بس چہرے تبدیل ہو گئے

۔۔۔۔ بس چہرے تبدیل ہو گئے۔۔۔۔
بات پرانی ہے مگر آج بھی یاد ہے۔ گائوں میں پنچایت بلائی گئی ۔ ایک شخص پر الزام تھا اس نے محلے کے کمار جیدی کا مرغ چرانے کے بعد اسکی مرغ کڑاہی بنا کر کھا گیا اور پروں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ۔
غریب جیدی کو بہت دکھ تھا مگر چودھری کے بیٹے کی شکایت کس سے کرتا ۔ گائوں کے مولوی صاحب کو جب اس بات کا علم ہوا تو فرمانے لگے جیدی میں تجھے انصاف دلوائوں گا.
جب پنچایت کی کاروائی شروع ہوئی چوہدری صاحب صدارت فرما رہے تھے ۔
حکم ہوا گواہان کو حاضر کیا جائے جب حاضر ہوئے انکو حکم ملا قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر کہو جو کہو گے سچ کہو گے ۔
مولوی صاحب نے چوہدری صاحب سے کہا آج تک آپ نے جو بھی فیصلے کیے ہیں کسی کو کبھی بھی اعتراض نہیں ہوا ۔ مگر آج معاملہ آپکے بیٹے کا ایسا نہ ہو کوئی آپکے انصاف پر انگلی اٹھائے۔
چودھری صاحب نے کہا جب گواہی دینے والا قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتا ہے تو انصاف کرنے والے پر بھی لازم ہے وہ بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائے میں جو بھی فیصلہ کروں گا انصاف پر مبنی ہوگا ۔
غریب جیدی نے کہا میں اپنا مقدمہ واپس لیتا ہوں۔
ہر کوئی تعجب سے دیکھنے لگا۔ جیدی نے کہا مجھے انصاف مل گیا ہے۔ میرا یقین اور ایمان ہے چودھری صاحب انصاف پر مبنی فیصلہ کریں گے مگر میرا مرغ واپس نہیں آئے گا ۔ اس لیے مقدمہ واپس لے لیتا ہوں۔
کیا آج ہماری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والوں پر قوم اندھا اعتماد کرتی ہے ۔۔؟
اگر نہیں تو یقینن جانیں کمیشن ، کمیشن کھا کر کمیشن رپورٹ کو ہمیشہ کی طرح ہضم کر جائے گا ۔ چور ڈاکو کل بھی اقتدار میں تھے آج بھی ہیں بس چہرے تبدیل ہو گئے۔
محمد امانت اللہ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply