عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

پہلا منظر: 1 دسمبر1934 کا دن ہے. لینن گراڈ شہرمیں بھونچال کا سماں ہے. خبر آئی ہے کہ پولٹیکل بیورو کے رکن سرگئی خیروو کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے. محنت کش عوام کے ایک نہایت قابل رہنما کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے.
منظر بدلتا ہے: 21 دسمبر 1934 کا دن ہے. سوویت حکومت کا اعلامیہ آتا ہے کہ “تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ خیروو کے قتل کا محرک اس سوویت مخالف زیرِ زمین گروہ (لینن گراڈ سینٹر) کا منصوبہ ہے جو دہشت گرد کارروائیوں کے زریعے سوویت حکومت کے اہم رہنماؤں کو ہلاک کرنا اور اس کی قیادت کو منتشر کرنا چاہتا ہے. چند دن بعد “ماسکو سینٹر” کے نام سے ایک اور دہشت گرد گروہ کے سترہ افراد گرفتار ہوتے ہیں. ان میں سے ایک, زینوویو, اقبالی بیان میں کہتا ہے “میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ پارٹی اس قتل کا زمہ دار سابق زینوویو گروہ کو ٹہرانے میں حق بجانب ہے”. اس طرح حزبِ اختلاف اپنے اختلاف رائے کا اظہار بالشویک پارٹی کے رہنماؤں کے قتل کے منصوبے سے کرتی ہے اور سوویت یونین میں ان مقدمات کا آغاز ہوتا ہے جنہیں دنیا بھر میں اشتراکیت کے مخالفین, سابقہ اور بعض حالیہ مارکسی, اشتراکیت میں شہری آزادیوں پر قدغن, آمرانہ جبر اور استبداد کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں. بالشویک پارٹی کی حزبِ اختلاف کے رہنما زینوویو, کامینیف, بخارن اور لیون ٹراٹسکی, ان مقدمات کے مرکزی ملزم قرار پاتے ہیں.
منظربدلتا ہے.18 جون 1936 کا دن ہے کہ یہ روح فرسا خبر آتی ہے کہ عظیم سوویت ادیب میکسم گورکی علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں. دوسری جانب, سرگئی خیروو کے قتل کے معاملے میں زیر حراست سابق پولیس چیف ہینریخ یاگودا اقبالی بیان میں اعتراف کرتا ہے کہ گورکی کی موت میڈیکل قتل تھی. اسے زہریلی دوا دی گئی تھی. وہ یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ گورکی کے بیٹے کا قتل بھی اس منصوبے کا حصہ تھا. گورکی کے معالج بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں.
منظر بدلتا ہے: سوویت یونین میں مبینہ طور پر انسانی آزادی کی دھجیاں اڑا دینے والے ان مقدمات کے بارے میں ماہرین, تاریخ دان, محققین, غیر ملکی مبصرین اور صحافی سر جوڑے ان کی حقانیت پر غور کر رہے ہیں.
امریکی صحافی, انا لیوس اسٹرونگ, کہتی ہے “مقدموں کی کارروائی میں بیٹھنے والے اکثر غیرملکی مبصرین کے مطابق مقدمے شفاف تھے. برطانوی پارلیمنٹ کے رکن, نوئیل پرٹ نے پمفلٹ لکھا اور اپنے تیقن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی گئی. پیسیفک ریلیشن کے سیکریٹری جنرل, ایڈورڈ کارٹر نے کہا کہ یہ تھیوری کہ مقدمات سازش پر مبنی تھے غیر مستحکم ہے…کریملن حق پر تھا.”
نوئیل پرٹ خود کہتا ہے کہ “میں نے سوویت روس کے فوجداری مقدمات کے قانونی طریقہ کار کے مطالعے سے نتیجہ اخذکیا کہ طریقہ کار نے ملزموں کو بہت شفاف مقدمہ دیا. ایسا لگتا تھا کہ ان کا مقصد (ملزموں کا) صرف اقتدار حاصل کرنا تھا حالانکہ ملک میں نہ ہی ان کی مقبولیت تھی اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی پالیسی یا فلسفہ تھا جس کے زریعے وہ موجود سوویت سوشلزم کو بدل سکیں”.
سوویت یونین کے کٹر ترین ناقدین میں سے ایک برطانوی نزاد امریکی تاریخ دان, سوویت یونین کے خلاف کتابیں تصنیف کرنے پرنوبل پرائزسے نوازا جانے والا مشہورِ زمانہ مصنف, رابرٹ کونکوئیسٹ کہتا ہے “مدعا علیہان خیروو کے قتل کے ذمہ دار تھے….وہ کبشیوو اور میکسم گورکی, جس کی موت کو طبعی سمجھا جا رہا تھا, اور اس کے بیٹے,پیشکوو کی موت کا سبب بھی تھے.”
اخبار نیویارک ٹائمز کا ماسکو کا بیورو چیف اور پلٹزر پرائز سے نوازا گیا امریکی صحافی, والٹر ڈیورانٹی نکتہ اٹھاتا ہے کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ سوویت پینل کوڈکی شق 58 کے مطابق ان مقدموں میں ماخوذ افراد کو قرار واقعی سزا دی گئی.”
بیلجیم سے تعلق رکھنے والا سیاسی محقق, لوڈو مارٹینز اس طرح گویا ہوتا ہے “وہ لوگ جنہوں نے مقدموں کی کارروائی کا خود مشاہدہ کیا اور وہ جنہوں نے کارروائی کی تحریری رپورٹ پڑھی,ان کے سامنے یہ واضح ہے کہ “دکھاوے کے مقدمے” کی تھیوری, جسے کمیونزم کے مخالف وسیع پیمانے پر پھیلا رہے ہیں, بالکل غیر حقیقی ہے.”
منظر بدلتا ہے: 1937 کا سال ہے. مشہور سائنسدان آئن اسٹائن اپنے دوست سائنسدان میکس بورن کو خط میں لکھتا ہے کہ “اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد ہیں کہ روسی مقدمے جعلی نہیں بلکہ ان لوگوں نے سازش رچائی تھی جو اسٹالن کوایک ایسا احمق رجعت پسند سمجھتے ہیں جس نے انقلاب کے آدرشوں سے غداری کی. گو ہمارے لیے ان اندرونی معاملات کو سمجھنا مشکل ہے لیکن جو لوگ روس سے بہترین واقفیت رکھتے ہیں وہ سب کم و بیش یہی رائے رکھتے ہیں. شروع میں مجھے بھی یقین تھا کہ یہ جھوٹ اور ریاکاری کی بنیاد پر ایک جابر و آمر شخص کے اقدامات کا نتیجہ ہے لیکن یہ میری خام خیالی تھی.” بارہ سال بعد وہ “سوشلزم کیوں؟” کے عنوان سے مضمون لکھتا ہے جس میں کہتا ہے کہ “سرمایہ دارانہ معاشرے کا اقتصادی نراج, میرے خیال میں, تمام خرابی کی جڑ ہے…فرد کی شکست و ریخت اس کی سب سے بڑی خرابی ہے….میرا یقین ہے کہ ان خطرناک خرابیوں کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے, یعنی سوشلسٹ معیشت کا قیام اور ایسا تعلیمی نظام جو سماجی بھلائی کے مقاصد کا رجحان رکھتا ہو.”
منظر بدلتا ہے: 1947 کا سال ہے. امریکی قانون دان اور سوویت یونین میں سابق امریکی سفیر, جوزف ڈیویز, اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے “دن کے بارہ بجے میں صلاح کار, ہنڈرسن, کے ساتھ مقدمے کی کارروائی میں گیا. سفارتی عملے کی نشست کے لیے خاص اقدامات کیے گئے تھے. مرکزی راستے کے اطراف دو رویہ نشستیں تھیں جن پر مزدور بیٹھے تھے…. مقامی اور بین الاقوامی نامہ نگاروں اور سفارتی عملے کے لیے نشستیں لگائی گئی تھیں. مجھے بتایا گیا تھا کہ مزدوروں کا کام مقدمے کی کارروائی کی رپورٹ کو متعلقہ مزدور تنظیموں تک لے جانا تھا….غیر ملکی صحافیوں میں نیویارک ٹائمز سے والٹر ڈیورانٹی اور ہیرولڈ ڈینی, نیویارک ہیرالڈ ٹریبیون سے, جو بارنیو اور جو فلپس, ایسوسی ایٹڈ پریس سے چارلی نٹر اور نک ماسوک, یونائیٹڈ پریس سے, نارمن ڈوئیل اور ہنری شاپیرو, انٹرنیشنل نیوز سے, جم براؤن, اور مانچسٹر گارجین سے اسپینسر ولیمز شامل تھے”. وہ اعتراف کرتا ہے کہ مقدمات بالکل شفافیت سے چلائے گئے تھے.
منظر بدلتا ہے: ستمبر1934 کا مہینہ ہے. امریکی زرائع ابلاغ کا بے تاج بادشاہ, سترہ اخباروں اور انٹرنیشنل ریڈیو کمپنی کا مالک, اور “زرد صحافت” کا بانی, ولیم رونڈولف ہرسٹ, برلن میں ہٹلر کے پروپیگنڈہ منسٹرجوزف گوئبل سے معاہدہ کرتا ہے. امریکہ میں جرمنی میں ہٹلر کے سفاک مظالم کی خبریں سنسر کر دی جاتی ہیں اور سوویت یونین کے خلاف بہتان تراشیوں کا سلسلہ باقاعدہ “صحافت” کا روپ دھار لیتا ہے.
منظر بدلتا ہے: 25 فروری 1956 کا دن ہے. ظالم قصائی “اسٹالن” کو مرے تین سال ہو چکے ہیں. خروشچیف سوویت کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکریٹری بن گیا ہے. پارٹی کی بیسویں کانگریس منعقد کی گئی ہے. خروشچیف کانگریس سے “خفیہ” خطاب کرتا ہے اور ایوانِ اقتدار میں زلزلہ آجاتا ہے. وہ اسٹالن کے خلاف اکسٹھ مختلف الزامات عائد کرتا ہے اور اسٹالن کے دور کی تمام پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی جانب پیش قدمی کرتا ہے. بی بی سی خبر دیتا ہے “خروشچیف اسٹالن پر برس پڑا” اور رپورٹ میں خروشچیف کے یہ الفاظ لکھتا ہے کہ “کامریڈز, آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ معلومات ہم لوگوں تک فوری طور پر نہیں پہنچا سکتے. یہ کام فورا یا بتدریج کیا جا سکتا ہے اور میرا خیال ہے ہمیں یہ کام آہستہ آہستہ کرنا چاہیے”. اسٹالن کے خلاف “خفیہ” تقریر میں لگائے گئے الزامات کو سوویت یونین کے لوگوں سے چھپا لیا جاتا ہے. بی بی سی کو فورا خبر مل جاتی یے لیکن سوویت یونین کے عوام کے سامنے اس تقریر کا متن تینتیس سال بعد انیس سو نواسی میں پہلی بار سامنے لایا جاتا ہے.
منظر بدلتا ہے: جولائی,2011 کا مہینہ ہے. امریکہ کے ایک سو ایک “خطرناک ترین” پروفیسروں میں شمار کیا جانے والا ایک پروفیسر, گروور فر, خروشچیف کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات شروع کرتا ہے. وہ موضوع پر لکھا گیا تمام مواد, ان میں پیش کیے گئے شواہد اور حوالہ جات اور سوویت یونین کے دور کی دستیاب سرکاری دستاویزات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایک تحقیقی کتاب لکھتا ہے اور یہ نتیجہ پیش کرتا ہے کہ تمام کے تمام الزامات غلط ہیں.
منظر بدلتا ہے: 1980 کی دہائی ہے. 19 کتابوں اور سینکڑوں سائنسی و تحقیقاتی مقالوں کا مصنف اور درجنوں تعلیمی اعزازات سے نوازا جانے والا ایک امریکی تاریخ دان اور اسکالر, بروس فرانکلن, ایک کتاب لکھ رہا ہے. کچھ دنوں پہلے ہی اسے یونیورسٹی کیمپس میں ویت نام میں امریکہ کی بربریت کے خلاف مظاہرے میں تقریر کرنے پر اسٹین فورڈیونیورسٹی نے ملازمت سے فارغ کر دیا ہے. وہ کتاب میں لکھتا ہے “میں جوزف اسٹالن کو ایک ظالم قصائی سمجھتا تھا جس نے دسیوں لاکھوں لوگ مار ڈالے,انقلاب سے غداری کی, دنیا میں آذادی کی تحریکوں کو بیچ ڈالا….جس سے سوویت یونین اور پوری دنیا کے لوگ خوف کھاتے اور نفرت کرتے تھے….لیکن آج ایک ارب لوگوں کے نزدیک اسٹالن اس سے مختلف ہے جس طرح ہمارے ذہنوں کو اس کے بارے میں سوچنے کے لیے سرمایہ دار دنیا نے”پروگرام” کیا ہے…گزشتہ دو دہائیوں سے سوویت یونین کے حکمرانوں نے منظم انداز سے یہ کوشش کی ہے کہ سوویت یونین کے لوگ اسٹالن کے بارے میں اسی سرمایہ دارانہ نکتہ نظر کو قبول کرلیں یا کم از کم اسے بھلا دیں. انہوں نے تاریخ کی کتابوں سے اس کا نام کھرچ دیا. اس کی یادگاروں کا صفایا کردیا, حتی کہ اس کے مقبرے سے اس کی لاش تک ہٹا دی.”
ان تاریخی حقائق و شواہد، چشم دید گواہوں کے بیانات، جن میں کمیونزم، سوویت یونین اورمزدوروں کے عظیم رہنما جوزف اسٹالن کے کٹرناقدین بھی شامل ہیں، امریکی تاریخ دان، اسکالرز، سیاست دان، غیرجانبدارافراد کی جانب سے “ماسکو ٹرائل” کی شفافیت کے اعتراف کے باوجود دنیا بھرمیں اورپاکستان میں بھی لبرل حلقوں کا اصراریہی ہے کہ ماسکو کے مقدمات “جعلی” تھے اوران کے زریعے جوزف اسٹالن نے سوویت یونین کے لوگوں کوجبرکا نشانہ بنایا۔ بقول شاعر؛
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ تھے بس اختلاف رکھتے تھے

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply