تعلیمی دھرنے۔۔۔۔۔ سجاد حیدر  

کسی بھی قوم یا ملک کا اصل سرمایہ نوجوان نسل اور طالب علم ہوتے ہیں. جدید دنیا میں جن قوموں نے نیچے سے اوپر کا سفر کیا ہے اور ترقی کی منازل طے کی ہیں. انکے ہاں سب سے زیادہ زور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر دیا جاتا ہے. اگر ہم زیادہ دور نہ بھی جائیں تو بھی ہمارے اردگرد کے ممالک مثلا کوریا, ملائیشیا, سنگا پور, چین حتی کہ ہمارے قریبی ترین ہمسایہ ملک بھارت میں بھی بجٹ کا معقول حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے. وطن عزیز میں بالکل الٹ کام ہے یعنی ہم دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عملی کام نمائشی اقدامات سے آگے نہیں بڑھتا. ہر سیاسی جماعت جب تک اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہوتی ہے, اسکی پہلی ترجیح تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں اصلاحات ہوتی ہیں مگر اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوتے ہی ترجیہات بدل جاتی ہیں. مزکورہ شعبے سب سے آخری ترجیح بن جاتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تعلیم کی وزارت کوئی لینے کو تیار بھی نہیں ہوتا. ماضی قریب میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ ایک غیر جمہوری حکمران کے نزدیکی ایک وزیر پر جب کرپشن کے الزامات لگے تو ان صاحب سے ریلوے کی وزارت لے کر انہیں وزیر تعلیم مقرر کر دیا گیا.

تعلیم سے بے اعتنائی کی یہ روایت جمہوری اور غیر جمہوری دونوں قسموں کی حکومتوں میں بڑی پابندی سے دہرائی جاتی ہے. نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ پبلک سیکٹر میں چلنے والے بیشتر ادارے اپنی قدر و اہمیت کھو چکے ہیں. پرائمری اور سیکنڈری تعلیم جو کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتے ہیں, انکا بیڑہ غرق ہو چکا ہے, کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروانے کیلیئے تیار نہیں, ہر شخص کی خواہش ہے کہ اسکا بچہ پرائیویٹ سکول میں پڑھے خواہ اسکے لیئے اسے اپنا پیٹ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے. نتیجہ کھمبیوں کی طرح اگنے والے غیر معیاری سکول اور کالجز ہیں جن کے پاس نہ تو مطلوبہ قابلیت کے تربیت یافتی اساتذہ ہیں اور نہ معیاری لیبارٹریز. نہ کوئی کھیل کا میدان اور نہ لائبریری. اس تمام صورتحال کا جو ممکنہ نتیجہ نکل سکتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے. کہ ان اداروں سے فارغ تحصیل ہونے والے طلبا کے پاس ڈگری تو ہوتی ہے لیکن نہ تو کوئی وژن ہوتا ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی. اپنے اردگرد کی دنیا میں برپا ہونے والے ہنگاموں اور تبدیلیوں پر انکے موقف کی بنیاد عقل و دانش کی بجائے سستی جذباتیت پر قائم ہے, کسی بھی طالبعلم سے پوچھ لیجیئے وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور تذبذب کا شکار ہے.

مرے کو مارے شاہ مدار پبلک سیکٹر کی لاپرواہی نا اہلی, اور پرائیویٹ سیکٹر کی مکمل کمرشل سوچ اور پالیسیوں سے جو کسر رہ جاتی ہے وہ ہمارے امتحانات لینے والے ادارے پوری کر دیتے ہیں. کلاس نہم سے بورڈ کے امتحانات شروع ہو جاتے ہیں. یعنی علاقائی سطح پر قائم مختلف تعلیمی بورڈز اپنی حدود کے اندر قائم سکولوں اور کالجز کے امتحانات ایک مرکزی نظام کے تحت لیتے ہیں. اس میں اصول یہ ہوتا ہے کہ ایک بورڈ کے تمام بچے ایک ہی پرچہ سوالات ایک ہی وقت اور ایک جیسے ماحول میں حل کرتے ہیں. تاکہ تمام بچوں کی قابلیت جانچنے کا پیمانہ ایک جیسا ہو. نظری طور پر یہ طریقہ بہت اچھا ہے. حکومت کافی سالوں سے اس نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کیلیئے کوشاں ہے جس کیلیئے پرچہ سوالات کا ایک مشترکہ پول بنانا, تمام جوابی کاپیوں کی ایک ہی جگہ مارکنگ, مختلف بورڈز کے پیپرز کو مارکنگ کیلیئے دوسرے بورڈز میں بھیجنا اور اس جیسے کئی دوسرے اقدامات. یہ بہت اچھے ہیں اور انکو نہ سراہنا زیادتی ہو گا. مگر ہر سال جیسے ہی میٹرک اور انٹر میڈیئیٹ کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے. طلبا کی ایک بڑی تعداد کو شکایت ہوتی ہے کہ کہ انکے پرچے صحیح چیک نہیں ہوئے. طلبا اپنی جوابی کاپیوں کی ری چیکنگ کیلیئے بورڈ کے دفاتر میں رجوع کرتے ہیں. اب بورڈ کے قوانین بڑے واضح ہیں کہ.پرچوں کی دوبارہ مارکنگ نہیں ہو سکتی بلکہ صرف نمبروں کی پڑتال ہو سکتی ہیں, یعنی ممتحن کے لگائے ہوئے نمبروں کو نہ تو کم کیا جا سکتا ہے اورنہ ہی بڑھایا جا سکتا ہے, البتہ اگر کسی ممتحن نے کسی سوال کے نمبر تو لگائے ہیں لیکن صفحہ اول پر اندراج نہیں کیا یا نمبروں کو جمع کرنے میں غلطی کر دی ہے تو اسے درست کیا جا سکتا ہے. دوسرے لفظوں میں اگر کسی ممتحن نے صحیح جواب کو غلط کر دیا ہے تو اسے درست نہیں کیا جائے گا اگر طالبعلم نے اصرار کیا کہ میرا جواب درست ہے تو بجائے اسے مطمئن کرنے کے, انتہائی درشت الفاظ میں اور سخت لہجے میں اسکے موقف کو رد کر دیا جاتا ہے.

بورڈ حکام کا موقف بڑاؤاضح ہے کہ قوانین میں یہی لکھا ہے. نوجوان طالبعلم جذباتی ہوتے ہیں اور ہمارا سیاسی اور سماجی کلچر انہیں یہی سکھا رہا ہے کہ ہر مسئلے کا حل دھرنا, ہنگامہ اور توڑ پھوڑ ہے ایسے میں طالبعلم ایک ہی کام کرتے ہیں کہ اکٹھے ہو کر جلوس نکالو اور سڑکیں بند کر دو. اگر تو پولیس کے ڈنڈے سے کام چل جائے تو ٹھیک ورنہ حکام بالا فوری نوٹس لیتے ہیں. ایک دو ہنگامی میٹنگز ہوتی ہیں بوڑد کے چند افسران کو,منظر عام سے ہٹانے کیئے معطل کر دیا جاتا ہے اور تاخیری حربے استعمال کر کے معاملے کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے. اگر چند افسران کو معطل کرنے سے معاملہ ٹھنڈا نہ ہو تو اکسیری نسخہ استعمال کیا جاتا ہھ اور تمام بچوں کو چند اضافی نمبر دے دیئے جاتے ہیں اس سے فیل طلبا پاس اور پاس شدہ کے نمبر بڑھ جاتے ہیں. یہ سارا عمل بذات خود ایک مجرمانہ فعل ہے.

کیا بورڈ کے قوانین کو بدلا نہیں جا سکتا. اگر بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ چلنے کیلیئے ملکی آئین میں تبدیلی کی جا سکتی ہے, تعزیرات پاکستان کی شقوں کو بدلا جا سکتا ہے. تو کیا بورڈ کے قوانین کوئی آسمانی صحیفہ ہیں ؟ جس کو بدلنا خدا کھ قوانین کو بدلنے کے مترادف ہے نعوذ بااللہ

کیا ماہرین کے ایسے پینل نہیں بنائے جا سکتے جو متنازع معاملات میں جوابی کاپیوں کی جانچ پڑتال کر سکیں اور انکے پاس اختیار ہو کہ وہ ممتحن کے دیئے ہوئے نمبروں میں ردوبدل کر سکیں. یہ کہہ دینا کہ ممتحن کے دیئے ہوئے نمبروں میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی ایک فضول اور لغو بات ہے. جو دنیا کے کسی قانون اور ضابطہ کے مطابق صحیح نہیں ہو سکتی. اگر عدلیہ کے ججز کے فیصلے چیلنج اور تبدیل.ہو سکتے ہیں تو,ممتحن کا فیصلہ تبدیل کیوں نہیں ہو سکتا. اگر یہ دلیل دی جائے کہ ایسا کرنے سے ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا اور لوگ اثر رسوخ استعمال کر کے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کر لیں گے تو یہ دلیل بذات خود ایک بہت بڑا مغالطہ ہے. . یہ دلیل اگر مان لی جائے تو ہر جج کا ہر فیصلہ حتمی ہو گا جس کے خلاف کسی اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی. کیونکہ یہ خدشہ ہر حال میں موجود رہے گا کہ متاثرہ فریق اثر رسوخ استعمال کر کے فیصلہ بدلوا سکتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

طالبعلوں کو اساتذہ ہمیشہ جھوٹ اور سچ کی پہچان کرواتے ہیں, اسے بتایا جاتا ہے کہ غلط مت کرو. جب اسکا واسطہ اپنے ہی ساتھ ہونے والی ایک ذیادتی سے پڑتا ہے اور بجائے اسے مطمئن کرنے کے صرف اصول کی مار ماری جاتی ہے تو لا محالہ اس میں غصہ اور فرسٹریشن پیداہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ معاشرتی بگاڑ کی صورت میں نکلتا ہے. اس نوجوان کا اعتماد سسٹم پر سےہمیشہ کیلیئے ختم ہو جاتا ہے. ممکن ہے اور بہت سی صورتوں میں ہوتا بھی ہے کہ طالبعلم کا موقف غلط ہوتا ہے. مگر بجائے اسے مطمئن کرنے کے یا غلط ثابت کرنے کے یہ کہ دینا کہ تم ٹھیک ہو مگر قانون تمہاری داد رسی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ایک مذاق یا صحیح الفاظ میں ایک مجرمانہ عمل ہے. ایسے نوجوان سے آپ مستقبل میں قانون کی پاسداری کرنے کی امید کیسے کر سکتے ہیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply