چھوٹے خان صاحب ،بڑے خان صاحب۔۔۔ مقبول حسین بلوچ

ماہ ِجون کی ایک دوپہرسورج آسمان سے آگ برسا رہا تھاایک ادھیڑعمر شخص اپنے جواں سال بیٹے کے ہمراہ سائیکل پر سوار اپنی منزل کی طرف گامزن تھا گیلے وال شہر کے وسطی چوک پر موجود ایک چھوٹے سے ــ’ـ’ڈرنک کارنر‘‘کے سامنے سائیکل کھڑی کی۔ دونوں باپ بیٹا دو گلاس جوس آرڈر کرنے کے بعد اندر موجود کرسیوں پر بیٹھ گئے۔دونوں ہی پسینے میں شرابور تھے جن کو دیکھ کے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ سائیکل سوار کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں۔بار بار وہ کسی بڑے خان صاحب چھوٹے خان صاحب کا ذکر کر رہے تھے چونکہ جنوبی پنجاب سرداروں،وڈیروں،جاگیردارں کی سرزمین ہے بیک وقت تمام خان صاحبان کی ناراضگی مول لینے سے بہتر ہے وضاحت کر دی جائے ۔جس چھوٹے خان صاحب کا یہ لوگ ذکر کر رہے ہیں وہ ایک سابق یونین ناظم ہیں بڑے خان صاحب ایک سابق ممبر قومی اسمبلی ہیں دونوں کی آپس میں محبت سمجھ لیں یا قسمت کی مہربانی دونوں کے نام سے پہلے اب سابق ہی لکھا جاتا ہے۔

کافی دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ محوِگفتگو رہنے کے بعدجیسے ہی ان کی گفتگو میں وقفہ ہواتو وہ شخص میری طرف متوجہ ہوا ۔رسمی سلام دعا کے بعد اس شخص نے خود ہی اپنی کہانی بیان کرنا شروع کر دی،سنا ہے بڑے خان صاحب کے پاس درجہ چہارم کی سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ آیا ہوا ہے میرے بیٹے نے بی۔اے کا امتحان پاس کر لیا ہے اب ہم چھوٹے خان صاحب کے پاس جا رہے ہیں وہ فون پر بڑے خان صاحب کو ہماری نوکری کی سفارش کریں گے ۔
ہم غریب لوگ ہیں چپڑاسی،چوکیدار،بیلدار،خاکروب ہو سکتا ہے کوئی نوکری مل جائے ویسے بڑے خان صاحب کے ہماری برادری پر بہت احسانات ہیں کوئی فوتگی ہوجائے نمازے جنازہ پر ضرور پہنچتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو میت کے ساتھ قبرستان تک بھی جاتے ہیں،ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں ہمارا ایک رشتہ دار نہر کے کنارے سرکاری درخت چوری کر رہا تھا پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیاچھوٹے خان صاحب سے رابطہ ہوا انہوں نے فوراََبڑے خان صاحب کانمبر ملایاپھر کیا کہنے بڑے خان صاحب خود تھانے چل کر آگئے ایس۔ایچ۔او کو کہا تمہاری اتنی ہمت کہ تم ہمارے بندے کو پکڑو میں تو اسی دن بڑے خان صاحب کی طاقت کو مان گیا تھا ۔ضلع کا کوئی پٹواری ،تحصیل دار، تھانیدار،کسی بھی محکمہ کا کوئی ایسا افسر نہیں جوخان صاحب کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو سکے ،اور تو اور اگلے دن ہماری بستی کا بجلی کا ٹرانسفارمر جل گیاپہلے سب نے کہا پیسے جمع کر کے اسے پرائیویٹ الیکٹریشن سے مرمت کرواتے ہیں لیکن پھر کسی نے بڑے خان صاحب کو فون کردیابڑے خان صاحب کی پہنچ کا تو پھر آپ کو پتا ہی ہے ۔انہوں نے اسلام آباد بجلی کے وزیر کو فون کیادو دن بعد ہمارا ٹرانسفارمر تبدیل ہو گیابلکہ جب ٹرانسفارمر تبدیل ہو رہا تھا بڑے خان صاحب خود ہماری بستی تشریف لائے اور اپنی موجودگی میں واپڈا والوں کو ہدایت کی کہ اچھی طرح لگا کر جانا پھر شکایت نہیں آنی چاہیے۔

ہماری تو پوری بستی خان صاحب کے گن گا رہی تھی کس طرح انہوں نے دو دن میں ٹرانسفارمر تبدیل کروا دیا۔خان صاحب بہت ہی سادہ آدمی ہیں ۔ پچھلے مہینے میرا بھتیجا اور دو تین لوگ اور بڑے خان صاحب سے ملنے ان کے ڈیرے پرگئے ،کام کیا تھا بس خد ا بھلا کرے ڈی،پی،او کا بہت سخت ہے ہمارے لوگ ہر سال ہی کتوں کا دنگل کرواتے ہیں خان صاحب کو بھی پتا ہے لیکن اس سال سر پھر ے ڈی،پی،او نے کہا یہ غیر قانونی ہے ۔اگر کسی نےکتوں کی لڑائی کروائی تو اس کے خلاف سخت ایکشن ہو گا ۔خان صاحب کو جب ہم نے ساری صورتحال بتائی تو انہوں نے کہایہ پولیس افسر ابھی نیا نیا آیاہے اسے ہماری پہنچ کا پتا نہیں تم دنگل رکھو میں خود آؤں گا دیکھتا ہوں تمہیں کون روکتا ہے ،ابھی گپ شپ ہو ہی رہی تھی اللہ رکھے سے خان صاحب نے کہا یار ایک سگریٹ تو دو کہا ںبڑے خان صاحب کہاں اللہ رکھا ایسے بڑے لوگوں کو بھلا سگریٹوں کی کوئی کمی ہے یہ تو بس ان کی سادگی ہے کبھی غریب امیر میں فرق نہیں کرتے اللہ رکھا جہاں بھی جاتا ہے یہ واقع سب کو سناتا ہے وہ تو اب بڑے خان صاحب کا پکا ووٹر ہے خان صاحب کا بھی تو اس پہ احسان ہے خود دنگل میں چل کر آئے،اور اسے ہزار روپے انعام بھی دیا،بڑے خان صاحب کی ساری کرامات گنوانے کے بعد و ہ صاحب ایک بار پھر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوگیا اور میں کافی دیر وہاں بیٹھا سوچتا رہا کہ جس علاقے کے لوگ اس قسم کی سوچ رکھتے ہوں پھر وہاں وڈیروں اور جاگیرداروں کا بار بار منتخب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔جنوبی پنجاب کے جس بھی ضلع میں چلے جائیں آپ کو چھوٹے خان صاحب ،بڑے خان صاحب اور اللہ رکھا جیسے کرداروں سے ضرور واسطہ پڑے گا۔ہر چند کلومیٹرکے فاصلے پر آپ کو کسی چوہدری صاحب،پیرصاحب،بلوچ صاحب،کانجوصاحب،ملک صاحب،گیلانی صاحب،قریشی صاحبان کے ڈیرے ملیں گے۔اللہ کے فضل وکرم سے آدھے سے زائد خاندان کے لوگ سیاست کو عبادت سمجھتے ہوئے اسمبلیوں کی زینت ہوں گے عبادت بھی ایسی جو صرف مخصوص خاندانوں کے افراد پرہی فرض ہے اگر کوئی غریب عبادت کا سوچ بھی لے تو کافر ٹھہرے،نسل در نسل چلنے والی وڈیرہ شاہی نے اس علاقے کو غربت اور جہالت کا تحفہ دیا ہے،یہی دو چیزیں ہیں جو اس نظام کی بقا کی ضامن ہیں۔اگر آپ ترقی یافتہ ممالک کی سیاست اور طرزِحکمرانی کا مطالعہ کریں تووہاں آپ دیکھیں گے عملی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے نوجوانوں میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے کئی کئی سالوں تک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں محنت کی جاتی ہے،ان میں خوداعتمادی،فیصلہ سازی،پالیسی سازی،دستور سازی سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور پرمکمل عبور حاصل کرنے کے بعد ہی انہیں انتخابات میں حصہ لے کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا موقع دیا جاتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں جاگیرداروں اور وڈیروں کی جو اولادیں تعلیم اور ذاتی کاروبار میں مطلوبہ نتائج نہیں حاصل کر پاتیں انہیں الیکشن لڑوا کر اسمبلیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنوبی پنجاب کے تھانے ہی ہمارے لیڈروں کی درسگاہیں ہیں جو سیاست دان پولیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے وہی اچھا لیڈراور پھر پنجاب پولیس نے بھی جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں کی غلامی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔اگر آپ کو موقع ملے تو پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ افسران سے ملیں عمر کے آخری حصے میں درجن سے زائد بیماریوں سے لڑتے موت کے خوف میں مبتلا یہ لوگ آپ کو سچ بتائیں گے کہ کس طرح ان جاگیرداروں نے ان غریب خاندانوں کے نوجوانوں کی چھوٹے چھوٹے جرائم میں سرپرستی کر کے انہیں جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بناکر اپنے اپنے علاقوں میں خوف کی علامت بنا دیا چاہے وہ شجاع آبادمیں اپنے بیٹے کے ہمراہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والارمضان عرف مانا لنگاہ ہو یا بوسن گینگ کے ظفر بوسن اور طارق بوسن ِ،منیر دھول،یا پھر جلالپور کی دو بلوچ خاندانوں کے درمیان جاری لڑائی جو دونوں طرف سے دو درجن سے زائد لوگوں کی جان لے چکی ہے اور اتنی ہی تعداد میں لوگ جیلوں میں ہیں۔ اس دشمنی نے بھی دو بدنام زمانہ جرائم پیشہ گروہوں کو جنم دیاہے جو ابھی تک خوف کی علامت ہیں۔ کچے کے علاقے میں پناہ لینے والے چھوٹو گینگ کے سرغنہ غلام رسول چھوٹو جس کے خلاف فوج کو آپریشن کرنا پڑا لیکن اس گروہ کی سرپرستی کرنے والے راجن پور کے سردار جن کے گھروں میں کروڑوں روپے کی رقوم جاتی تھیں تمام تر ثبوتوں کے باجود بھی ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی کیونکہ ان کا تعلق برسراقتدار جماعت سے ہے ان کے خلاف کاروائی کا مطلب جمہوریت کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔اس گینگ کے سرغنہ سمیت کافی لوگ اس وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہیں جن کے انکشافات کے بعد بہت سے پنجاب پولیس کے افسران روپوش ہو گئے ہیں بلکہ ایک صاحب تو کچھ روز قبل ہی ملتان ائرپورٹ کے ذریعے ایران روانہ ہوئے ہیں دوسری جانب پنجاب کے خادمِ اعلیٰ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فرماتے ہیں کالعدم مذہبی تنظیموں اور جر ائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں خفیہ ادارے رکاوٹ ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے چند وزیر اور جاگیردار طبقہ جو پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا مخالف ہے وہی لوگ ان گروہوں کے خلاف کارروائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب تک برسراقتدار جماعت کے چھوٹے خان ، بڑے خان اور اللہ رکھا جیسی سوچ رکھنے والے لوگ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اسوقت تک ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply