الیاس گھمن سکینڈل، تحقیقی جائزہ۔۔۔۔ اسد رحمان

اگرچہ مکالمہ الیاس گھمن ایشو پر مزید تحاریر نہ چھاپنے کا اعلان کر چکا ہے مگر اسد رحمان کی یہ تحریر انتہائی مدلل ہونے کے باعث شائع کی جا رہی ہے۔ ایڈیٹر

الیاس گھمن صاحب کے معاملے پر جتنا لکھا،پڑھا ،بولااور سمجھا جاچکاہے میرے خیال میں اب مزید کسی تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن اس پورے معاملے میں چند بنیادی سوالات اور واقعات کو بالکل نظر انداز کیا جارہا ہیں۔یہاں بنیادی طور پر تین گروہ سامنے آئے ہیں، ایک وہ گروہ جو ازل سے علماء حق،مدارس اورطلباء دینیہ کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں تھا کہ ایک واقعے کی آڑ میں جو ابھی تک پوری طرح سے سامنے بھی نہیں آیا علماء اور مدارس کو خوب بدنام کیا جائے اورجھوٹ کا ایسا انبار کھڑا کیا جائے کہ بدنام الیاس گھمن کم اور مدارس اوراسلام زیادہ ہو۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو زیادہ تر علماء اور مدارس سے منسلک ہیں لیکن اتنے متشدد مزاج ہیں کہ بہت ساری صحیح باتیں بھی وہ بغیر دلیل اور ثبوت کے جھٹلا رہے ہیں، اور ایسی طفل تسلیوں سے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو خوداِن کے اپنے ضمیر کو بھی مطمئن نہیں کر سکتی۔صاف الفاظ میں اِن کو علماء اورمدار س سے اتنی محبت ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ بھی سننے کو تیار نہیں،لیکن ان کا یہ طرز عمل معاملے کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھا رہا ہے اوربہت سے ایسے دوست جودرمیان میں ہیں ان کی طرف سے مضبوط دلیل نہ ہونے پر دوسرے پلڑے میں گر رہے ہیں۔

تیسراگروہ ان منصف مزاج لوگوں کا ہے،جو نہ ایک گروہ کے ساتھ ہے اور نہ دوسرے کیساتھ ۔ یہ علماء سے حسن زن رکھنے کی وجہ سے نہ پہلے گروہ پر پورا اعتماد کر رہے ہیں اور نہ دوسرے گروہ کے فراہم کردہ دلائل پر ان کو اطمینان ہے ان میں سے اکثریت بالکل خاموش ہے،اور کسی صحیح خبر کے انتظار میں ہیں۔ میرا اپناتعلق دیوبند مکتبہ فکر سے ہے لیکن علماء دیوبند میں شامل ہر بندے کی ہر بات کو صحیح نہیں سمجھتا اور دونوں طرح کے دلائل کودیکھ کرہی فیصلہ کر تاہوں ۔بدقسمتی سے میرے احباب میں اکثریت اس دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاملہ ھذا پر اِن میں سے بعض کے دلائل دیکھ کر مجھے ہنسی آتی ہے اور بعض پر سخت حیران ہوتا ہوں ۔جس بات نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا وہ یہی بات تھی کہ بعض باتیں دانستہ طور پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب آتے ہیں اصل معاملے کی طرف ۔میں نے یہاں جو کچھ لکھا ہیں اپنے تیءں بالکل منصفانہ اور اللہ کو حاضرو ناظر جان کر لکھا ہیں ان میں سے بعض باتوں کے ساتھ شاید کسی کو اختلاف ہو،مگر اختلاف کرنے سے پہلے اپنے دل میں ضرور سوچئے گا کہ کیا ان سوالات کا اطمینان بخش جواب خو د ان کے پاس بھی موجود ہیں ؟

اس معاملے کا سب پہلا اور بڑا کردار مفتی ریحان نامی شخص ہے ۔فیض اللہ خان کے بعد غالباٍ یہ پہلا شخص تھا جس کے دلائل اور ثبوتوں کیساتھ پوری شدت سے اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اٹھایا تھا ۔اس کے دلائل اور ثبوت کیا ہے اس پر بعد بات کرینگے ،لیکن یہاں اس کردار پر بعض دوست کچھ اعتراضات اور سوالیہ نشان کھڑے کر رہے ہیں ان میں سے اکثریت میرے متشدد مزاج دوست ہیں جو معاملے پر سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں جس پر کوئی بھی منصف مزاج شخص مطمئن نہیں ہوپاتا۔کوئی مفتی ریحان کو امام غیب کہہ کر اس کے لطیفے بنا رہاہے ،کوئی اسے جنات میں سے بتا کر اس کا مزاق اڑا رہا ہے،اورکوئی عمران سریز کا خفیہ کرداربتا رہا ہے لیکن ایک لمحہ کے لیے مفتی ریحان کوسائیڈپر کر کے اور اللہ کو حاضر و نا ضر جان کر یہ بتائے کہ فیض اللہ خان کو اتنی گالیاں اور دھمکیاں ملنے کے بعد اگر کوئی بھی شخص اس معاملے پر بات کرتا تو کیا وہ اپنے اپ کو خفیہ نہ رکھتا ؟اور تھوڑی سی بھی عقل لڑانے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جس کسی نے بھی کیا ہے صرف اپنا نام نہ آنے کی وجہ سے کیا ہے ۔یہ بات سمجھ میں آنے کے بعد ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اب مزید ایسے کرداروں پر بات کرنا فضول ہے چاہیے وہ مفتی ریحان ہو،علامہ لقمان ہو یا قاری فرمان ۔۔۔

اب آتے ہیں دونوں طرف کے دلائل پر۔ طوالت سے بچنے کیلیئے الزامات کو بیان نہیں کیا رہا کیونکہ جس شخص کے کان میں اس معاملے کی ذرا سی بھی بھِنک پڑی ہو، وہ یہ بخوبی جانتا ہے ۔ہاں البتہ دلائل اور اعتراضات کے وزنی ہونے یا نہ ہونے پر ضرور بات ہوگی۔

گھمن صاحب کی طرف سے جواب تین طرح کے لوگ دے رہے ہیں ۔

ایک وہ لوگ جو بغیر دلیل اورثبوت کے صرف گھمن صاحب کی محبت اور عقیدت میں ہر اُس بات کو رد کر رہے ہیں جو مولانا کے خلاف جا رہی ہو، اورہر اُس بات کی تائید کر رہے ہیں جو اُس کے حق میں جارہی ہو ۔یہ لوگ پہلے تو اس معاملے کی حقیقت سے انکاری تھے اور اُن تمام خطوط،فتویٰ اور اشتہارات جو بعض علماء کی طرف منسوب کئے گئے تھے کے وجود سے بھی انکار کر رہے تھے لیکن جب معاملہ تھوڑا ساآگے بڑھاتوہر خط اور اشتہارکو اپنی طر ف موڑنے کیلئے من پسندتاولیں اور بہانے کرنے لگے ،مخالف فریق کو گالیاں اور دھمکیاں بھی ان لوگوں طرف سے دی جا رہی ہے اورمستقبل میں اگر معاملہ تھوڑا اور اگے بڑھاتو اصل الزام لگانے والی محترمہ جو گھمن صاحب کی سابقہ بیوی اور مولانا زین العابدینؒ کی بیٹی ہے کو یہ لوگ فاحشہ اوربدکردار کہنے میں بھی دیر نہیں لگائینگے۔اس لیے ایسے لوگوں سے بحث میں اُلجھنا فضول اور وقت کا ضیاع ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں، جو ہے تو گھمن صاحب کے حمایتی لیکن اس معاملے میں وہ خاصے سنجیدہ ہیں اور ان کے دلائل پہلے گروہ کے مقابلے میں تھوڑے وزنی ہے، ایسے ہی ایک شخصیت نوفل ربانی صاحب ہے جو کہتے ہیں کہ اس معاملے پر میں نے براہ راست مولانا گھمن اور متاثرہ خاندان سے رابطہ کیا ۔ اور سچ ہے کہ ان کی تحریر کا ابتدائی حصہ پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ کسی نے تو تحریر و تقریر سے بڑھ کر میدان عمل میں بھی قدم رکھا لیکن جلد ہی یہ خوشی اس وقت کافور ہوئی جب ڈیڑھ پیراگراف لکھنے کے بعد موصوف نے سارے معاملے کو درمیان میں چھوڑ کر اپنی توپوں کا رُخ اُن صحافیوں کی جانب پھیر دیا جنہوں نے اس معاملے کو اٹھایا تھا ،اور وہ پوری قوت سے اِن پر حملہ آور ہوا ،اورقادنیت،غامدیت اور لادنیت کے طعنے اور فتوے برسا کر ہی واپس پلٹا۔

گھمن صاب سے ملاقات کے ضمن میں موصوف لکھتے ہیں کہ دوسرے علماء کی موجودگی میں اُنہوں(گھمن صاحب) نے اس کی تردید کی اور واقعے کو ایک جھوٹاپراپیگنڈہ قرار دیا ،دوسری طرف متا ثرہ خاندان کے زین الصالحین سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے کچھ باتوں کی تردید اور کچھ کی تصدیق کی ۔اب انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جس” تھانداری “انداز میں اُنہوں نے مولانا گھمن سے ملاقات کر کےاس معاملے کے متعلق پوچھاتھا اُس سے ایک درجے کم ایمانداری سے اگر وہ یہ بھی لکھ دیتے کہ زین الصالحین نے کن باتوں کی تردید اور کن کی تصدیق کی، تو معاملہ خودبخود سامنے آجاتا ۔ظاہر ہے کہ اگر اُس نے الزامات میں کسی ایک کی بھی تصدیق کی ہے تو اِن میں سے ہر ایک بذاتِ خود قابل تعزیر جرم ہے اور بات تو تب بنتی جب وہ بھی گھمن صاحب کی طرح سب کچھ جھوٹ قرار دیتا۔

اس بارے میں دوسرے قابل ذکر آد می مولانا عبدلعزیز ہزاروی کے بیٹے مفتی اویس ہے اِن کی تحریر بھی اگر چہ بعض دوستوں کی طرف سے مولانا کی صفائی میں پیش کی جارہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریر مولانا کی کم اور اِ ن (مفتی صاحب)کی اپنی صفائی زیادہ معلوم ہوتی ہے اور تحریر پڑھ کر صاف پتا چلتا ہے کہ مفتی صاحب اِس معاملے سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن اس سے ایک بات کی تصدیق ضرور ہوتی ہے کہ متاثرہ خاندان کی طرف سے مختلف مدارس اور علماء کو ایسے خطوط واقعی میں لکھے گئے تھے۔خیر اس بات کی تصدیق تو اب گھمن صاحب نے خود بھی کر دی ہے۔

اِس قبیل کے دلائل میں بعض فتویٰ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مختلف علماء اور دارلفتاء کی جانب سے گھمن صاحب کی صفائی میں دیے گئے ہیں حال ہی میں ایک فتویٰ مفتی عبدلواحد قریشی کی طرف سے دیا گیا ہے اب اگر اس فتویٰ پرہی بات کی جائے تو شروع سے لے کر آخر تک کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو خود فتویٰ کے اندر بیان کردہ اُصولوں پر پوری اُترے۔ مثلاًفتویٰ کے شروع میں تو یہ اُصول بیان کیا گیاہے

؛ ترجمہ ’ اے ایمان والوں ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح سے تحقیق کر لیا کرو کہی ایسا

نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پر پچھتا ؤ (سورۃ حجرات۶)

لیکن گھمن صاحب کے معاملے میں قطعاً اِس کی ضرورت محسوس نہیں کئی گئی اور محض اپنے حسنِ ظن سے فیصلہ کیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں فریقین کا موقف سنا جاتا ،گواہان سے ملاقات کی جاتی ،دونوں کے دلائل کو پرکھا جا تا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا۔لیکن یہاں مفتی صاحب کی تحقیق صرف گھمن صاحب ہی تک محدود رہی اور وہ بھی اس حد تک کہ مولانا کا موقف سنتے ہی ساری باتوں کو پراپگنڈاقرار دیا اور دوسرے فریق سے بات تک نہیں کی گئی۔ اب ظاہر ہے اِس طرح کے فتویٰ سے کس کے دل کو کیا تسلی ہو گی۔اِس فتوے اور مولانا کی حمایت میں لکھی گئی ایک بے دلیل فیسبکی تحریر میں کیا فرق رہ جائے گا؟ صرف اتنا کہ وہ ایک نا معلوم صاحب کی طرف سے اوریہ ایک معلوم مفتی کی طرف سے ۔ وہ فیس بک کے صفحے پر لکھا ہے اور یہ مہر لگے فتوے کے کاغذ پر ۔وہ ایک نامعلوم تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے اوریہ ایک دَارُلافتاء کے لیبل کے ساتھ۔۔۔۔؟

اب آتے ہیں گھمن صاحب کی طرف سے دلائل اور موقف کے تیسرے قسم پہ جو یا تو خود گھمن صاحب کا بیان ہے اور یا بعض صحافی حضرات کا برا ہ راست گھمن صاحب کا موقف بیان کرنا ہے۔

یہاں دو صحافی حضرات کے بیانات خاص طور پر قابل ذکر ہیں ،ایک فیض اللہ خان اور دوسرے عدنان کریمی صاحب۔ جہاں تک فیض اللہ خان صاحب کی تحریر کا تعلق ہے اُس میں مولانا سے صرف معافی مانگنے اور مولانا کے الزامات کو رد کرنے کا ذکر ہے ،ہاں البتہ عدنان کریمی صاحب کی تحریر جو تقریباً کچھ کمی بیشی کے ساتھ مولانا کا بلال غوری کو دیا جانے والا انٹرویو ہی ہے میں کچھ ثبوتوں اور مفصل دلائل کا ذکر ہے۔مولانا کا یہ ا نٹرویو اُس وقت سامنے آیا ہے کہ جب سوشل میڈیا پر اُس کے حق میں اور اُن کے مخالفت میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے یہاں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اِس انٹرویو میں وہ خاصے نروس دیکھائی دیتے ہے اور یہ بات میرے علاوہ کئی دوسرے دوستوں نے بھی محسوس کی ہیں تاریخوں کا اُلٹ پلٹ کرنا ،اور ایک بات کو بار بار دہرانا اُن کے اِس انٹرویو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے ممکن ہے کہ اس بات کو بہت سارے لوگ رد کر جائے اور شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ اُنہوں نے کبھی مولانا کو احباب کی محفل میں ۔تقریر کی سٹیج پریا مناظرہ میں مدلل اور جاندار گفتگو کرتے نہیں سنا ہو۔

ذیل میں ہم مولاناکے ایک ایک دلیل کا اللہ کو حاضر ناظرجان کر اور مولانا کی حمایت اور مخالفت سے دست بردار ہو کر بالکل منصفانہ تجزیہ کرنگے ۔مولانا کی پہلی وضاحت کا لب لباب یہ ہے میری شادی اپریل۲۰۱۲ ؁میں ہوئی اور میری سابقہ بیوی سمیعہ (صاحبزادی مفتی زین العابدین )کا مئی میں سرگود ھاآنا ہوا اور جب وہاں آئی تو اُنہوں نے الزام لگایا کہ میری پہلی بیوی پہرہ دار اور معاون بن کر گھر کے باہر کھڑی تھی اور میں اندر مدرسے کی طلبہ کے ساتھ غلط کام میں مصروف تھا ،اُنہوں نے جب میری پہلی بیوی پہرہ دار بنا کر بطور گواہ پیش کرنا چاہا تو میری پہلی بیوی نے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کووضاحتی و براتی خط لکھااور سمیعہ صاحبہ کے الزامات کی تردید کی ۔اس وضاحت میں کچھ باتیں مولاناکے انٹرویواور کچھ عدنان کریمی صاحب کی تحریر سے لی گئی ہیں جو تقریبا ایک جیسی ہیں۔

یہاں تین باتیں خاص طور پر قابل غور ہیں گھمن صاحب پر سمیعہ صاحبہ نے الزام اُس وقت لگایا جب شادی کو ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا تھا ،لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ شادی کو ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہو اور بیوی شوہر پر اتنے سنگین الزامات لگائے اوروہ بھی صرف شک کے بنیاد پر۔اگر شادی زبردستی ہوئی ہوتی تب تو اِس بات کا امکان تھا کہ بیوی شوہر سے جان چھڑانے کے لیے ایسا کرتی لیکن دوسری طرف کے بیانات دیکھ کر ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آتا ۔یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ بعض عورتیں شکی مزاج واقع ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ موصوفہ کا تعلق بھی اِس قبیل کی عورتوں سے ہو،لیکن کیا کوئی عورت شک کی بنیاد پر اتنی دلیرہوسکتی ہے کہ تین صفحوں کا لمبا چوڑا خط بمائے ثبوتوں کے ملک کے بڑے اور جید علماء کرام کو بھیجے اور شہادتوں اور گواھوں کی بات کریں؟ البتہ یہی با ت سو شل میڈیاپر گشت کر تی محترمہ سے منسوب خط کی صداقت کی گواھی ضرور دے رہی ہے ، جس میں محترمہ کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ مجھے سرگودھا جاتے ہوئے راستے میں ہی کچھ شک ہونے لگا اور جب ہم سر گودھا پہنچے تو معاملہ مجھ پر پوری طرح کھُل گیا ۔ دوسری بات جو یہاں پتا چلتی ہے کہ محترمہ اتنی بے وقوف اور سادہ ہے کہ مولانا کی دوسری بیوی پر الزام بھی لگا ئے اور پھر خود ان کو اِنہی کے خلاف مقدمے میں بطور گواہ بھی پیش کیا ،اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گا کہ کیا ایک علمی گھرانے کی عورت اتنی سادہ لوح ہوسکتی ہے ؟

تیسری بات جو مولانا نے بیان کی ہے یہ ہے کہ اِسکی دوسری بیوی نے بھی مولانا سلیم اللہ خان کو جوابی خط لکھا اور سمیعہ صاحبہ کے الزامات کی تردید کی۔یہاں ایک لمحے کے لیے ایسا لگتا ہے کہ مولانا نے متعرضین کے منہ پر مُکا دے مارا ہیں کہ اگر میری ایک بیوی کا خط اتنا مقدس اور محترم ہوسکتا ھے کہ اُس سے میرے خلاف طوفان اُٹھایا جاسکتا ہے تو میری دوسری بیوی کی خط کی وہ حیثیت کیوں نہیں ؟لیکن مولانا کو یہ سوال کسی دوسرے سے نہیں بلکہ مولانا سلیم اللہ سے پوچھنا چاہیے کیونکہ یہی مولانا سلیم اللہ خان ہی تو ہے جس نے محترمہ سمیعہ کا خط پڑھ کر تو گھمن صاحب سے برات کا اعلان کر دیا لیکن خود گھمن صاحب کے بقول جب اُنہوں نے مولانا سلیم اللہ سے برات کے متعلق بات کرنے کی کوشش کی اور اس واسطے مولانا حنیف جالندھری حفظہ اللہ جیسے مدبر عالمِ دین کودرمیان میں لانا چاہا تو خود مولانا جالندھری بھی اِس معاملے پر مولانا سلیم اللہ خان کا سامنا کرنے سے کترانے لگے ،یہ بات براہ راست فیض اللہ خان نے مولانا گھمن سے ملاقات کے ضمن میں لکھی ہے۔

مولانا نے اپنادوسراموقف یہ پیش کیا ہے کہ اگر میں اتنا ہی برُا تھا تو محترمہ نے ابتداء ہی سے علیحدگی کا فیصلہ کیوں نہیں کیا ۔اگر مولانا اور محترمہ کی حیثیت کو اوراُس وقت کے حالات کو بالکل نظر انداز کر کے اِس بات کو دیکھا جائے تو یہ بات انتہائی سادہ اور پر اثر لگتی ہے لیکن جیسے ہی مولانا ،محترمہ اور ا ن کے خاندان اور اس وقت کے حالات کو درمیان میں لایا جائے تو بات بالکل دوسرا مفہوم بیان کرنا شروع کر دیتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محترمہ ایک مشہور عالم دین ،مبلغ مولانا زین العابدین کے گھر پیدا ہوئی،جوانی تک علمی اور روحانی ماحول میں پرورش پائی،پھر ایک نیک اور با عمل عا لم دین کے ساتھ شادی کر کے D.I.Khan آئی،اِس شوہر سے ان کے دو بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئے۔محترمہ اپنے بچوں اور شوہرکے ساتھ اچھی بھلی زندگی گزار رہی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ازمائشوں کا یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا ،جب ان کے شوہر کو ایک جان لیوا مرض لاحق ہوا ،جس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد اُن کا انتقال ہوا،پھر وہ فیصل آباد میں اپنے بچوں کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی تھی ۔کہ ایک دن ان کو مولانا گھمن کی طرف سے نکاح کا پیغام ملتا ہے،اور وہ اپنے بھائیوں اور کچھ دوسرے رشتہ داروں سے صلح مشورے کے بعد اس کو قبول کرتی ہے، بظاہر اس میں کوئی ہرج بھی نہیں تھا کیونکہ مولانا ملک کے ایک نام ور عالم دین تھے اور نکاح کے پیغام میں خاص تور پر ان کے والد سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا گیا تھا۔ شائد محترمہ کو اپنے بھال بچوں کی کیفالت کا غم بھی ہواور کچھ اور مجبوریاں بھی ہو،آخر کا ر مولانا گھمن کا نکاح محترمہ سمیعہ سے ۵ اپریل ۲۰۱۲ ؁ کو ہوا۔یہاں تک یہ وہ روداد ہے جس پر نہ مولانا کو اعترض ہے اور نہ محترمہ کو۔اِس کے بعد دونوں کے بیانا ت مختلف ہے،جس پر ہو بات کرنگے۔

یہاں تک پوری کہانی ذہن میں رکھ کر فیصلہ کے کریں،کہ کیا اُس وقت مولانا سے طلاق کا مطالبہ کیا جاسکتا تھا؟جبکہ ابھی مبارکبادی دینے لوگ آرہے ہو اور کیا یہ کوئی گھڑیا گڈے کی شاوی تھی کہ ایک دن شادی اور دوسرے دن علیحدگی ؟ کیا وہ شادی کے صرف چند مہینوں بعد طلاق لے کر معاشرے کے ان باتوں اور طعنوں کا مقابلہ کر پاتی؟اور ظاہر ہے کہ ایک نام ور عالم دین کے مقابلے میں اس کی بات پر کس کو اعتبار ہوتا؟کیا اُس وقت ہر کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ مولانا کو بد نام کرنے کے لیے دو دن کی شادی رچائی؟

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ چلے !ابتدائی چند مہینوں میں نہ سہی لیکن کچھ عرصے بعد تو یہ مطالبہ کیا جاسکتاتھا۔تین سال کا عرصہ ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے،اس سوال کا تسلی بخش جواب محترمہ کے طرز عمل سے جو خط میں مفصل بیان ہوا ہے سے بخوبی مل سکتا ہے۔ ہوا یوں کہ جب محترمہ کا مولانا پر شک یقین میں بدل گیا تو اُنہوں نے مولانا سے کنارہ کشی اختیار کر لی،باقاعدہ طلاق کی صورت میں نہ سہی مگر بہت حد تک انہوں نے اپنے معاملات مولانا سے علیحدہ کر لئے۔وہ ایک طرف معاشرے کے طعنوں سے اپنے آپ کو بچاتی رہی اور دوسری طرف مولانا کی دراندازیوں سے اپیے بچوں کو بچا رہی تھی،مولانا کوگھر میں نہ چھوڑنا اور بچیوں کا مولانا سے پردہ کروانا اور مولانا سے رابطہ نہ رکوانا، سب اسی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایک لمبے عرصے تک وہ اِسی طرح لڑائی،جھگڑوں اور حیلوں بہانوں سے وقت گزار رہی تھی لیکن جب معاملہ حد سے آگے بڑھا اور مولانا کے حملے کسی صورت بھی نہ رُکھے تو سمعیہ صاحبہ مختلف علماء کو خطوط بھیجتی ہے اور صورت حال کی بابت ان کے رائے اور فتوی پوچھتی ہے ،بعض جید علماء کی طرف سے۔ فتویٰ آنے کے بعد وہ مولانا سے مکمل علیحدگی اختیار کرتی ہے ، جِس کے بعد مولانا اِن کو طلاق دیتے ہےٰ۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ محترمہ نے علماء کی بجائے عدالتوں سے رابطہ کیوں نہ کیا ؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ ایسا کرتی بھی تو مولانا کے معاشرتی اور معاشی طاقت کے مقابلے میں اُس کی حیثیت ہی کیا تھی اور کیا اِس طرح سے اُسکو انصاف مل جاتا ؟ اور وہ بھی اُن عدالتوں سے جو (۱۹)سال بعد ایک فوت شدہ قیدی کو بے گناہ قرار دے کر رہائی کے احکامات سُناتی ہے کیا وہ عدالت میں جا کر خود اپنا تماشہ بناتی ؟

ظاہر ہے اُس نے ہر طرح سے غور کرکے وہی راستہ اپنایا جو اُسے سب سے زیادہ مناسب لگا ۔اپنی سی فریاد لے کر وہ ملک کے جید علماء ء کرام کے پاس پہنچی لیکن جب وہاں سے بھی بعض کا صرف اعلانِ برات اور بعض کا صرف خاموش رہنے کو کہنا اور بعض کا مولانا کی اطاعت اخیتار کرنے کو کہنا،جیسی باتیں آئی تو محترمہ نا اُمید ہو کر بیٹھ گئی اور اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اب اگر دو سال بعد کسی نے وہ خط شائع کر دیا تو اِ س میں اُس کا کیا قصور!اور ہمارا سوال پوچھنے کا کیا حق بنتا ہے۔

یہاں مولانا کی طرف سے ایک اعتراض یہ آیا ہے کہ اگر واقع میں کچھ اِس طرح کا معاملہ تھا تو پھر بھی محترمہ مقامی علماء اور مفتیان کو خط لکھ کر شرعی حکم معلوم کر سکتی تھی ۔یہ بڑے بڑے علماء کرام کو خط لکھ کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتی تھی ۔ یہ اعتراض اُس وقت جاندار ہوتا اگر فتویٰ مولانا کے علاوہ کسی اور الیاس گھمن کے متعلق پوچھا جاتا جو ایک دوردراز گاؤں میں مزدوری کرتا ہو اور اپنی بیوی کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ۔لیکن یہاں تو قصہ ہی کچھ اور تھا یہ فتو یٰ اُ س مو لانا گھمن کے متعلق پوچھے جا رہے تھے جو دیوبند کا ترجمان کہلاتا ہے ،جو بڑے بڑے مدارس میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا جاتا ہے ،جو تبلیغی جماعت پہ ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دیتا ہے جو خود بڑے بڑے مدارس کی سرپرستی کرتا ہے ،جو مجاہدین کے اُستاد کی حیثیت سے مشہور ہے،جس نے سپاہ صحابہ کے معاملے میں جیل کاٹی ہو ۔کیا اُس صورت میں بھی مقامی علماء سے فتویٰ پوچھ کر دل کو تسلی دی جاتی ؟ کیا محترمہ کا دل خون کے آنسوں نہ روتا ہوگا جب وہ اپنی باپ کی ساری زندگی کی محنت یوں برباد ہوتے دیکھ کر اور اِس کردار کے شخص کو مولانا مدنی ؒ کے دیوبند کی ترجمانی کرتے دیکھ رہی ہوگی۔

چلے، تھوڑی دیر کے لیے اِس سارے افسانے کا رد کرتے ہیں تو کیا تب بھی مولانا کے اِس موقف میں جان باقی رہتی ہے مولانا کا یہ کہنا کہ چونکہ اُنہوں نے میرے ساتھ تین سال گزارے ہیں اور کوئی بھی ایک بُرے شخص کے ساتھ اتنا عرصہ نہیں گزار سکتا ،اس لیے میں غلط نہیں ہوسکتا۔کوئی وزن رکھتا ہے ؟ اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ دس سال گزارے ہیں اور کوئی بھی ایک بُرے شخص کے ساتھ اتنا عرصہ نہیں گزار سکتا ،اس لیے میں غلط نہیں ہوسکتا،اِس لیے میں صحیح اور وہ غلط ،میں سچا اور وہ جھوٹا ۔تو کیا کوئی ماننے کو تیار ہوگا ؟ یقیناً نہیں ۔

مولانا کی تیسری دلیل یہ ہے کہ کیا بہت ساری جگہوں پر خاتون کا بڑا بیٹا میرے ساتھ نہ ہوتا اور وہ بھی اُس وقت جب گھر میں اتنے ہنگامے چل رہے ہو؟ جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے تو یہ الزام تو خود زین الصالحین مولانا پر لگا رہے کہ اُنہوں نے بے خبری میں مجھے بہت دفعہ استعمال کیا ،اب کون سچا ہے، یہ اللہ جانتا ہے۔

مولانا کی چوتھی دلیل ایک اعتراض کے شکل میں یہ ہے کہ اگر محترمہ سے میرے تعلقات دشمنی کی حد تک خراب ہو چکے تھے تو اِس کے با وجود مارچ ۲۰۱۵ ؁ میں بننے والے ڈارئیونگ لائسنس میں میرا نام کیوں درج ہے ؟ یہ اعتراض اگر خود مولانا کی طرف سے نہ ہوتا تو میں اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا ،یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ ڈارئیونگ لائسنس میں w/o,s/o اورD/O کا خانہ لازمی ہوتا ہے اور یہ خانہ فارم کے ساتھ CNICکے کاپی میں درج معلومات کے مطابق پر کیا جاتا ہے ،اب اگر محترمہ کا شناختی کارڈ اُس وقت Renew ہوا ہو جیسا کہ اکثر عورتیں شادی کے بعد رِینو کرتی ہے ،تا کہ سفر اور دوسرے معاملات میں آسانی ہو تو اس پر اعتراض کیسا ۔محترمہ نے اپنے شوق سے تو نہیں لکھا ۔مثلاً اگر کسی کے بیٹے کا اپنے باپ کے خلاف مقدمہ کسی عدالت میں چل رہا ہو اور وہ باپ عدالت میں یہ کہے کہ اُس کے بیٹے کے کسی بات پر یقین نہ کیا جائے کیونکہ اُسکے شناختی کارڈ ،میٹرک کے سر ٹیفیکیٹ اور تمام اسناد میں میرا نام لکھا ہے ۔

اِس اُصول سے تو مولانا نے اُن تمام مقدمات کا فیصلہ ہی کر دیا ،جو سالوں سے عدالتوں میں لٹکے ہوئے ہیں ۔یہاں ایک بات خاص طور پر قابلِ غور ہے اور جس پر مخالفین کی طرف سے سخت اعتراض آیا ہے کہ مولانا نے یہ بات کہتے ہوئے محترمہ کا ڈرائیونگ لائسنس کیمرے کے آگے کر دیا ،جس پر محترمہ کی تصویر بھی تھی ،وہ محترمہ کی تصویر چھپا کر بھی ثبوت دے سکتے تھے اور حق بات یہ ہے کہ مجھے خود بھی مولانا سے یہ اُمید نہیں تھی کیونکہ ایسے معاملات میں عام لوگ اتنے حساس ہوتے ہیں جبکہ مولانا تو ایک بڑے عالم دین بھی ہے۔ یہاں کچھ نادان دوست یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ محترمہ اگر اتنی پردہ دار ہے تو اُنہوں نے اپنی تصویر دی ہی کیوں ؟تو اُن حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہیں کہ ڈرائیونگ لائسنس کیلے تصویر لازمی ہوتی ہے لیکن اِس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ اسے پوری دنیا میں پھیلا یا جائے ۔ اس طرح کے متعریضین سے عرض ہے کہ اگر کوئی شخص آپکے محلے ،گاؤں یا شہر میں آپ کی ماں ،بہن یا بیٹی کی تصویر پوسٹر پر چھاپ کر بانٹتا پھر ے اور آپ اُسے روکنے کی کوشش کرے اور آگے سے وہ یہی کہے کہ انہوں نے CNIC میں اپنی تصویر دی کیوں،تو جو جواب یہ لوگ دے اُس سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔

مولانا کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے تعالقات اس حد تک خراب تھے تو محترمہ کے بڑے بیٹے کی شادی کے موقع پر چھپنے والے دعوت نامے میں اُس کا نام بطور میزبان کیوں لکھا گیا ؟ محترمہ نے جو جواب دیا ہے اُس کے مطابق شادی کارڈ پر جب مولانا کا نام نہیں دیا گیا تو مولانا نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور سارے پروگرام کو تہس نہس کرنے کی دھمکی دی مجبوراًاُسکا نام بھی شادی کارڈ پر چھاپا گیا ،اب حق کس کی بات میں ہیں وللہ اعلم۔

سوشل میڈیا پر اِس معاملے کے متعلق سوال پر مولانا کا جواب تھا کہ سوشل میڈیا پر مفتی ریحان کی کہانی بالکل جھوٹ ہے اس بیان میں جابجا تضادات پائے جاتے ہیں مثلاً شادی میں بنیادی کردار مفتی زین العابدین صاحب کی بیٹی اور دامادیعنی محترمہ سمیعہ کی بہن اور بہنوئی کا تھا جبکہ مفتی ریحان نے بنیادی کردار محترمہ کے بھائیوں کا لکھا ہے جو ایک واضح تضاد ہے ، اس اعتراض کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے مولانا نے مفتی ریحان کے مضمون سے زیادہ بغور کلیم اللہ خان نامی شخص کا وہ جوابی مضمون جو ڈھیڑ، دو سو سوالات پر مشتمل ہیں پڑھا ہے یہ صفائی نامہ اتنی اُجلت اور بکلاہٹ میں لکھا گیاکہ اِس میں خود بہت ساری باتیں غلط ہیں مثلاً اسی بات کو ہی لیجئے تو پتہ چلتاہے کہ یہ وہی کلیم اللہ خان کا اعتراض ہے جو مولانا نے من و عن ویسے ہی بیان کر دیا اگر مولانا خود ہی وہ خط پڑھ لیتے تو اُن کو صاف پتہ چل جاتا کہ خط او ر مفتی ریحان کے مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں بلکہ اُنہوں نے تو خود جگہ جگہ لکھا ہے کہ ’’ یہ شادی میرے بہنوئی اور دیگر رشتہ داروں کے مشورے اور رضامندی سے طے پائے تھی اور میرے بھائی اِس شادی سے زیادہ خوش نہیں تھے ‘‘۔

یہی حال اُس دوسرے سوال کا بھی ہے ،مولانا فرماتے ہیں کہ اگر میں ایک بہن کے ساتھ دست درازی کرتا تو دوسری بھاگ کر باہر چلی جاتی اور شور مچاتی کیو نکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرے میں تھی ۔اب اِس بات پر غور کریں تو بالکل وہی بات ہے جو دو ہفتے پہلے کلیم اللہ خان نے لکھی ہیں ،مفتی ریحان کے مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دونوں بہنوں کو الگ الگ کمروں میں سلایا گیا تھا اور ماں پر پہردار گھمن صاحب کی دوسری بیوی کھڑی تھی ،لیکن پتہ نہیں کیوں مولانا نے جان بوجھ کر یہ کہا کہ خط اُنہوں نے خود پڑھا ہے۔ یہاں اگر کسی کو اعتراض ہو کہ میں نے بلاوجہ محترمہ کی حمایت اور مولانا کی مخالفت کی ہے تو وہ خود مفتی ریحان کا مضمون ،مولانا کا بیان ،محترمہ کا خط اور کلیم اللہ خان کی تحریر پڑھے اور فیصلہ کرے۔

مولانا نے ایک سوال یہ بھی اُٹھایا ہے کہ اگر میں نے لڑکی سے دست درازی کی بھی تھی تو صبح اُس نے اپنی ماں کو بتایا کیوں نہیں ؟ مولانا شائد یہ بات بھول رہے ہیں کہ بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے اکثر درندوں کا پہلا اصول ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ ناک کی سیدھ میں حملہ نہیں کرتے ،وہ پہلے بچیوں کو ہراسا کرنے کے لیے اُن کی کوئی کمزوری ڈھونڈتے ہیں پھر اُن کو بلیک میل کرتے ہیں اور جب وہ پوری طرح اُن کی جال میں آتی ہے تب وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں خطوط کا متن پڑھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا نے پہلے اُس بچی کی ننگی تصویریں لی ،پھر اُس کو بلیک میل کیا۔

مولانا نے ایک ثبوت یہ بھی دیا ہے کہ اُس کے اکاونٹ سے جنوری ۲۰۱۵ ؁کو ایک لاکھ روپے محترمہ کے اکاؤنٹ میں گئے ہیں ،اس بات پہ ہم نہ تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی تائید۔ کیونکہ دوسری طرف کا موقف ابھی تک نہیں آیا ۔

مولانا نے سارے جھگڑے اور طلاق کی وجوہات اپنی چوتھی شادی کو قرار دیا،اُس شادی کا مقصد مولانا یہ بیان کرتے ہیں کہ میری دوسری بیوی چونکہ عالمہ تھی لیکن حفظ کے شعبے کیلیے ہمیں ایک حافظہ کی ضرورت تھی اور اتفاق سے مجھے ایک ایسا ہی رشتہ مل گیا ، اِس بارے میں مولانا کے مخالفین یہ سوال اُٹھارہے ہیں کہ کل مدرسے میں دارالفتاء بن گیا تو کیا مولانا ضرورت کے تحت ایک اور شادی کرینگے اور کیا مولانا کو اتفاق سے ایسا رشتہ بھی مل جائے گا؟ مولانا کی تمام باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ میری چوتھی شادی سے میری تیسری بیوی یعنی سمعیہ صاحبہ ناراض ہوئی اور اُسے اپنی اہمیت کم ہوتی دیکھائی دی، سو اُس نے مجھے کچھ نازیبا مسجیزکئے لیکن میں نے اُسے نظر انداز کیا محترمہ کا مقصد اُس سے پورا نہ ہواتواُس نے مجھ سے لڑائی جھگڑے شروع کئے اُس پر بھی میں نےصبر کیا تو مجھے دھمکیا ں دی کہ اگر مجھے توجہ نہ دی گئی تو میں علماء کرام کو آپ کے خلاف خطوط بھجواؤں گی آپ پر الزامات لگاؤنگی اُس سے بھی کام نہ بنا تو آخر کار سب کچھ کر گزری اور پھر بوجہ مجبوری میں نے اُنہیں طلاق دے دی اور قصہ ختم ہو گیا ۔

مولانا نے بالکل وہی صورت حال بیان کی ہے جو اکثر فلموں اور ڈراموں میں ھوتا ہے ایک عورت کی شادی ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے اُس کا شوہر مالدار ہوتا ہے سو کسی چیز کی تنگی نہیں ہوتی ہے ہفتے میں دو بار شاپینگ کرنا،رات کا کھا نا باہرکھانا،تین چا ر دنوں میں کسی پارک سیر سپاٹے کے لیے جانا، سال میں ایک بار بیرونِ ملک سیر کو جانا اور سالگرہ کے موقع پر ایک دوسرے کو مہنگے تحفے دینا اُ ن کا معمول ہوتا ہے ،اُ س کا شوہر اُس کے علاوہ کسی اور کو دیکھتے ہی نہیں الغرض ہر طرح کا عیش وآرام،راحت اور سکون اُن کو میسر ہوتا ہے،پھر اچانک اُس کے شوہر کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوتا ہے،شوہر اگر چہ اب بھی اُس کا اسی طرح خیال رکھتا ہے لیکن اُسے ویسی ہی اپنی حیثیت کم ہوتی دیکھائی دیتی ہے اس شادی کو روکنے کے لیے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگاتی ہے اپنے شوہر کو ھمکیاں دیتی ہے اپنے شوہر اور سوکن پر بہتان لگاتی ہے حتیٰ کہ اپنے بچوں کی عزت کا بھی خیال نہیں کرتی اُس کا شوہر اسے سمجھاتے رہے لیکن وہ نہیں سمجھتی اور آخر کار نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کو طلاق دیتے ہیں۔

کیا واقع گھمن صاحب اور سمیعہ صاحبہ کی یہی صورت حال تھی ؟ اگر جواب ہاں میں ہو جیسا کہ گھمن صاحب کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خود گھمن صاحب کے بیان میں بہت بڑا تضاد ہے ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہیں کہ شادی کے وقت صرف خرچے کی زمہ داری اٹھائی گئی ۔جو چند ہزار روپے ماہانہ تھیں اور مہینے میں ایک بار گھمن صاحب کو فیصل آباد آنا ہوتا۔اگر واقعی یہی بات تھی تو محترمہ کو گھمن صاحب کی شادی سے کیا تکلیف تھی شادی کرتے وقت اُس کو اپنی حیثیت اور گھمن صاحب کی حیثیت کا اچھی طرح اندازہ تھا وہ خود ایک بیوہ تھی جس کے چار بچے تھے اور گھمن صاحب دو بیویوں کے شوہر ۔ اگر محترمہ کو اِ ن کی شادی پر اعتراض ہی تھا تو گھمن صاحب کی تو پہلے ہی دو بیویاں تھی ۔پھر اگر اُس کو چوتھی بیوی سے رقابت تھی تو الزام دوسری پر کیوں لگایا ؟ چلے ، تھوڑی دیر کے لیے یہی کہانی بھی مان لیتے ہیں جو گھمن صاحب بیان کرتے ہیں لیکن پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سمیعہ صاحبہ کا کردار بالکل اُس عورت سا ہے جو بیچ سڑک کے اپنے کپڑے پھاڑ دیتی ہے اور شور مچا کر ایک راہ چلتے پر الزام لگاتی ہے ۔یہ سب کچھ یا تووہ تھوڑے سے پیسوں کیلیے کرتی ہے یا کسی کو ذلیل کرنے کیلئے؟

مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ خاتون کے خطوط کے بعد جو انہوں نے مختلف علماء اور دا ر ا لفتاٰء کو ارسال کئے تھے سنجیدہ اہل علم اور دار الفتاء نے اُن سے رابطہ کیا اور دوسروں نے فتویٰ دیا ۔کیا مولانا یہ بتانا پسند کرینگے کہ سنجیدہ کا معیار اُ ن کے ہاں کیا ہے یا جنہوں نے خاموشی اختیار کی وہ تو سنجیدہ ٹھرے اور جنہوں نے برات کا اعلان کیا یا فتویٰ دیا ،وہ غیر سنجیدہ ۔اگر یہی بات ہے پھر تو یہ بھی ماننا پڑے گا ۔مولانا سلیم اللہ خان حفظہ اللہ ،مولانا غلام مصطفی حفظہ اللہ اور مولانا ذرولی خان حفظہ اللہ سب غیر سنجیدہ اور کم فہم علماء کرام ہیں ۔

مولانا کی آخری بات یہ ہے کہ اِن سب کے پیچھے ایک گروہ کار فرما ہے جس کا ا،نہیں پتہ ہے مولانا کی اس بات سے اتفاق کیا جائے تو اس فسادی گروہ کے چند ناموں کا تو ہمیں بھی پتہ چل جاتا ہے جن میں سر فہرست اُن کی سابقہ بیوی سمعیہ صاحبہ ہے اور اِس کے بعد مولانا سلیم اللہ خان ،مولانا زرولی خان ،مولانا غلام مصطفی ،مولانا محمد احمد لد ھیانی ،شاہ حکیم آختر ،مولانا منیر احمد منور ،مولانا انور اُکاڑوی ،علامہ الغفار ذھبی ،مولانا محمد عالم صفدر ،مولانا عبدلشکور حقانی ،مولاناعبداللہ عابد،مولانا شفیق الرحمان،مولانامحمدرضوان عزیز،مولانامقصود احمداورمواناابوبکر اوکاڑوی شامل ہیں۔

یہ تھا مولانا کا وہ انٹرویو جس کو فتح مبین قرار دیا جا رہا ہے۔جس کا استقبال اللہ اکبر کے نعروں سے کیا گیا،خوشی کے شادیانیں بجائے گئے ،ہر جگہ شیئر کیا جانے لگا ،کمنٹس میں شیئر ہونے لگا ،کمنٹس پرکمنٹس میں دیا گیا۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کیا مولانا پر سمیعہ صاحبہ کے علاوہ بھی کسی نے کبھی اعتراض کیا ہے ؟اس سوال کے جواب میں ہمیں ایک اور نام بھی ملتا ہے جو چند سال پہلے اس فتنہ پرور گروہ کا حصہ بنا اوربد قسمتی سے وہ بھی ہمارے دیوبند سے ہی ہے۔ اس سے ایک درجہ اور بڑی بدقسمتی یہ کہ اپنے ملک میں اس کا شماربھی ا پنے ملک کے چوٹی کے علماء میں ہوتا تھا۔یہ ہے مولانا ابو بکر غازی پوریؒ ۔ یہ صاحب مولانا گھمن کی تیسری شادی سے بھی ایک ماہ پہلے دہلی میں فوت ہوئے ۔ مولانا ابو بکر غازی پوریؒ نے واضح طور پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کی مولانا گھمن باہر سے جتنے حق پرست نظر آتے ہیں حقیقت میں یہ ایسے بالکل بھی نہیں ہے پھر اِنہوں نے گھمن صاحب کے چندے میں غبن کے متعلق لکھا ہے،کہ یہ انتہائی لالچی ،خوشامدی اور اپنی بات سے صاف مکرنے والا انسان ہے اور اِس بات پر مولانا ابو محمد ایاز ملکانوی اور مولانا قاری احمد کو گواہ بنایا ہیں ۔یعنی تمام عقیدت اور احترام کے باوجود ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ گھمن صاحب کی طرف سمعیہ صاحبہ کے علاوہ بھی کئی لوگوں کی انگلیاں اُٹھ چکی ہے۔

مولانا کو ایک شکوہ یہ بھی رہا ہے کہ اِس معاملے میں اُس کا موقف کسی نے نہیں سنا لیکن حق بات یہ ہے کہ اب تک تین چار صحافی حضرات براہ راست گھمن صاحب کا موقف معلوم کر چکے ہیں لیکن کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس معاملے پر متاثرہ خاندان کا موقف بھی معلوم کر لیا جائے ۔

میں نے یہاں جتنا بھی لکھا ہے بالکل واضح اور ٹھوس چیزوں کی بنیاد پر لکھا ہے یہ سب کچھ مولانا کے انٹرویو،عدنان کریمی صاحب کی تحریر ،کلیم اللہ خان صاحب کی تحریر ،محترمہ سمعیہ صاحبہ کے خطوط اور فیض اللہ خان صاحب کی تحریرکی روشنی میں لکھا گیا ہیں ۔جو اب ہر شخص کی پہنچ میں ہے اور جس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مفتی ریحان کے مضمون کا حوالہ صرف انہیں جگہوں پر دیا گیا ہے جہاں خود مولانا گھمن نے اُس پر اعتراض کیا ہے،

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے یہاں جو کچھ لکھا ہے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے اور حق واضح ہوجائے پھر بھی اگر کسی کے دل کو تکلیف پہنچی ہو تو اِس پر معافی کاطلبگار ہوں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”الیاس گھمن سکینڈل، تحقیقی جائزہ۔۔۔۔ اسد رحمان

  1. دونوں اطراف کا موقف جاننا انصاف کا تقاضہ ہے، لیکن جو شخص بھی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتا ہے وہ مولانا کے حق اور مخالفت میں کسی تحریر کو پڑھے بغیر صرف ان کا سابقہ اہلیہ کے خط کو پڑھ کر ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی ہے۔ خاتون جس کرب سے گزری ہیں اس کا کوئی درد رکھنے والا ہی ادراک کرسکتا ہے۔ اس اسکینڈل کے ابتدائی دنوں میں ہی میں نے وہ خط پڑھ لیا تھا، جہاں تک مجھے یاد ہے اس میں الزام لگانے سے زیادہ اس پر زور تھا کہ خاتون کو آئندہ کی زندگی کیلئے رہنمائی کی ضرورت ہے۔

  2. مضمون میں پیش کیے جانے والے مواد سے قطع نظر ـ مکالمہ ــ جیسی موقر ویب سائٹ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی تن آسانی یا غفلت پر دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ مندرجہ بالا مضمون میں املا یا کتابت کی کئی غلطیاں دل مجروح کیے دے رہی ہیں
    اس ضمن میں @چیف ایڈیٹر صاحب کی خاص توجہ درکار ہیں

Leave a Reply