ہماری مستیاں اور آبی قلت کا بحران

پاکستانی عوام کے لیے تندرستی ہزار نعمت کی بجائے لاعلمی ہزار نعمت ہے۔ بحیثیت  قوم لاعلمی اور لاپرواہی میں پوری دنیا میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔اس میدان میں مکمل طور پر ہماری اجارہ داری قائم ہے۔ مگر ایک بات آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاریخ کی کتابیں ہر صفحے پر ہماری کوتاہیوں کی داستان بیان کر رہی ہیں ۔مگر ہم ان کوتاہیوں کو اغیار کی سازش قرار دے کر مست ہیں ۔مستی ایک کیفیت کا نام ہے۔جس میں مبتلا شخص ہر قسم کی افتاد سے لاعلم ہو کر اپنے جیون میں کیف و جذب کا سرور محسوس کرتا ہے۔ہم سب مست ہیں۔ماضی ہمیں یاد نہیں حال کا کچھ پتا نہیں اور مستقبل میں آنے والے بحرانوں کی کوئی چنتا نہیں ۔اور آنے والی آفات کے متعلق اگر ہمیں بتایا جائے تو مستی میں آ کر بے نیازی سے بولتے ہیں۔جو ہوگا دیکھا جائے گا۔کل کس نے دیکھی  ہے، چار دن کی زندگی ہے ۔موج مستی کرو۔ چھڈو جی مٹی پاو ۔

انسان کو اپنی بقاء کی فکر ہر دم رہنی چاہیے ۔مگر بدقسمتی سے ہمیں اپنی بقاء کو لاحق خطرے کی ذرا  بھی فکر نہیں ۔گذشتہ تیس سالوں سے ایک خبر کم و بیش ایک جیسے الفاظ میں وقفے وقفے سے اخبارات کی زینت بن رہی ہے۔مگر مجال ہے ہماری مستی میں رتی برابر کمی آئی ہو۔آج اخبار میں پھر خبر شائع ہوئی جس کے بعد خیال آیا کیوں نہ قوم کی مستی میں خلل ڈالا جائے۔خبر کیا ہے آنے والے بحران کی تنبیہ ہے ۔جو کئی سال سے کی جارہی ہے ۔مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔

خبر کے مطابق چیئرمین واپڈا نے سینٹ میں فورم فار پالیسی ریسرچ کے اجلاس میں بریفنگ دی۔چیئرمین واپڈا نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں 75فیصد پانی گلیشیئر اور 25 فیصد بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔پاکستان آبی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں 15 نمبر پر موجود ہے۔بلوچستان میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔پاکستان کے درجہ حرارت میں 10 فیصد   اوسط کے حساب  سے اضافہ ہو چکا ہے۔جس کی وجہ سے گلیشیئر پر برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔مستقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔جبکہ پاکستان میں دیامیر بھاشا ڈیم اور نئے ڈیمز کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ پانی سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔پاکستان کے پاس فی الوقت صرف 30 یوم تک کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔بروقت ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے۔بصورت دیگر پاکستان کو پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا ہو گا۔سچ پوچھیں تو میں اس قسم کی خبریں اپنے بچپن سے پڑھ رہا ہوں۔مگر آج کے دن تک پاکستانی قوم اور حکومت دونوں  اپنی مستی میں مست ہیں ۔ ایک بھی ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیامیر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد دو مرتبہ رکھا جا چکا  ہے۔مگر ہنوز دلی دور است کے مقولے پر دل وجان سے عمل کیا جا رہا ہے ۔چیئرمین واپڈا ہر سال بریفنگ دے کر چین کی نیند سو جاتے ہیں ۔چلو میرا فرض ادا ہوا اب کوئی عمل کرے نہ کرے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply