میری اپنے ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو خود کو ایک اعلی پائے کا تاریخ دان ، مفتی ، معلم اور ایک اچھا تبصرہ نگار سمجھتے ہیں اور میں اکثر نا چاہتے ہوئے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا ہوں کیوں کہ اختلاف کی صورت ایسے ایسے دلائل سننے کو ملتے ہیں کہ میرا سر چکرا جاتاہے۔
ہوا یہ کہ ہم بیٹھے تھے اور مجھے فیس بک پر بار بار نوٹیفکیشن آرہے تھے، تو حضرت فرمانے لگے کہ بہت میسج آتے رہتے ہیں تجھے. میں نے کہا میسج نہیں، فیس بک کے نوٹیفیکیشن ہیں۔ ارشاد ہوا، تمہارے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے، تم نے کو نسا سن لینی میری .. میں نے کہا، خیریت کیا ہوا ایسا ؟ کہنے لگے، تم فیس بک استعمال کرتے ہو، تمہیں پتا ہے کتنی بری چیز ہے یہ ؟ میں نے کہا، مجھے تو اچھی لگتی ہے، برائی کیا ہے اس میں ؟ کہنے لگے میں ایک سال پہلے چھوڑ چکا ہوں فیس بک، تھوڑا عرصہ استعمال کی تھی میں نے اتنی بے حیائی ہے اس میں ۔ میں نے اپنی فیس بک ان کے آگے کی کہ دیکھتے جائیں جہاں بے حیائی دیکھیں بتاتے جائیں. خیر انہیں کچھ نا ملا تو شاعری کی پوسٹس شو ہو رہیں تھیں لڑکیوں کی فوٹوز کے ساتھ کہنے لگے یہ بے حیائی ہی ہے اور میں خود اور اپنے گھر کی لڑکیوں کو کبھی فیس بک استعمال کرنے کی اجازت نہیں دوں گا. یہ انگریزوں کی ایجاد ہے اور وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں. اس سے ہماری لڑکیوں کو نئی نئی باتیں سوچنے کو ملتی ہیں اور وہ چادر اور چاریواری کا تقدس پامال کرتی ہیں. ہم نے انگریز کی پیروی شروع کر دی تو ہمارا یہ حال ہے. ہمیں ایک چیز جب غیر اسلامی لگتی ہے، پھر بھی اس کا استعمال نہیں چھوڑتے۔ اس موضوع پہ ایک مکمل تقریر کی انہوں نے.
یاد رہے میرے وہ دوست ہر سال صرف عید کے موقع پر مسجد شریف میں سالانہ تبرک کے لیے جاتے ہیں بس. اور نماز سے کافی پرہیز ہی کرتے ہیں. باقی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کافی جذباتی ہیں. خیر میں نے بات گول مول کر کے ختم کی اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر کے خیریت سے الوداع کیا .
اس میں میرے پیارے دوست کی غلطی نہیں، ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر چیز کو تنگ نظری سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں. ہمیں یہ لگتا ہےکہ مغرب ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑاہوا ہےاور بس! انگریز کو نیند نہیں آتی کہ کسی طرح پاکستانیوں کو ختم کر دیں. اسی سلسلے میں ہم اپنے مخالف سیاست دان کی مقبولیت کو روکنے کے لیے جیسے عمران خان پر اسرائیل کا ایجنٹ اور نوازشریف پر انڈیا کا غلام ہونے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ عوام احساس کمتری کے اس لیول پر ہیں کہ انھیں خوف ہے اپنے اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کے مستقبل کا. ہمارے سوچ بن چکی ہے کہ ہم کسی سے ملتے ہیں یا کوئی بھی چلتے پھرتے نظر آتا ہےتو اس کا سر سے پائوں تک جائزہ لیتے ہیں کہ کتنے فیصد مومن ہے. اس کے ایمان کا تجزیہ داڑھی سے شروع ہوتا ہے، مونچھوں سے سر کی ٹوپی تک اور وہاں سے کپڑوں پر ہوتا ہوا جب پائوں پر پہنچتا ہےتو پکا مومن ہونے کے باوجود 50/50 چانس ہوتے ہیں ایمان کے امتحان میں پاس ہونے کے . کیوں کہ اگر پائنچے ٹخنوںسے اوپر تو بریلوی کے لیے وہ گمراہ اور اگرٹخنوںسے نیچے تو پھر دیوبندی اور وہابی کے لیے وہ گمراہ.
ایسے ہی فارمولے ہم فیس بک پر عموماً استعمال کرتے ہیں، تین، چار اسلامی پوسٹس کرنے والے کو ہم مفتی سمجھ لیتےہیں اور صنف نازک کی ایک تصویر بھی پوسٹ کرنے والے کے سارے فیس بکی اعمال ہماری نظر میں ملیا میٹ ہو جاتےہیں۔ ایک اسلامی پیج وزٹ کر کے جہاں ہمارے منہ سے ماشاء اللہ کی صدائیں بلند ہوتی اور ایمان کی تازگی میں انگریز کو بھول جاتے ہیں، وہی ایک بالی وڈ یا ہالی وڈ کا پیج نظر آ جائے تو استغفار کے ساتھ انگریز کو لعنتیں بھیجنے لگتے ہیں۔
ایمان کی حفاظت فیس بک سے دور بھاگنے سے نہیں ہوتی اور نا کبھی فیس بک اسلامی جمہوریہ فیس بنے گی بلکہ فیس بکی بن کر فیس بک کے مثبت استعمال کی روایت ڈال کر اپنی اآئندہ نسل کو سیکھانا ہے کہ فیس بک صرف لڑکیوں کو انباکس کرنے کے لیے نہیں بنی بلکہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جہاں سیکھنا اور سکھایا جانا نہایت آسان ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں