پولیس مقابلے ہونگے۔۔۔۔ عامر ہزاروی

رات ایک خبر پڑھی کہ کچھ کالعدم تنظیموں کے لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے ہیں ان میں شیعہ و سنی دونوں حضرات شامل ہیں۔

اس سے پہلے سرل المیڈا نے خبر دی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت میں زوردار بحث ہوئی عسکری قیادت نے سیاسی قیادت سے کہا کہ آپ کو جس پر اعتراض ہے اسے پکڑ لیجئے ہم بیچ میں نہیں آئیں گے اس خبر کے بعد جو ہوا اسکی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں مختلف دانشور کہہ رہے ہیں کہ سب نے اپنے اپنے پتے شو کر دیے ہیں میاں برادران فل لڑائی کے موڈ میں ہیں جبکہ عسکری قیادت نے بھی شٹ اپ کی کال دے دی ہے آگے کیا ہوتا ہے ؟ یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس وقت سیاسی قیادت کا پلڑا بھاری ہے فوج کے آنے کے امکانات کم ہیں حالات ایسے نہیں کہ فوج ٹیک اور کر سکے سیاسی قیادت نے پہلا کام کر دیا ہے کہ وہ لوگ جو فوج کی حمایت میں کھڑے تھے ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے ہیں۔

دیکھا جائے تو کافی عرصہ سے کالعدم تنظیمیں خاموش ہیں وہ ریاست اور ریاستی اداروں کیساتھ مکمل تعاون کر رہی ہیں جہادی جماعتیں کشمیر میں بھی کاروائیاں نہیں کر رہیں اور شیعہ سنی جھگڑا بھی کم ہوا ہے نعرے اور جلسے جلوس تقریبا ختم ہوگئے ہیں اس بار محرم میں مولانا لدھیانوی نے باقاعدہ ٹوئیٹ کیا کہ حکومت اہل تشیع کو مکمل سیکورٹی دے شیعہ سنی لڑائی ملک کے خلاف ہے یہ ایسا ٹوئیٹ تھا جس کا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ شیعہ مخالف جماعت کا سربراہ یہ ٹوئیٹ اور مطالبہ کرسکتا ہے ؟جب تصدیق کروائی تو یقین ہوا کہ جی ہاں یہ انہی کا ٹوئیٹ ہے اس کے باوجود ان لوگوں پہ کیوں ہاتھ ڈالا گیا؟

میاں صاحب کی حکومت نے ہاتھ ڈال کے پہلا قدم اٹھا دیا ہے انہوں نے عسکری قیادت اور دنیا کو پیغام دیا ہے کہ گڈ اور بیڈ کی تفریق نہیں چلے گی اب رد عمل کا انتظار ہے اگر کوئی ردعمل نہ آیا تو اگلا قدم پولیس مقابلوں والا ہوگا ردعمل آبھی نہیں سکتا اس لیے کہ ان جماعتوں میں اتنی طاقت نہیں کہ یہ ردعمل دے سکیں اور فوج ردعمل دیتی ہے تو سیاسی قیادت پتے کھلیتے ہوئے دنیا کو باور کروائے گی کہ ہم تو سب کو ختم کرنے چاہتے ہیں فوج رکاوٹ ہے فوج اس موقع پہ اپنے پاؤں پہ کلہاڑی کیوں مارے گی ؟ ان لوگوں کی پشت پہ کیوں کھڑی ہو گی ؟اب ان سربراہوں کے پاس تین راستے ہیں ایک یہ ہے کہ مرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور ملک اسحاق جیسے انجام کے لیے تیار ہوجائیں دوسرا راستہ یہ ہے کہ جلاوطنی اختیار کر لیں انہیں اپنے پاس بھی کوئی نہیں پناہ دے گا کون مسلمان ملک دنیا کی ناراضی اور دشمنی لے سکتا ہے ؟ تیسرا راستہ یہ ہے کہ فوج کی چھتری تلے پناہ لینے کی بجائے سیاسی چھتری تلے آجائیں.

سیاسی چھتری کیوں آئیں ؟ یہ سوال بہت اہم ہے میں عسکری چھتری سے نکلنے کی بات کیوں کر رہا ہوں اس کی کئی وجوہات ہیں اللہ کرے ہماری مذہبی قیادت یہ جان لے..

اس وقت آپ ملکی و بین الاقوامی صورت حال پہ نگاہ ڈالیں تو آپکو اندازہ ہو جائے گا کہ عسکری قوتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

اس وقت چائنہ کے ساتھ اقتصادی راہداری معاملات چل رہے ہیں کام جاری ہے آپکو یاد ہوگا کہ جب حافظ سعید نے یہ بیان دیا کہ اس روٹ کی حفاظت ہماری نوجوان کریں گے تو چینی قیادت نے اعتراض کیا کہ کالعدم جماعت کا سربراہ یہ بیان کیوں دے رہا ہے ؟ ایسے بیانات سے اجتناب کیا جائے یہ شور شرابہ مسائل پیدا کرے گا چائنہ ان چیزوں کا قائل ہی نہیں ہے چائنہ کی پالیسی تجارتی ہے وہ جنگ نہیں چاہتا اس نے ہانگ کانگ تجارت کے زور پہ اپنے ساتھ ملایا کسی عقل کے اندھے سے بھی پوچھو تو وہ کہے گا کہ تجارت کے لیے امن ضروری ہے. اور امن کے لیے عسکری جماعتوں کا وجود مستقل خطرہ ہے چائنہ تو کم از کم عسکری جماعتوں کا وجود برداشت کرے یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔

دوسرا اب ہمارا اتحادی روس ہے جن کے خلاف یہ جماعتیں بنائی گئیں تھی وہ شکست کھا کے یہاں سے چلا گیا . اب روس کے ساتھ فوجی تعلقات اچھے ہیں انکی فوج نے یہاں آکے مشقیں کی ہیں روس بھی کالعدم تنظیموں سے خائف ہے انکی موجودگی پہ روس بھی معترض ہے روس پرانے زخم نہیں بھولا . رہا ایران تو اس نے کھل کے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور یک جہتی کے لیے اپنی فوجیں مشقوں کے لیے بھیجی ہیں اور گوادر اور چاہ بہار میں حصہ دار بننے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے. رہ گیا افغانستان اور بھارت تو افغان سرزمین پہ بھی جنگ ختم سمجھیں اور بھارت کے ساتھ لڑنے کے لیے فوج موجود ہے ..ابھرتے کشمیری نوجوان کہتے ہیں کہ ہمیں باہر سے لڑائی کی ضرورت نہیں ہمارے لیے سیاسی طور پہ آواز بلند کی جائے جب صورتحال یہ ہو اور عسکری جماعتیں اپنی بقا فوج کی چھتری تلے سمجھیں تو اس سے بڑی ناعاقبت اندیشی اور کیا ہو سکتی ہے ؟

ان جماعتوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ یہ مل بیٹھ کے متفقہ فیصلہ کریں مولانا فضل الرحمن سے مشورہ لیں ایک قوت ہو کر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں بقا اسی میں ہے .. دیکھیں نا مولانا کی طاقت کم ہے لیکن وہ ضر

ہر حکومت کی ضرورت ہیں اور مولانا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کے باوجود بھی آگے بڑھ رہے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

بجائے اس کے کہ کسی اور کی چھتری تلے پناہ لی جائے یا اپنے کارکنوں کو مروایا جائے ان مخلص کارکنوں کو سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے الگ الگ سیاست کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا. الگ الگ سیاست کرنے کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا آپکو ہروا بھی دیا گیا اور کالعدم کا داغ بھی باقی ہے سپاہ صحابہ نے پنجاب میں کھلے عام نون لیگ کا ساتھ دیا لیکن آج وہی نون لیگ یہ کام کرنے جا رہی ہے دفاع پاکستان چلائی لیکن کچھ بھی نہ بنا اب کڑوا گھونٹ پینا ہو گا مولانا بہت برے ہی سہی لیکن مولانا طاقت کا استعمال تو نہیں کرتے نا. اپنوں کے ساتھ اب بیٹھنے کا وقت ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پولیس مقابلے ہونگے۔۔۔۔ عامر ہزاروی

Leave a Reply