• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان گردوں کی خریدوفروخت کی عالمی منڈی!۔۔۔۔۔طاہر یاسین طاہر

پاکستان گردوں کی خریدوفروخت کی عالمی منڈی!۔۔۔۔۔طاہر یاسین طاہر

المیہ ہی المیہ ہے۔ سیاست ،تعلیم، صحت،کھیل،امن و امان،صحافت، عدلیہ،غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہم ہدفِ تنقید ہیں۔ہر جگہ دو نمبری ہمارا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ہماری ملکی سیاسی تاریخ الزام تراشیوں اور سیاسی مخالفین کو بزور طاقت خاموش کرا دینے کی ہے۔سیاسی آمریت ہر جماعت کا خاصا ہے۔وراثتی سیاست کے کاروبار میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔تعلیم و صحت کبھی بھی ہماری سیاسی و فوجی حکومتوں کی ترجیح ِ اول نہ رہی۔ایک زمانے میں کھیل کے میدان میںہم نے نام کمایا تھا،بالخصوص ہاکی،کرکٹ اور سکوائش میں مگر آج ہم ان تینوں کھیلوں میں بھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔کرکٹ میں جوا اور گلوز میں چرس اور منشیات لے جانے کی کہانیاں بھی دنیا ہمی سے منسوب کرتی ہے۔صحافت وعدالت محلاتی سازشوں کی نقش گری میں شریک رہی۔نظریہ ضرورت ہمار ی ملکی سیاسی تاریخ کا جلی حرف ہے۔ضرورت کے تحت عدلیہ آمریت کو بھی گوارا کرتی ہے اور نامور صحافی بھی آمر وقت کے گیت لکھتے ہیں۔ضیا کے دور میں کئی صحافی ضیائی اسلامی نظام کے نفاذ میں عوام کو گمراہ کرنے کی قلمی غلطی کا ارتکاب کرتے رہے۔اسی طرح جمہوریت کی آڑ میں ہونے والی کرپشن کو کبھی عدلیہ، تو کبھی صحافت قومی مفاد میں در گذر کرتی رہتی ہے۔تاریخ مگر قوموں کے مزاج کی نقش گری کرتی رہتی ہے۔ہمارا قومی مزاج یہی ہے کہ ہم شارٹ کٹ کے متلاشی اور رفتہ رفتہ معاشرتی برائیوں کا گڑھ بن چکے ہیں۔

زندہ معاشروں میں کمزوریوں بھی ہوتی ہیں،برائیاں بھی،کرپشن بھی ہوتی ہے کہ انسانوں پر مشتمل معاشرے میں بہت سی چیزیں ممکن ہوتی ہیں۔لیکن کرپشن،فراڈ،خود غرضی ارو قتل و غارت جس معاشرے کا ٹریڈ مارک بن جائے اس معاشرے کی بقا کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اخبار نویس کا کام مایوسی پھیلانا نہیں ہوتامگر زمینی حقائق سے نظریں چرانا بھی صحافتی بد دیانتی ہے۔انسانی اعضا کی پیوند کاری کے لیے دنیا بھر اور بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں گردوں کی خریدوفروخت کاگھنائونا کاروبار کیا جاتا ہے۔اس غیر قانونی اور غیر انسانی کاروبار کا 85فی صد پاکستان میں ہوتا ہے ، اس میں بڑے بڑے سیاستدان اور ہسپتال ملوث ہیں۔ یہ افسوس ناک اانکشاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط میں رکن قومی اسمبلی بابر نواز نے کیا رکن قومی اسمبلی کے مطابق’’ پاکستان میں 40 ہزار روپے کا گردہ خریدنے والے ایک غیرملکی ارب پتی نے کہا کہ گردہ بیچنے والی لڑکی شکر ادا کرے کہ اسے پیسے مل گئے، اب وہ چھ ماہ ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ بابر نواز نے مزید کہا کہ انہیں اس معاملے میں نہ پڑنے پر بلٹ پروف گاڑی اور دو کروڑ روپے رشوت کی پیش کش کی گئی۔کمیٹی رکن کا مزید کہنا تھا کہ اعضا کے غیرقانونی کاروبار کے خلاف نئے قانون میں ملوث ہسپتال پر پانچ کروڑ روپے جرمانہ جبکہ ڈاکٹروں اور انکے اہل خانہ کے اثاثے ضبط کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔‘‘بے شک یہ تجاویز اچھی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ملک میں قانون بھی موجود ہے اور ادارے بھی۔ اس کے باوجود جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی اور پشت بانی ہو رہی ہے اور یہ کام با اثر افراد ہی کرتے ہیں۔ سیاسی و کاروباری اشرافیہ۔جن کا ہدف صرف پیسہ اور شہرت ہے۔ انسانی وقار یا انسانی جان ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔اکتوبر 2014میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مہنگی اور دو نمبر ادویہ فروخت کرنے والے ایشیائی ممالک میں پاکستان پہلے نمبر پر آگیا ہے، المیہ یہ ہے کہ مہنگی اور جان بچانے والی ادویہ میں جعل سازی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔غیر قانونی وغیر انسانی کاروبار میں ملوث مافیا یہ کام کر ہی نہیں سکتا جب تک اس کے ساتھ ماہر ڈاکٹرز اور با اثر بیوروکریٹ نہ ملے ہوئے ہوں۔کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ہسپتالوں میں گردے چوری کرنے اور زبردستی گردے نکالنے کے واقعات اور غیر قانونی پیوند کاری کا کاروبار بھی جاری ہے۔کچھ ماہ پہلے بچوں کے اغوا کی کہانیاں اخبارات میں لیڈنگ سٹوری کے طور پر شائع ہورہی تھیں،کہا جاتا ہے ان بچوں کے گردے نکال کر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔کچھ سال پہلے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے ممتاز معالج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کہاتھا کہ مجھے شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گھنائونے کاروبار میں ہمارے ڈاکٹرز بھی شریک ہیں۔چند سال قبل لاہور میں پولیس نے تین نجی ہسپتالوں پر چھاپے مار کر اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ کو گرفتار کر لیا تھا۔چھاپے کے دوران لیبیا سے گردے ٹرانسپلائٹ کروانے کے لیے ایک خاندان آیا ہوا تھا جبکہ کچھ اور غیر ملکی بھی، جنھوں نے بتایا تھا کہ ان سے فی کس سترہ ہزار امریکی ڈالر وصول کیے گئے ہیں۔گردے بیچنے والے کو کیا ملتا ہے؟؟ پچیس سے تیس ہزار۔اس گھنائونے کاروبار کے خلاف ٹرانسپلانٹ سوسائٹی آف پاکستان کے علاوہ سول سوسائٹی کی بعض سرگرم تنظیموں نے غالباً2012 سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی تھی اور اس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ ٹرانسپلانٹ کے قانون پر پوری طرح عمل درآمد کروایا جائے۔ سپریم کورٹ نے تمام صوبائی حکومتوں کو اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے جولائی2010 میں ایک حکم بھی جاری کیا تھا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں احکامات کو ہمارا مافیا کس طرح روند کر اپنے خطرناک اہداف حاصل کر لیتا ہے۔صوبہ پنجاب اس حوالے سے عالمی میڈیا میں زیادہ رپورٹ ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے شک المیہ ہماری زندگیوں کے تعاقب میں ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے گلوبل ٹریول اینڈ ٹورازم رپورٹ کے تحت دنیا کے سب سے زیادہ پرامن اور غیر محفوظ ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں فن لینڈ پر امن ممالک میں سر فہرست ہے اور پاکستان کا پرامن ممالک میں 138 واں نمبر ہے جبکہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو چوتھے نمبر سے نوازا گیا ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے حوالے سے پاکستان میں بچوں کی اموات کی شرح 35 فیصد ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں صحت کا بجٹ انتہائی قلیل ہے جس کا بڑا حصہ کرپشن اور بد انتظامی کی نذر ہوجاتا ہے۔پاکستان میں تعلیم کی کمی اور غربت کے باعث لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مجبور ہیں اور عالمی مافیا انسانوں کی اس مجبوری سے بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔سستے اور آسانی سے گردوں کی دستیابی کے باعث دنیا بھر سے لوگ پاکستان میں کڈنی ٹورز کر رہے ہیں۔کئی دیگر وجوہات کے علاوہ یہاں با اثر سیاستدان اور ماہر ڈاکٹرز بھی اس گھنائونے کھیل کا حصہ ہیں ،جس کے باعث مجرموں کو بڑی حد تک احسا س تحفظ رہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے اس حوالے سے سخت ترین قوانین بنائے جائیں ، ملک ،اور انسانیت کے نام پر دھبہ بننے والے کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے سخت ترین سزائیں دی جائیں۔حکومتیں روزگار کے مواقع پیدا کریں اور ڈاکٹرز حضرات کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ جب بھی گردے کا ٹرانسپلانٹ کرنے لگیں تو اس کی رپورٹ پارلیمان کی کمیٹی کو کریں تا کہ کہیں تو چیک اینڈ بیلنس ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply