معاشرے کا المیہ

دنیا میں جنتے جذبے ہیں ، جتنے افکار ہیں، جتنے نظریے ہیں ان سب کا اظہار ہوتا ہے اور یہ اظہار رویے سے ظاہر ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کو ماننا یہ یادداشت کا سوال نہیں ہے، یہ رویے سے ظاہر ہوتا ہے ، رسول کریم ﷺ سے محبت کا اظہار رویے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اگر صرف لوگوں کے اظہار کو دیکھا جائے تو ان کے اظہار سے ان کی شخصیت کا پتا لگا یا جا سکتا ہے ۔آج سائنس ہے یہ مان چکی ہے کہ جو بولا جا رہا ہوتا ہے اسے آخری نہیں سمجھنا چاہیے اور جو نہیں بولا جا رہا اسے زیادہ سمجھنا چاہیے ، جو نہیں بولا جا رہاہوتا اسے نان وربل لینگوئنج کہا جاتا ہے اوریہ ہمارے رویے کا سب سے بڑا اظہار ہوتا ہے ۔
ہمارے ملک کا ڈاکٹر اپنی ڈاکٹری کے ذریعے ملک کی خدمت کر رہا ہے، ہمارے ملک کا استاد پڑھانے سے ملک کی خدمت کر رہا ہے ، ہمارے ملک کا بیوروکریٹ اپنی نوکری سے ملک کی خدمت کر رہا ہے ، ہمارے ملک کا جج فیصلے کر کے ملک کی خدمت کر رہا ہے ، ہمار ے ملک کا سپاہی سرحد پر کھڑا ہو کر ملک کی خدمت کر رہا ہے، ہمارے ملک کا سائنسدان نئی ایجاد کر کے ملک کی خدمت کررہا ہے ، ہمارے ملک کا ادیب اپنے قلم سے ملک کی خدمت کر رہا ہے ، ہمارے ملک کے علماء ممبر پر بیٹھ کر ملک کی خدمت کر رہےہیں ۔ ان سب خدمات میں سے سب سے بڑی خدمت تعلیم اور شعور ہے ، دنیا میں جتنے رسول اور پیغمبر ؑ آئے ہیں انہوں نے سوچ کو بدلا ہے ، انہوں نے نظریات کو بدلا ہے ، انہوں نے افکار کو بدلا ہے ۔ ہمارا تعلیم کے نظام کی بنیاد رٹے پر ہے اور وہ یادداشت کی بنیاد پر ڈگریاں دیتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں آرہی ، تبدیلی اس لیے نہیں آ رہی کہ تعلیم رویوں پراثر انداز نہیں ہو رہی ، پانی اس زمین تک جا ہی نہیں رہا جہاں تک اسے جانا چاہیے وہ وہی رک جاتا ہے اورتالاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، تعلیم دینے والا علم کو وہاں تک پہنچاتا ہی نہیں ہے جہاں تک پہنچنے کے بعد انسان کے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔
ہمارے تعلیم کے نظام میں پڑھانے والے اساتذہ میں نوے فیصد ایسے اساتذہ ہیں جن کا بات چیت کا انداز ٹھیک نہیں ہے ، جب اس کا کھوج لگا یا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان کی بنیاد میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے ، کسی کا کورس ، کسی کی بیالوجی، کسی کی کیمسٹری، کسی کی فزکس تو چیک ہو جاتی ہے لیکن اس کی ابلاغ کی صلاحیت چیک ہی نہیں ہوتی ۔ تیرنے والے کو تیرنا آتا ہے ، مالی کو گوڈی کرنی آتی ہے لیکن استاد کو پڑھانا نہیں آتا ۔ اس کے بعد بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جس نے گرومنگ کرنی ہے اس کی اپنی گرومنگ نہیں ہوئی جب اس کی اپنی گرومنگ نہیں ہوئی تو وہ کیسے کسی کو گروم کر سکے گا۔ جب استاد کو ہی بنیادی اخلاق کا نہیں پتا تو پھر آنے والی نسل سے کس طرح اعلی ٰ اخلاق کی توقع کی جا سکتی ہے ۔
دنیا میں انقلا ب ہمیشہ رویوں سے آتا ہے ، وہ تمام واقعات جن کو ہم بڑے فخر سے بیان کرتےہیں ۔لیکن غور تو کریں یہ سب تربیت رسول کریم ﷺ کی تھی یہ کوئی ڈگری نہیں تھی۔ یہ وہ تربیت تھی جو انہوں نے کردار بنا کر کی ۔ جب تک کردار والا کردار نہیں بنائےگا اس وقت تک ہم پاکستان کو بہتر کردار والی نسل نہیں دے سکیں گے ۔ ہم کسی نہ کسی شکل میں چیرٹی کر رہے ہوتےہیں سٹیفن آر کؤؤے کہتا ہے" دنیا میں انسان کا بنایا ہوا قانون توڑا جا سکتا ہے لیکن قدرت کے بنائے ہوئے قانون کو نہیں توڑا جا سکتا، جو بھی قدرت کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود ٹوٹ جاتا ہے" جس طرح گیراوٹی کا قانون ہے انسا ن جو مرضی کر لے اس قانون کو نہیں توڑ سکتا ۔ قدرت کا قانون یہ ہے کہ سوچ اورافکار اور نظریہ بدلے بغیر کچھ بدلا نہیں جا سکتا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھ کر رویا کرتےتھے اور فرماتے تھے کہ "میں وہی عمر ہوں جو بکریا ں نہیں چرا سکتا تھا ،یہ تربیت رسول کریمﷺ تھی جس نے عمر کو بنایا "۔ جب تک ہم سوچ میں ،افکار میں ، نظریہ بدلنے پہ کام نہیں کریں گے تو کسی قسم کا انقلاب نہیں آنے والا، یہ صرف خواب ہے ، ہمارے اندازے ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی بھی طرح کی توفیق دی ہے اس کو اس شکل میں ضرور لگائیں کہ سٹیفن آڑ کوؤے کے مطابق "مچھلی پکڑ کر کھلا دینا بہت بڑی زیادتی ہے اس سے ممکن ہے ایک وقت کی بھوک ختم ہو جائے لیکن بہت بڑی نیکی یہ ہے کہ آپ کسی کو مچھلی پکڑنا سیکھا دیں " اگر پکڑنا سیکھا دیتےہیں تو وہ خودد ارہو جائےگا اور اس کی خودداری اس کو اس قابل کر دے گی کہ وہ آنے والے وقت میں مچھلی مانگنے والا نہیں بنے گا بلکہ مچھلی بانٹنے والا بنےگا ۔

Facebook Comments

محمد اسامہ خان
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply