین رہتے چین اور امریکہ کے تعلقات غیر شادی شدہ جوڑے کے افیئر کی طرح پوشیدہ رہے، اور ہمارا کردار بھی انہیں مخفی رکھنے میں اہم رہا۔
اللہ بھلا کرے اس زمانے کے روسی رہنماؤں کا، جنہوں نے افغانستان پر چڑھائی کی، ہمارے تو ڈالر میں پاؤ بارہ ہوئے،لیکن روسی فوج کے افغانستان سے انخلاء  کے ساتھ، روس کے بطن سے ساری ریاستیں برآمد ہو گئیں، سویت رشیا ختم اور روس اپنے اصل وجود میں لوٹ آیا۔ ساتھ سوشلسٹ بلاک کی نمبرداری چین کو مل گئی۔

وائرس کی طرف لوٹتے ہیں، جب چین کو دنیا کی تجارت میں حصہ بقدر جثہ ملنا شروع ہوا تو چینی مصنوعات کی طلب بھی بڑھ گئی، صنعتوں کے قیام میں تیزی سے وسعت ہونے لگی، جو زیادہ تر دیوار چین کے پیچھے پنہاں رہی ، مینوفیکچرنگ میں درجہ بندی کی گئی، بنیادی اصول یہی کہ مال ایکسپورٹ ہو اور ڈالر آئیں ۔۔ چاہے جیسے بھی، کہیں سے بھی!

چینی بھائی  ہم سے دو تین سال بعد میں آزاد ہوئے۔ اُس وقت چین صرف چین کے اندر تھا۔ بلکہ ہانگ کانگ برطانوی سامراج کے پاس گروی تھا، ساتھ نئے مغربی استعمار نے تائیوان کو علیحدہ ملک تسلیم کر کے چین کی ٹانگوں میں ڈھنگا الگ سے ڈال دیا۔ لیکن چین نے سر جھکا کے ، پہلے اپنی ڈیڑھ سو کروڑ سے زائد آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پہ  خود کفالت حاصل کی، ساتھ دنیا بھر سے جدید ٹیکنالوجی اکٹھی کی، اسے کھول کھال کے ، سوئی سلائی  سے جہاز تک ہر شے خود بنانی شروع کی، صنعتی پیداوار کی درجہ بندی یوں کی کہ امریکہ اور یورپ کے لیے اوّل درجہ کے کوالٹی کنٹرول سے ایکسپورٹ کا سامان بنایا، ایکسپورٹ ریجیکٹس کو دوبارہ فنشنگ  کر کے مڈل ایسٹ کے تیل سے مالا مال ممالک کو برآمد کیا، اور ڈالر کمانے لگے، صنعتی ویسٹ سے تیسرے اور چوتھے درجے  کا سامان بنا کے ہم جیسے ممالک کو بیچنے لگے۔

برآمدگی مال بنانے پر مکمل سرکاری سرپرستی اور حفاظتی تحفظ تھا، ٹارگٹ بس دنیا بھر سے ڈالر کمانا تھا۔۔۔اس تناظر میں دیکھیں تو سمجھ آتی ہے،کہ جو کرونا وائرس امریکہ اور یورپ میں ہے وہ واقعی اوّل درجہ کا ہے۔ اسی لئے تو ان کی چیں بول رہی ہے۔
ایشیا اور افریقی ملکوں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے کرونا کی وہ شدت نہیں ،ہمارے ہاں تو کوئی  دو نمبر نہیں ، چار نمبر کا وائرس ہے، بس بہت ہی ہلکا پھلکا سا، لیکن ۔۔۔یہاں حکومت کے ہاتھ پاؤں اس لیے پھولے ہوئے ہیں کہ نائن الیون اور دہشت گردی کی طرح کرونا کا کُھرا بھی کہیں ہمارے گھر تک نہ پہنچ جائے، پہلے ہی ایف اے ٹی ایف والے دہشت گردی کی فنڈنگ ہمارے سر ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو میرے پاکستانیو ! یہ کرونا سے بچنا ہے، لازم ہے ، لیکن جتنا شور شرابہ اور ہنگامہ حکومت اور مُلاں مچا رہے ہیں،یہ ڈرامہ ہے، تو آپ نے کرونا سے بچنا ہے، محتاط رہنا ہے ، بہت احتیاط کرنی ہے پر نہ اس سے ڈرنا ہے،نہ خوفزدہ ہونا ہے، یہ سرکاری رولا رپا امیر ملکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضوں میں چھوٹ اور “ڈالر ” کی  امداد لینے کی کاوش ہے۔
دعا ہے کہ حکومت ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہو۔ اور اللہ کریم ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھیں !آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply