ندامت سے بھرا ہے دامن میرا۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

ندامت سے بھرا ہے دامن میرا۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد/چارسدہ کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے اور اس پر اُٹھنے والے سوالات ہمارے معاشرے کی تباہی کا پتہ دے رہے ہیں ۔ ایسا معاشرہ جس کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے ۔ جن کے رہبر کو رحمت العالمین  بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جن کو زندگی میں ایک دفعہ بھی غصہ نہیں آیا ۔ جن کا اخلاق قرآن ہے ۔ جن کی شخصیت دنیا کے انسانوں میں اعلیٰ ترین ہے ۔

اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر عدم برداشت کی انتہا  ہوچکی ہے ۔ سوچنے سمجھنے کی قوت ختم ہوچکی ہے ۔ لوگ معاملے  کو سمجھے بغیر ہی سیخ پا ہوجاتے ہیں ۔ جذبات ، ہوش و حواس پر حاوی ہوچکے ہیں ۔قانون کا احترام دلوں سے ختم ہوچکا ہے ۔ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ذرا بھی خائف نہیں ہوتے ۔ اداروں سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ۔

جو بات سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اداروں کی حالات پر قابو پانے کی صلاحیت کم پڑتی جارہی ہیں ۔ اس سے جرائم پیشہ لوگوں کو حوصلہ ملے گا جس سے جرائم اور زیادہ بڑھنے کا خدشہ ہے ۔اس واقعہ سے قومی املاک کا بھی نا قابل تلافی نقصان ہواہے جس کی تلافی کون کرے گا ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت میں اور اضافہ ہوگا۔

اس بات کا بھی ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اسلام کے صحیح مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور دین کے نام پر اپنی خواہشات کی پوجا کرتے ہیں ۔ جہالت ، عدم برداشت ، انا پرستی اور ذاتی عناد کو دین کی محبت کا نام دیتے ہیں جو اسلام کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے ۔ ہمارے رویے اور اعمال دین کے احکامات کی روح کے مکمل برعکس ہیں۔

اس سے بڑی جہالت کیا ہوسکتی ہے کہ ہم دین کے نام پر لادینی کو فروغ دے رہے ہیں اور اخلاقی طور پر ہم پستی کی حدوں کو چھو رہے ہیں ۔

یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے کئی واقعات ہوچکے ہیں ۔ کورٹ رادھا کشن کا واقعہ ہوا ۔ اقلیت میں شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ کوئی بھی جرم ہو ایک اسلامی ریاست کے اندر شریعہ اور قانون کی رو سے کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ اداروں کو اس پر عمل میں آنا چاہیے اور قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے ۔

اب اس واقعہ میں وہ ایک نہتا آدمی تھا ، اس نے جتنا بھی بڑا جرم کیا ہو اس کو سنا تو جانا چاہیے تھا ۔ اس کو سمجھنا تو چاہیے تھا کہ وہ اتنا بڑے گناہ کا مرتکب کیوں ہورہا ہے ۔ کوئی باشعور اور باعقل انسان تو اس طرح کی غلطی کے سرزد ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اب جیسے کچھ باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ وہ حواس باختہ ہے تو ایسے شخص کو تو قاضی بھی سزا نہیں دے سکتا ۔ جب شریعت ہی اس کو جواب دہ نہیں سمجھتی تو قاضی کیسے سزا دے سکتا ہے ۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال اس طرح کے واقعات کے ہم سب بحیثیت معاشرہ ذمہ دار ہیں جس میں عام آدمی سے لے کر علما  اور حکومتی اداروں تک سب شامل ہیں ۔ ہمیں ایسے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے سنجیدگی سے ان کے سد باب کے لئے عملی اقدام اٹھانے چاہئیں ۔ لوگوں کو سزا بھی ملنی چاہیے اور اس کی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرتی اصلاح کے لئے بھی حکمت عملی بنا کر اس پر کام کرنا چاہیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply