بسنت پر پابندی یا؟۔۔۔ایم اےصبور ملک

صحت مند اور مثبت تفریح انسان کا پیدائشی حق ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتاہے،زمانہ قدیم سے لے کر آج تک انسان نے تفریح طبع کے لئے کھیل،فنون لطیفہ،موسیقی اورادب جیسے عوامل کو اپنی زندگی میں شامل کیا،زمانہ قدیم میں کچھ کھیل ایسے بھی تھے جنہیں وحشیانہ کہا جاتا تھا ،جو آج یا تو ختم ہو چکے ہیں یا پھر ان کی شکل بدل گئی ہے،وقت کے ساتھ ساتھ موسیقی کے آلات میں بھی تبدیلی آئی،فنون لطیفہ اور ادب میں بھی نئے نئے رجحانات نے جنم لیا،ادب کی نئی اصناف وجود میں آئیں،ہر دور میں چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے انسانی تفریح کے ان عوامل کونقصان پہنچا،جو تاحال جاری ہے،کھیل میں اگرجوئے کی وباء آئی تو ادب پرخوشامد اور درباری رحجان،اسی طرح قدامت پرستوں کی جانب سے فنون لطیفہ کی مخالفت،موسیقی کو حرام قرار دینا،اور انسان کی تفریح کے لئے دستیاب ہر چیز کو بند کروانے کے لئے اپنی پوری کوشش کرنے سے معاشروں میں عدم برداشت اور انتہا پسندانہ رویوں نے جنم لینا شروع کیا،پاکستان میں بھی یہ المیہ رونما ہوا کہ ایک آمر جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو طول بخشنے اور اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے لئے مذہب کا استعمال کیا اور پاکستان کو لسانی اور مذہبی گروہوں میں تقسیم کردیا،موصوف کے دور میں مولوی کے آنے سے  آج تک ہم اس بھنور سے نہیں نکل سکے،وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے،اور اگر اس سے نکلنے کی کوئی صورت بنتی بھی ہے تو ضیا باقیات اس کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کردیتی ہیں،ضیا الحق ایک فرد کا نام یایک سوچ ہے،ایک رویہ ہے،ایک رجحان ہے،جس نے آکٹوپس کی طرح پاکستانی معاشرے کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے،مہنگائی،غربت،بیماری اور بے روزگاری،نیز امن وامان کی ستائی قوم اگر خوشی کے چند لمحے تفریح کرنا چاہے تو قانو ن حرکت میں آجاتا ہے،لیکن اپر کلاس کی کسی بستی کسی گھر میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کا ہم اور آپ مڈل کلاس آبادی میں تصور بھی نہیں کرسکتے،مجھے یاد ہے میری والدہ کہا کرتی تھیں آئی بسنت پالا اُرنت،مطلب سخت سردی کے بعد بہار کی آمد پر پنجاب میں بسنت کا تیوار منایا جاتاہے،سرسوں کے پیلے پھول کھلنے سے بہار کا آغاز ہوتا ہے اور پھر ہر سو رنگ برنگے پھولوں کی بہار اور خوشبو سردی کی ساری سستی اور کلفت اُتار دیتی ہے،اسی لئے کہتے ہیں آئی بسنت پالا اُڑنت،یعنی سردی کے موسم سے بچنے کے لئے انسان جو لباس زیب تن کرتا ہے وہ اتر جاتا ہے،اس طبعیت میں خوشگواری اور طمانیت سے بھر جاتی ہے،انسان تو انسان چرند پرند پر بھی یہ موسم اپنی پوری جولانیاں دکھاتا ہے،چرند پرند کے لئے یہ ملن کا موسم ہوتا ہے،فطرت سال کے ان دنوں اپنے جوبن پرہوتی ہے،لیکن گزشتہ چند سالو ں سے ہمارے ہاں بسنت کو بھی نظر لگ گئی،اس صاف ستھرے اور موسمی تہوار کو مذہبی قدامت پسندوں نے پہلے تو ہندؤانہ تیوہار کا نام دیا پھر مزید رنگ بسنت کے موقع پر ہوائی فائرنگ کرنے والوں اور دھاتی ڈور استعمال کرنے والوں نے بھر دیا،جس سے بسنت کے تیوہار کا رنگ پھیکا پڑگیا اور اس پر انسان لہو کا رنگ غالب آگیا،ہر روز دُنیا بھر میں ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں،جس کے نتیجے میں ہزاروں افرار جاں بحق اور سینکڑوں عمر بھر کے لئے معذور ہوجاتے ہیں،ان حادثات سے بچنے کے لئے حفاظتی قوانین روز بروز سخت کیے جارہے ہیں،ڈرائیونگ لائسنس کا حصول مشکل بنایا جارہا ہے،لائسنس کے حصول کے لئے شرائط کڑی سے کڑی بنائی جارہی ہیں،لیکن ان سب اقدامات کے باوجود بھی گاڑیوں اور موٹرسائیکلز کی پیداوار جاری ہے،لاکھوں لوگوں کو اس انڈسٹری سے روزگار مل رہا ہے،سڑکوں کی تعمیر ہو رہی ہے،ٹریفک پولیس کو جدید سے جدید بنایا جارہا ہے،روڈ یوزرز کی تعلیم وتربیت کے لئے مختلف سیمینارز،لیکچر ز اور آگاہی مہم کا اہتما م ہوتا ہے،کہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ گاڑیوں،موٹر سائیکلز کی پیداوار بند کرو،سڑکوں کو ختم کرو،لیکن للعجب پاکستان کا باوا آدم نرالا ہے،جہاں دھاتی ڈور بنانے،اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو پکڑنے،اس حوالے سے قوانین سخت کرنے،غیر قانونی اور ناجائز اسلحہ ضبط کرنے، پوری پتنگ انڈسڑی کوہی بند کردیا گیا،پتنگ بازی کو پاکستان میں شجر ممنوعہ بنا دیا گیا،مسئلے کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل کرنے کے لوگوں سے ایک سستی تفریح ہی چھین لی گئی،اگر کوئی غریب عام سی ڈور سے اپنے گھر کی چھت پر پتنگ اُڑا رہا ہے تو وہ قابل گرفت ہے،صحت مند اور مثبت تفریح آئین پاکستان،اقوام متحدہ کے عالمی منشوراور دینی لحاظ سے معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے،جس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی،سپریم کورٹ آف پاکستان پاکستانی شہریوں کے حقوق کی ضامن ہے،اگر ماضی میں کوئی غلط فیصلہ ہوگیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے رجوع نہیں کیا جاسکتا،معزز چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ کیا پوری انڈسٹری بند کردینا قرین انصاف ہے یا صرف دھاتی ڈور اور ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت اور موثر قانون سازی سے ہم اس جانب بڑھ سکتے ہیں کہ معاشرہ ایک سستی تفریح سے لطف اندوز ہو سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply