ان خطیبوں سے اللہ بچائے

منبر و محراب کو مسلمانوں کے ہاں وہی مقام حاصل ہے جو ہٹلر کے زمانے میں پراپیگنڈا نشر کرنے والے پرنٹنگ پریس کو حاصل تھا۔ کہتے ہیں کہ اگر پرنٹنگ پریس نہ ہوتا تو بیسویں صدی میں کروڑوں انسان مرنے سے بچ جاتے۔ ویسے تو یہ نکتہ سمجھ میں آنا ذرا مشکل ہے کہ پرنٹنگ پریس یا پراپیگنڈا مہم کیسے کروڑوں انسانوں کے قتل کا سبب بن سکتے ہیں لیکن جب آپ عرب سپرنگ کے اسباب پر نظر ڈالتے ہیں تو بظاہر نا ممکن لگنے والی یہ حقیقت آسانی سے مفہوم ہو جاتی ہے۔ عرب سپرنگ کے دوران میں اکثر شہر سے دورکسی علاقے کے بارے میں افواہ اڑائی جاتی کہ حکومتی فورسز نے وہاں دسیوں حریت پسندوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ خبر کی تصدیق یا تردید ہوتی کئی شہروں میں حکومتی مظالم کے خلاف مظاہرے شروع ہو جاتے۔ جس کے نتیجے میں ٹکراؤ پیدا ہوتا۔ برسراقتدار طبقے کے خلاف نفرت پروان چڑھتی اور مآل کار لڑائی شروع ہو جاتی جو کہ ہزاروں لوگوں کی ہلاکت پر منتج ہوتی۔ ہمارے ہاں آج کل منبر و محراب بھی یہی خدمات فی سبیل اللہ سرانجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کے اجتماع میں بھی جانا چھوڑ دیا ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ مسجد میں ہماری انٹری اس لمحے میں ہو جب خطیب صاحب منبر کی جان چھوڑ کر امامت کے مصلے پر پہنچ جائیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ سانحہ بھی ہو گزرتا ہے کہ کوئی خاص موقع ہوتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر خطیب صاحب اپنے بیان کو طول دے کر اتنا لمبا کر دیتے ہیں کہ ہم جیسے ناخلفوں کو بھی ان کی سننی ہی پڑتی ہے۔
اس جمعہ ہمارے ساتھ پھر سے یہ سانحہ ہوا اور گھر سے مسجد تک پہنچتے پہنچتے تین چار خطیبوں کی آوازیں کان میں پڑ ہی گئیں۔ سبھی سیرت سرور کونین ﷺ پر تقریر فرما رہے تھے۔ وہی واقعہ جو ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں بیان ہو رہا تھا۔ جس زمانے میں ہم نے دائیں اور بائیں چپل کا فرق جانا تھا اس زمانے سے ہم یہ واقعہ یعنی معراج اور بیت المقدس میں آنحضرت ﷺ کی امامت کا واقعہ سن رہے ہیں۔ خطیب صاحب ہمیشہ سے یہ واقعہ سنا کر آنحضرت ﷺ کی عظمت و تقدیس کو ثابت کرتے ہیں اور ہم سن کر جھوم اٹھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی آمد کا مقصد فقط انبیاء کرام کی امامت کرنا تھا۔ مجال ہے جو کبھی ان خطیبوں کی زبانی آنحضرت ﷺ کی زندگی سے رہن سہن کے طریقے بھی سننے کو ملے ہوں۔
خطیب صاحب آنحضرت ﷺ کی نبوت کے بارے میں یہ تو بتاتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کی حالت میں تھے ہمارے پیارے نبی ﷺ اس وقت بھی نبی تھے لیکن کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ حضور ﷺ کی نبوت نے ہمیں کرنے کا کیا کام دیا ہے۔ مسجد کے منبر و محراب سے جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں عام مسلمان سوچنے لگتا ہے کہ یقیناً حضور ﷺ کی آمد کا مقصد فقط حشر میں ہماری شفاعت کرنا ہے وگرنہ دنیا کی زندگی میں ہمارا اور ان کا آپس میں کوئی تعلق اور واسطہ ممکن نہیں۔ خطیب صاحب سیرت نبوی کے نام پر عقیدت کا ایسا سحر پھونکتے ہیں جس پر آنکھ بند کر کے جھوما تو جا سکتا ہے لیکن سیرت نبوی کو عمل میں لانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جس میں دل پر عقیدت کا تالا پڑ جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب مجھے سیرت نبوی ﷺ کے نام پر آسمان سے اوپر اور زمین کے نیچے کے قصے سنائے جائیں گے تو ان دونوں کے درمیان کے مسائل حل کرنے واسطے مجھے سیرت نبوی کی بجائے کہیں اور ہی دیکھنا پڑے گا۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے ایک دوست پنج وقتہ نمازی ہیں. سودی کاروبار بھی کرتے ہیں اور داڑھی بھی بڑھا رکھی ہے۔ ایک بار عرض کی بھائی جان یہ دو رنگی کیوں؟ کہنے لگے نماز روزہ اپنی جگہ لیکن دنیا داری بھی تو کرنی ہے۔
جس نبیﷺ کی بعثت کا مقصد ہی دنیا داری سکھانا تھا اس کی سیرت میں اگر ہمیں نماز، روزہ اور داڑھی کے سوا کچھ بتایا ہی نہ جائے تو پھر بداخلاقی، ناانصافی، ظلم و زیادتی، قانون کی خلاف ورزی اور ہوس پرستی سے کوئی رکے بھی تو کیونکر رکے؟؟ اگر ہمیں بتایا جاتا کہ خدا کے نبی ﷺ نے راستے کا اتنا احترام بتایا ہے کہ عام گزرگاہ میں مسجد کی دیوار کھڑی کرنے تک کی اجازت نہیں تو ہم فٹ پاتھ پر ٹھیلے کیوں لگاتے۔؟ اگر ہمیں بتایا جاتا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پوری زندگی کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کی تو ہم بات بے بات دوسرے کی آنکھ کیوں پھوڑتے۔؟ اگر ہمیں سیرت سرور کونین ﷺ میں سکھایا جاتا کہ آنحضرت ﷺ نے قانون کا پالن کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری میں ملوث ہو گی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا تو ہم قانون کے ساتھ کھلواڑ کیوں کرتے۔؟ اگر خطیب صاحب ربیع الاول کے مہینے میں سر اور تال کے ساتھ قصہ خوانی کرنے کی بجائے محلے داروں کی آپسی خفگیاں دور کرنے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ آقائے دوجہاں ﷺ کی ولادت با سعادت کے موقع پر انہیں دینے کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کو گلے لگا لیں تو سیرت نبوی کا حق ادا ہو جاتا یا نہیں۔؟
لیکن کیا کیجیے کہ خطیب صاحب جمعہ کے خطبے میں کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کی روح پر نور نے عہد الست کے جواب میں بلی کہا تھا تبھی ہم نے بھی کہا، ورنہ ہماری کیا اوقات کہ اللہ کے سامنے سچ بول پاتے۔۔ خطیب صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ اس وقت بھی نبی تھے جب آدم ابھی کیچڑ کی شکل میں تھے۔۔ خطیب صاحب کہتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ اتنی عظیم ہستی ہیں کہ انہوں نے بیت المقدس میں سوا لاکھ انبیاء کی امامت کی تھی۔ انہیں خدائے لم یزل نے اپنے پاس بلایا تھا۔ اور پھر آخر میں کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی سیرت منانے کی چیز نہیں اپنانے کی چیز ہے۔ کوئی پوچھے کہ صاحب جی ان واقعات میں میرے لیے اپنانے کی چیز کیا ہے۔؟ اگر یہی آنحضرت ﷺ کی سیرت ہے تو اسے سوائے منانے کے اور میں کیا کر سکتا ہوں۔؟ یہ تو وہ کمالات ہیں جنہیں جان کر فقط جھوما جا سکتا ہے۔ آنکھوں پہ رکھ کر چوما جا سکتا ہے۔ ہر سال بارہ ربیع الاول کا انتظار کر کے محفل نعت کا اہتمام کیا جا سکتا ہے اور بس۔
ہاں ایک ربیع الاول سے دوسرے ربیع الاول تک سود، رشوت، لوٹ کھسوٹ، قانون شکنی، ظلم اور نا انصافی دما دم مست چلتی رہے گی کیونکہ دنیا داری بھی تو کرنی ہے صاحب۔

Advertisements
julia rana solicitors

نصرت فتح علی خان نے کسی زمانے میں گایا تھا
“حسن والوں سے اللہ بچائے، دل کے کالوں سے اللہ بچائے”
اگر وہ خطیبوں سے واقف ہوتے تو ضرور کہتے
“ان خطیبوں سے اللہ بچائے، دل کے تالوں سے اللہ بچائے”

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply