انتقام کی آگ۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

انسان جس تیزی کے ساتھ تعمیر و ترقی کے میدان میں اُترا ہے۔اُسی شدت سے اس کی فطرت میں برائی نے بھی جنم لیا ہے ۔عنوان کا چناؤ قاری کو ایسے سحر انگیز ماحول میں لے جاتا ہے۔ جہاں وہ اپنی پوری توجہ مرکوز کرکے اس بات کا کھوج لگاتا ہے تاکہ وہ اس بات کا نتیجہ اخذ کر سکے ۔

ذہن کی پردہ سکرین پر کافی عنوان محوِ گردش تھے البتہ میں” انتقام کی آگ “پر سراپا احتجاج ہو گیا، کیونکہ یہ عنوان میری توجہ کا مرکز بن گیا تھا ۔ میری روح اس بات پر سوز کی وادی میں غم سے نڈھال آہیں بھر رہی تھی ۔مجھ پر سکتے کا عالم طاری تھا اور وہ مجھے ایک ایسی بات پر طعنہ دے رہی تھی جسے سُن کر میں آگ بگولا ہو گیا۔ تاکہ میں معاشرے میں پھیلی ہوئی ان علتوں ناچاقیوں،کدورتوں اور نفرتوں کو جو براہ راست انسانی زندگی کو متاثر کرتی ہیں،ان حقائق کا کھوج لگا کر اسے قلم بند کرو ں، میں اس بات پر غوروخوض کر رہا تھا ۔پھر اچانک ایک خیال میرے ذہن کو آکر جکڑ لیتا ہے کہ تو معاشرے میں کیا دیکھتا ہے ؟ میں غم کی وادی میں چلا اٹھتا ہوں کہ میری آنکھوں کے سامنے انتقام کی آگ جل رہی ہے۔

میں اس آگ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہوں ،نہ تو وہ کم ہورہی ہے اور نہ وہ بجھ رہی ہے ۔اس میں غضب کی سرخی ہے جو خون بہنے کی علامت پیش کر رہی ہے ۔قصہ عجیب ہے اس آگ سے انتقام کی آوازیں آگ کے شعلوں کے ساتھ بھڑک رہی ہیں اور اس بات کا بار بار عذر پیش کر رہی ہیں کہ اس بھڑکتی آگ کو بجھاؤ ۔ ہماری روح ایسی اذیت میں مبتلا ہے جہاں ہمیں چھٹکارا نہیں مل رہا ۔کاش!
کوئی ہمیں اس عذاب سے نکالنے کی ہماری مدد اور رہنمائی کرے ، ہم اپنی بے بسی کا رونا رو رہی ہیں ۔ہمارا انتظار لمبا ہو گیا ہے ۔ہمارا کرب روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ہمیں کوئی دلاسہ دینے والا نہیں ہے ۔ہم اکیلی اور خوف کے جنگل میں پھنسی ہوئی ہیں ۔تنہائی بری طرح سے ہمیں ڈس صرف رہی ہے ۔

ہم بے یارومددگار تڑپ رہی ہیں ۔نہ  کوئی ہمارے آگے اور نہ  کوئی پیچھے ہے ۔ان باتوں کو سننے کے بعد اچانک میں اپنی جانب ہمدردی کی بھاپ اٹھتے دیکھتا ہوں ۔میرے کانوں میں ایک ہلکی سی سرگوشی ہوتی ہے ۔اے صاحب! اپنا قلم اٹھا ،لکھ یہ انتقام کی آگ ہے ۔کیونکہ میرے جسم و روح پر معاشرتی سلجھاؤ کا بوجھ پڑا تھا ۔اس لئے فورا ً میرے دل نے اس بات کی حامی بھر لی ۔قلم تھمتے ہی میری آنکھوں کے سامنے کئی ایسے دلخراش واقعات سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور مجھ سے درخواست کرنے لگے پہلے ہمارا احوال لکھ کیونکہ ہمارے دکھوں کی داستان ناقابل برداشت ہے ۔

میرے اوپر وہم و خوف   کی شدت تھی ۔میں نے پھر بھی کپکپاتے ہوئے اپنا حوصلہ بلند کیا اور ان دلخراش واقعات کو اپنے ذہن کی پردہ سکرین پر آن کر کے دیکھنے لگا تو مجھے سب سے زیادہ انتقام کی آگ کے واقعات نظر آئے ۔جن میں بے چینی ، بے بسی ، نسلوں کا انتقام ، ذاتی رنجشیں ، خاندانی بدلے ، انا کے انبار ، ناکامیوں کے بوجھ ، فراڈ کے واقعات ، غیر منصفانہ واقعات ، ظلم و ستم کی داستا نیں شامل تھی جنہیں محسوس کئے بغیر قلم فرسائی ناممکن تھی ۔

اگر لفظ انتقام کی تعریف و توصیف کرنا مقصود ہو تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لفظ آسیب زدہ ہے کوئی انسان اس کے آس پاس نہ آتا اور جاتا ہے ۔کیونکہ اس کی دہشت اتنی زیادہ ہے کہ سوچ کا پرندہ بھی اس کے قریب آ کر پھڑ پھڑا نہیں سکتا ۔ایسا خوف اگر دل و دماغ کی دیواروں اور نسوں پر چڑھ جائے تو وہ کرب میں مزید اضافہ کر دیتا ہے ۔انسان کی قوت برداشت اور قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے ۔

انسان نے جہاں علم کی بلندیوں کو چھوا ہے ، اس نے دولت کے پہاڑ کھو دے ہوں ، وہ اس آسائش و زیبائش سے لطف اندوز ہوا ہو ، اس نے تجربات و مشاہدات کا ذائقہ چکھا ہو ، اس نے دنیا کی خاک چھانی ہو ، اس نے اچھے برے دن دیکھے ہوں ، وہ حالات کے مدوجزر سے بخوبی واقف ہو، اس نے علم و فلسفہ کو ہضم کیا ہو ۔الغرض میں ان باتوں پر  جتنا بھی لکھتا جاؤں ، وہ آنکھوں میں اسی قدر اُترتی جائیں گی ۔لہذا میں اسے مزید لکھنے سے گریز کروں گا ۔

اگر ہمارے اندر انسانیت کی فلاح و بہبود کا بوجھ ہے تو انتقام کا قرض اتارا جا سکتا ہے ۔اگرچہ ہماری فطرت،انداز، نظریات، سوچ ،ترجیحات ،اور حالت ِ دل ایک جیسی نہیں ہے ۔جہاں معاشی نا ہمواریاں  ہوں، وہاں یکسانیت ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے، ماحول میں آلودگی اور تناؤ بڑھ جاتا ہے ۔کیونکہ انسان خدا کی شبیہ پر بنا ہے اور اس کی زندگی روح ، بدن اور جان سے بن کر مکمل ہوتی ہے اور اگر اس زندگی کے ساتھ چھیڑ خانی کی جائے تو پھر یہ ضائع ہو کر راکھ ہو جائے گی ۔

مجھے اکثر ان باتوں کا خیال آتا ہے کہ دنیا میں اتنا غم و غصہ ، ظلم و ستم ، لڑائی و جھگڑے ، تنگی و بیماری ،قحط و وبا ، ناراستی وناپاکی کیوں زہر کی طرح پھیلی ہوئی ہیں ۔دنیا ایک عجیب منزل کی طرف رواں دواں ہے، جہاں رونا اور دانت پیسنا ہے ۔یہ بات بھی سچ ہے کہ خدا انسان کو پیدا کرکے ملول ہوا تھا اور اس نے سوچا کہ انسان کے خیالات سدا بُرے ہی ہوتے ہیں ۔پھر اس نے انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ، لیکن اچھائی برائی کے لئے اسے اپنی شریعت ضرور دے دی تاکہ روز محشر کو اس کا جواب دے سکے۔

اگر ہم اپنی فطرت میں ان باتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے اس میں جلن ،حسد ،ناپاکی، بدعات ، توہمات اور گالی گلوچ کوڑھ کی طرح پھیلا ہوا ہے ۔اگر اس بات کا مزید فطری اور
واجبی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان روزِ اوّل سے تا حال جسم و خواہش کی آگ میں جھلس رہا ہے ۔وہ دولت عزت اور شہرت کے حصول کے لیے پاگل ہو رہا ہے ۔ابلیس نے لوگوں کو بری طرح جکڑا اور یرغمال بنایا ہوا ہے اور انسان کو اس چکر میں ڈال رکھا ہے تاکہ وہ جسمانی خواہشات کا غلام بن کر رہے ۔

انسان ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں آبادی کے بڑھنے سے انسان کی قیمت منڈی میں کم ہوگئی ہے ۔وہ گاہک اور جنس کا درجہ اختیار کر گیا ہے ۔یہاں دن کے اجالوں میں خون بہایا جاتا ہے لیکن ہماری زمین خون سے سیراب نہیں ہوتی ۔ہمارے ماحول میں انتقام کا مادہ اس قدر بے قابو ہوگیا ہے کہ موت ایک دو انچ کے فاصلے پر کھڑی نظر آتی ہے۔میری مراد وہ جدیداسلحہ اور انسانیت سوز وہ ہتھیار ہیں جن کا بغیر سوچے سمجھے استعمال کر کے انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔

ہماری مادی الجھنیں، رشوت سے رنگے ہاتھ ، انسانی اعضاء کی اسمگلنگ ، غنڈہ گردی ، دہشت گردی اس قدر بے قابو ہوگئی ہے جہاں ہر انسان خوف و ہراس میں مبتلا زندگی گزار رہا ہے ۔انسان کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ وہ ہر جگہ پر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اسے خبر نہیں کہ اسکی زندگی کی شام کس گلی میں ہو جائے گی ۔لیکن جو راستبازی کے بکتر میں بند ہے وہ محفوظ بھی ہے اور آباد بھی ۔اس کی زندگی اس درخت جیسی ہو گی جسے پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے ۔
یاد رکھیں! غلطی خطا اور گناہ ہر کسی سے سرزد ہوتا ہے کیونکہ انسان غلطی کا پتلا ہے ۔آج تک دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے جس سے غلطی سرزد نہ ہوئی ہو ۔ہم سے غلطی کیا اغلاط سرزد ہوتی ہیں ۔ہماری حالت زار یہ ہے
کہ ہم کسی کی غلطی معاف نہیں کرتے بلکہ اس کا ردعمل انتقام کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں اور بعض اوقات تو انسان نسل در نسل انتقام کی آگ میں جلا کر اپنی نسلوں کو وقت سے پہلے خاک میں ملا دیتا ہے ۔اگرچہ خدا نے آدم سے کہا تھا تو خاک ہے اور پھر خاک میں لوٹ جائے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر افسوس! آج کا انسان وقت سے پہلے اپنی قبر کھود رہا ہے ۔وقت سے پہلے اپنے آپ کو موت کے حوالے کر رہا ہے ۔بدلہ لینے کی آڑ نے اسے حیوانیت کے ایسے ماحول میں داخل کر دیا ہے جہاں اسے نہ اپنی پہچان رہی اور نہ دوسروں کی ۔آج وقت نے یہاں انسانوں کو بیماریوں میں مبتلا کیا ہے وہاں اس کے نتھنوں سے انتقام کی بدبو بھی آتی ہے ۔انتقام کے مختلف نفسیاتی حربے ہیں جن کا لائحہ عمل بھی مختلف ہے ۔ذرا اس بات پر غور خوض کیجئے کہ زندگی نعمت خداوندی ہے اور پیار و محبت کا گلشن ۔
مگر افسوس ہم حالات کی ایسی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جہاں ذلت و رسوائی ہمارے ماتھے کا جھومر بن گئی ہے ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انتقام کی بجائے معاف کرنے پر زور دیں ۔کیونکہ جو معاف کرتا ہے وہ بڑا ہے ۔اگر
آج ہم دوسروں کے قصور معاف کریں گے تو کل خدا بھی ہمارے قصور ہمیں معاف کرے گا ۔انتقام کوئی حل نہیں ہے ۔ہم اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسے الجھ جاتے ہیں جو بھیانک انجام میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔آیئں تھوڑا سا صبر کا پیمانہ تھام لیں تاکہ کل کسی بڑے حادثے سے بچ سکیں ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply