محبت اور ہراساں کرنے میں فرق ۔۔۔ نجم ولی خان

میں نے ڈھیروں انگریزی، اردو اور پنجابی فلمیں دیکھی ہیں جو سرحد کےِ اس پار کی بھی ہیں اور سرحد کے اُس پار سے دنیا بھر کی بھی، میں ایسے اداروں میں رہا ہوں جہاں خواتین بھی مردوں کے ساتھ ساتھ وہاں ٹوئینٹی فور سیون یعنی دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن اکٹھے کام کرتی ہیں ، میں نے بہت ساری خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی شکایت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میرا سوال ہے کہ مرد کے کسی عورت سے محبت کرنے اور اسے ہراساں کرنے میں فرق کیا ہے۔ہم سب محبت کی ا س وقت تک پاکیزہ جذبہ سمجھتے ہیں جب تک ہماری اپنی فیملی میں کوئی لڑکی یا لڑکا محبت کی بنیاد پر شادی کی خواہش کا اظہار نہیں کردیتا۔ تب ہماری انکھیں اور منہ پوری طرح کھل جاتے ہیں حالانکہ شادی میں پسند ناپسند کا اختیارہمارے مذہب نے ساڑھے چودہ سو برسوں سے ماننے والوں کو دے رکھا ہے۔

فلمیں آپ نے بھی دیکھی ہوں گی اور شاعری کی بہت ساری کتابیں آپ کے بھی زیر مطالعہ رہی ہوں گی۔ یہ فلموں اور شاعری میں کس قسم کی محبت ہوتی ہے، جی ہاں ، بہت ساری شاعری ماں اور وطن سے محبت میں بھی ہوتی ہے مگر شاعری میں ایک محبوب ہوتا ہے یا ایک محبوبہ ہوتی ہے۔ کیاآپ جس کے اشعار پڑھ پڑھ کے محظوظ ہوتے ہیں اس غزل کا لفظی مطلب ہی عور ت سے باتیں کرنا ہے، چلیں، میں ہندوستان میں بنی ہوئی ایک فلم کا حوالہ دے دیتا ہوں جو میں نے بھی بار بار دیکھی ہے، یش چوپڑہ اور آدتیہ چوپڑا کی آج سے بائیس، تئیس برس پہلے بنائی گئی فلم ’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ میں شاہ رخ خان، کاجول سے محبت کررہا ہوتا ہے یا اسے ہراساں کر رہا ہوتا ہے۔ کاجول اس وقت تک ہراساں ہوتی ہے جب تک وہ خود شاہ رخ خان کی محبت کا شکارنہیں ہوجاتی، جونہی وہ رضامندہوتی ہے اس کے بعد شاہ رخ خان کا ایک طالبہ کو ہراساں کرنا محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے،وہ اس کے گھر تک پہنچ جاتا ہے، یہ رضامندی ایسی شے ہے جو ولن کو ہیرو میں بدل دیتی ہے۔

عورت اورمرد کی جسمانی ساخت میں فرق ہے مگر بہت زیادہ نہیں اور ان کی ضروریات میں فرق تو اس سے بھی کہیں کم ہے کہ دونوں انسان ہیں اور قدرت میں دونوں کی تخلیق میں ایک ہی فارمولا رکھا ہے تو پھر یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ مرد عورت کو ہراساں کرتا ہے مگر عورت ایسا کچھ نہیں کرتی۔ میں معاشرتی علوم کے طالب علم کے طور پر پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جہاں مرد عورتوں کو ہراساں کرتے ہیں وہاں عورتیں بھی مردوں کو ہراساں کرتی ہیں مگر بنیادی فرق یہ ہے کہ جن پیغامات پر مرد زیادہ تر مسکراتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں خواتین کو ان کی سماجی اور معاشرتی حیثیت کی وجہ سے قیمت چکانی پڑتی ہے۔ہمارے سماجی نظام میں مرد کومضبوطی اور بولڈ نیس کا اظہار سمجھاجاتا ہے حالانکہ دوسری طرف بہت ساری خواتین مردوں سے زیادہ مضبوط اور بولڈ ہوتی ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کے دور میں خواتین کے تحفظ کے لئے قانون سازی ہو رہی تھی تو اس میں جنسی ہراسگی کے معاملے پر پہلے صرف عورت کا ذکر کیا گیا اور اس کے بعد اس کو تبدیل کرتے ہوئے قانون کو صنف کی تخصیص سے بالاتر کر دیا گیا۔ ابھی اس حوالے سے بنائی گئی وفاقی محتسب کشمالہ طارق نے بتایا ہے کہ ان کے ادارے کے پاس مردوں کی شکایات بھی آ رہی ہیں۔ ایک مرد بھی ایسا ہوسکتا ہے جو فلم دیکھتے ہوئے جذباتی مناظر پر روہانساہوجائے اور دوسری طرف ایک عورت بھی ایسی ہوسکتی ہے جو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے سگریٹ پی رہی ہو۔میں امید کروں گا کہ میری اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جائے گا کہ تمام خواتین بدکردار ہوتی ہیں مگر اتنی ضرور درخواست کروں گا کہ تمام خواتین کومعصوم عن الخطا بھی نہ سمجھا جائے۔ فرق اتنا ہے کہ مرد اسے کھیل سمجھ سکتا ہے کہ اسے اس عمل کی قیمت نہیں چکانا پڑتی مگر عورت اس کو نسبتا سنجیدگی سے لیتی ہے کیونکہ اس کے لیے اس کے جذباتی، معاشرتی اور جسمانی اثرات کہیں زیادہ ہوتے ہیں ، جی ہاں،مرد خواتین کی نسبت تعلقات کی دعوت زیادہ دیتے ہیں جبکہ خواتین بوجوہ مردوں سے زیادہ انکار کرتی ہیں مگر ہراچھے اور برے تعلق میں بہرحا ل ایک مرد ہوتا ہے اور ایک عورت ہوتی ہے جس کی بنیاد عورت کی ’ ہاں‘ ہی ہوتی ہے۔

ہمارے کچھ بزرجمہروں کا موقف ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنے کی رفتار اور تعداد دوسرے معاشروں سے کہیں زیادہ ہے مگر میرا کہنا ہے کہ یہ رفتار نہ تو دوسروں سے تیز ہے اور نہ ہی تعداد دوسرو ں سے زیادہ۔ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور وہاں کے یونین منسٹر ستیا پال سنگھ نے گذشتہ مہینے لوک سبھا میں داخل کئے گئے ایک تحریری جواب میں بتایا ہے کہ 2016 کے مقابلے میں 2017 میں تعلیمی اداروں میں ہراساں کئے جانے کے معاملات میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔ اب یہ فرق بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ واقعات ہونے اور واقعات کے رپورٹ ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھارت جو کہ آئین میں دئیے گئے مبینہ سیکولرازم کی وجہ سے ہمارے معاشرے سے کچھ کھلا ڈُلا سمجھا جا سکتا ہے وہاں بھی گذشتہ برس مجموعی طو ر صرف نو سو ایک کیس رپورٹ کئے گئے۔ کیا میں اور آپ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ سوا ارب سے زائد کی آبادی میں، پورے برس میں، صرف نو سو ایک ایسے واقعات رونما وئے ہوں گے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ایسے تعلقا ت کے بہت زیادہ معاملات، اقرار یا انکار ہر دوصورت میں، رضامندی کے ساتھ طے پاجاتے ہیں اورمعاملہ صرف وہاں بگڑتا ہے جہاں مرد کی طرف سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یا عورت کی توقعات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سب انسان ہیں، ہمارے سامنے ہمارے مذہب اور معاشرے کے اخلاقی قواعد و ضوابط موجود ہیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ہم مذہبی ضابطوں سے لے کر ریاستی قوانین تک اس کمبل کے طور پر محض ضرورت کے طور پر ہی استعمال کرتے ہیں اور جہاں ضرورت اور خوف موجود نہ ہوں وہاں اسے اتار پھینکتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ مردوں کو خواتین کے مرضی کے لباس پہننے اور انداز اختیار کرنے کے حق کو تسلیم کرنا ہو گا مگر ہمیں انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ بھی ماننا ہو گاکہ خواتین کے لباس اورگفتگو کے انداز میں بھی غلط فہمی پیدا کرنے والے جراثیم چھپے ہوتے ہیں۔ یہ فطری تقاضوں کی نفی ہوگی جب آپ ایک عورت کو ایک مرد کے ساتھ چپک کے الٹے سیدھے لباس میں تصویریں بنوا نے کو معصومیت قرار دیں گے۔آپ مانیں یا نہ مانیں، تنازع صرف اور صرف رضامندی کا ہے۔ اگر عورت اورمردمذہبی ضوابط اور ریاستی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے آپس میں کسی بھی جائز یا ناجائز رشتے کے لئے تیار ہیں تو یہ محبت ہے لیکن اگر کسی ایک طرف سے بھی رضامندی نہیں ہے تو پھر یہ ہراساں کیا جانا ہے۔فعل اپنے طریقے ، انداز اور نتائج میں ایک ہی ہے مگر اس کے مسئلہ بننے میں سوال مفعول کے ردعمل کا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ بھی آزما کے دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply