منزل نہیں، رہنما چاہیے ۔۔۔۔ رضوان جمیل

جیسے ہر مضمون کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں، اسی طرح سیاست کی بھی اپنی اصطلاحات  ہیں اور کوئی بھی نعرہ محض ایک نعرہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک داستان ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چند ہفتے قبل فاروق ستار کی بظاہر دھماکہ خیز پریس کانفرنس میں انہوں نے بڑا زور دے کر کہا کہ “ہم ہی ایم کیو ایم ہیں اور ایم کیو ایم ہم ہیں”۔ اس بات پر اتنا زور انہوں نے اس لئے دیا کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ الطاف حسین ہی ایم کیو ایم ہے اور ایم کیو ایم لطاف حسین ہے۔ پھر اگلی ہی سانس میں الطاف حسین کو قائدِ تحریک کہہ کر انہوں نے اپنے کارکنان کو یہ یاد دلایا کہ جب تھوڑی دیر پہلے رپورٹرز کے اصرار کے باوجود انہوں نے ‘پاکستان زندہ باد’ کا نعرہ نہیں لگایا تو اتنی بڑی پریس کانفرنس بغیر اپنے قائد کی مرضی کے کیسے کر سکتے ہیں۔

درحقیقت فاروق ستار بھی الطاف حسین ہیں اور واسع جلیل بھی الطاف حسین ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ واسع جلیل الطاف حسین کے اس جلال کا نام ہے جس کا مظاہرہ وہ دورانِ تقریر کرتے ہیں اور فاروق ستار اس معافی نامہ کا جو اگلے روز جاری کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چاہے کتنا بھی بڑا شخص کیوں نہ ہو وہ اکیلا معاشرہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا اور لازمی طور پر جتنا وہ معاشرہ پر اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے، معاشرہ اس سے زیادہ اس پر اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے۔ کامیاب سیاست دان معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے مگر وہ اپنی سکت اور حکمت عملی کے حساب سے اپنے چاہنے والوں کو سنبھالتا ہے۔ الطاف حسین کی کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں بول دیتے ہیں جو گلی کے لڑکے سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بقیہ پارٹی اس کو ریاست کی مناسبت سے کپڑے پہنانے کا کام سرانجام دیتی ہے۔

یہ بات شاید کراچی سے باہر بیٹھے قارئین کی سمجھ میں اتنی آسانی سے نہیں آئے گی مگر یہ اتنی مشکل بات بھی نہیں۔ کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا کہ آخر کیوں کراچی کے عوام الطاف حسین سے خوش مگر پارلیمانی لیڈروں سے ناراض رہتے ہیں جبکہ ریاست پارلیمانی لیڈروں سے خوش اور الطاف حسین سے ناراض رہتی ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو ایم کیو ایم ہی نہیں کراچی کی نفسیات بھی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آیا ریاستی ادارے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاست اور کراچی کے عوام کے درمیان تضاد بڑھتا جا رہا ہے یا پھر وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ایم کیو ایم ایک عرصہ سے اس تضاد کو فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہونے سے روکے ہوئے ہے۔

لگتا یہ ہے کہ ریاست اپنی طاقت کے نشے میں بدمست یہ سوچ رہی ہے کہ وہ کراچی حیدرآباد کے تمام عوام سے لڑ سکتی ہے کیونکہ اگر آپ الطاف حسین کو خاموش کرا دیں گے تو گلی کا لڑکا اپنے ذہن کی بات کو خود بولنا شروع کر دے گا اور ایسی صورتِ حال میں ایک کی جگہ کئی الطاف حسین پیدا ہو جائیں گے اور جن کو سنبھالنے کے لئے کوئی رابطہ کمیٹی بھی نہیں ہو گی۔ اب اسی کی مناسبت سے ایک اور نعرے پر غور فرمائیں جس پر ہم سب کو ہی اعتراض ہے اور اس کی ایک تشریح جو فاشزم کے حوالے سے کی جاتی ہے اس پر تو سب کی نظر ہے مگر دوسری تشریح پر ہم سب کا دھیان نہیں جاتا۔

“ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے” ایک ایسا نعرہ ہے جس کی تُک سمجھنا نہایت ہی مشکل ہے لیکن پھر بھی وہ ایم کیو ایم کا بنیادی نعرہ ہے۔ کوئی پوچھے صاحب، منزل تو آپ کو چاہئے نہیں پھر رہنما کا کیا کیجئے گا؟ واحد مطلب جو اس نعرے کے الفاظ سے اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں رہنما لے جائے بس وہی ہماری منزل ہے۔ لیکن اگر ہم اس کے مکمل سیاق و سباق کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب مہاجر قومی موومنٹ نے قومی دھارے کی سیاست میں داخل ہونے کے لئے متحدہ کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا تو کچھ باغی پیدا ہوئے جن کے مطابق ایم کیو ایم اپنی اصل منزل سے دور جا رہی ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ایم کیو ایم حقیقی وجود میں آئی اور لفظ حقیقی بھی اسی داستان کا پتہ دیتا ہے۔

بہرحال یہ نعرہ ایم کیو ایم کے اس تمام جوڑ توڑ اور ریاست و حکومت کے ساتھ مفاہمت کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے جو ایم کیو ایم اب تک کرتی آئی ہے۔ مگر وہ جسے آپ بے وقت کی راگنی اور نشہ کا اثر سمجھتے ہیں، دراصل وہ جارہانہ تقاریر ہی مہاجروں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ رہنما رہا تو کوئی نہ کوئی منزل کبھی نہ کبھی مل ہی جائے گی۔ لہٰذا مائنس ون آپ کے لئے ایک الطاف حسین کو مائنس کرنا ہے یا ‘مائنس رہنما’ ہے مگر کراچی کی اکثریت کے لئے یہ ‘مائنس منزل’ فارمولا ہے۔ جیسے جیسے آپ نے الطاف حسین کو کمزور کرنا شروع کیا ویسے ویسے عوام کو اپنی منزل کی فکر لاحق ہونا شروع ہو گئی۔ اس فکر کو سنبھالنے اور ایسے موقع تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کہ لوگ ایم کیو ایم پر ہی اعتماد کرنا چھوڑ دیں، الطاف حسین مزید سخت باتیں کرنا شروع ہو گئے۔

بات صرف ایم کیو ایم کی ہوتی تو معاملات شاید اتنے خراب نہ ہوتے مگر جس تیزی سے کراچی کی زمینوں پر فوجی اداروں کے بورڈ آویزاں ہونے شروع ہوئے ہیں اور بکرا منڈی سے لے کر پلاٹوں کے کاروبار میں سرحدی حدود کی حفاظت کرنے والے شامل ہوتے گئے تضادات مزید بڑھتے گئے۔ سونے پر سہاگہ سندھ گورنمنٹ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی کے بچے کھچے اداروں پر بھی قبضہ کر لیا اور یوں کراچی والے اپنے ہی شہر میں ایسے رہنے پر مجبور ہو گئے جیسے کشمیر میں رہ رہے ہوں۔ مگر امید یہ تھی کہ ‘رہنما’ احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے ان سے کچھ نہ کچھ مطالبات منوا ہی لے گا۔

ہڑتالیں تو ٹھاکروں نے ہونے نہیں دیں اور احتجاجوں کو نشر ہونے سے روکنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حالات وہاں پہنچ گئے کہ جہاں رہنما کے پاس اپنے گمشدہ افراد کے لواحقین کو تسلی دینے کے لئے بھی کچھ نہ بچا۔ آخر کار ریاست الطاف حسین کو بھی اسی مقام پر لے آئی جس پر وہ اس سے قبل شیخ مجیب الرحمٰن اور نواب اکبر بگٹی کو لا چکی تھی۔ جو کچھ الطاف حسین نے پریس کلب کے بدنامِ زمانہ خطاب میں کہا دراصل وہ اس بات کا اعلان تھا کہ وہ مزید ان تضادات کو روکے رکھنے سے قاصر ہے۔ زبان تو الطاف حسین کی تھی مگر مردہ باد ان مائوں کی آہوں نے کہا تھا جن کے بچے گمشدہ ہیں۔ الطاف حسین پر تو آپ نے پابندی لگا دی مگر ان آہوں پر پابندی کیسے لگاؤ گے۔

لیکن اب کیا ہو گا! آپ نے ان کا ‘رہنما’ چھین کر ‘منزل’ کی جستجو دے دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارہ مکالمہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر کوئی اس مضمون کا جواب دینا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply