پنجابی غیر مہذب زبان ہے؟ ۔۔۔۔اداریہ

طاہر یاسین کے قلم سے؛

دنیا کے سارے خطوں اور سارے ملکوں کی زبانیں ان کے بولنے والوں کو پیاری ہوتی ہیں۔مادری زبان سے پیار تو فطری ہے، اپنی فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے عربی زبان کا کوئی ثانی نہیں۔ فارسی اپنی مثال آپ ہے تو انگریزی نے بھی کچھ کم عزت نہیں کمائی۔انگریزی تو بین الاقوامی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ ہماری قومی زبان اردو بھی دنیا میں بولی جانے والی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ چینی، جاپانی، فرنچ اور جرمن زبانوں نے بھی اپنا آپ منوایا ہوا ہے۔

جیسے انسان ارتقائی عمل سے گذرتا ہے ایسے زبانیں بھی ارتقائی عمل سے گذرتی ہیں۔ ہمارا مقصود مگر لسانی ادب پہ گفتگو قطعی نہیں۔ ایک دکھ ہے جس کا اظہار کرناہے۔ ایک رنج ہے جس میں آپ سب کو شریک کرنا ہے۔ ایک خبر نے رنجیدہ کر دیا ہے۔’’ساہیوال میں قائم بیکن ہائوس سکول نے طلبہ کے لیے پنجابی زبان بولنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سکول انتظامیہ نے غیرمہذب گفتگو اور پنجابی زبان کو ایک ہی کیٹگری میں شمار کرتے ہوئے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا اور طلبہ کو پنجابی زبان بولنے سے روکنے کی ہدایات کیں۔ سکول انتظامیہ کی جانب سے پنجابی زبان کے بولنے پر پابندی کا سرکلر 22 اگست کو جاری کیا گیا تھا۔ سکول میں پنجابی زبان کے بولنے پر پابندی کیخلاف سوشل میڈیا میں بھی اسکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔سکول انتظامیہ کی جانب سے پنجابی کو بیہودہ زبان بھی قرار دیا گیا ہے۔ والدین کو بھی سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھر میں پنجابی زبان کے استعمال کو ترک کریں۔  سکول انتظامیہ کی جانب سے جاری کیا جانے والا نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے جس پر پنجابی زبان کی ترقی کیلئے کام کرنے والے حلقوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ‘‘

بیکن ہائوس والوں کے نزدیک مہذب صرف وہی ہے جو منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بول لے اور چھری کانٹوں کے ساتھ کھانا کھا لے۔ تہذیب صرف اسے ہی ہے جو رنگین پارٹیوں کا لازمی جزو ہو۔ بیکن ہاوس والوں کے نزدیک ترقی کا راز یہی ہے کہ فر فر انگریزی بولی جائے۔ بے شک بیکن ہائوس ایک بہترین سکول سسٹم ہے اور اس سکول سسٹم نے معاشرے کو بیورو کریٹس،نامور سیاستدان اور فوجی افسر بھی دیے ہوں گے۔ مگر یہی سکول سسٹم آج لسانی عصبیت کا کھلم کھلا مظاہرہ بھی کر رہا ہے۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ انگریزی زبان بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے مگر جس صوبے میں بیکن ہائوس بنا ہوا ہے اس سکول کی انتظامیہ نے اسی صوبے کی زبان پر وار کیا ہے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ فلاں زبان غیر مہذب ہے۔آپ کو کسی زبان کے دامن گنجائش سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے مہذب یا غیر مہذب ہونے اک سرٹیفکیٹ آپ کیسے دے سکتے ہیں؟ ہاں وہ زبانیں جن میں ادب تخلیق ہوتا ہو اور با لخصوص جن زبانوں کو صوفیا نے اپنی شاعری اور تبلیغ کے لیے استعمال کیا ہو وہ زبانیں غیر مہذب کیسے ہو سکتی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تو ہماری پوری ایک تہذیب پر حملہ ہے۔ بابا بلھے شاہ، بابا فرید گنج شکراور شاہ حسین جیسے بزرگ جس زبان کی نوک پلک سنوارتے رہے وہ زبان غیر مہذب کیسے ہو سکتی ہے؟جس زبان کے پاس استاد دامن ،فضل شاہ گجراتی اور استاد امام دین ایسے نابغہ ہوں کیا وہ زبان غیر مہذب ہوتی ہے؟ یا کیا اس کے بولنے والے غیر تہزیب یافتہ یا غیر شائستہ ہو سکتے ہیں؟ نہیں،بالکل نہیں، یہ صرف بیکن ہائوس کی انتظامیہ کا پنجابی زبان کے ساتھ بغض ہے جو اس نے اپنے اعلامیے کے ذریعے ظاہر کر دیا۔ صوبائی حکومت اس حوالے سے فوری اقدامات کرے کیونکہ آئین پاکستان کی دفعہ 251 میں صوبائی حکومتوں کو مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا پابند کیا گیا ہے۔ ماہرین تعلیم کیا اس بات پہ متفق نہیں کہ بچے مادری زبان مین زیادہ آسانی اور سہولت سے سیکھتے ہیں؟ بہرحال ہم حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بیکن ہاؤس کی اس بیہودگی پرفوری نوٹس لے کر قانونی کارروائی جائے تاکہ آئندہ کسی کو پنجابی زبان کے متعلق جو کروڑوں لوگوں کی مادری زبان ہے، ایسی یاوہ گوئی کا حوصلہ نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply