• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بین المذاہب مکالمہ اورقرآن ۔۔۔۔۔۔۔محمد رضوان خالد چوہدری

بین المذاہب مکالمہ اورقرآن ۔۔۔۔۔۔۔محمد رضوان خالد چوہدری

اختلافِ رائے کا احترام میں نے کسی عالم کی بجائے اپنی ایک یہُودی ٹیچر سے اُس وقت سیکھا جب میں اسلام کے بارے میں ٹھیک سے جانتا بھی نہیں تھا۔ میری یہ خاتُون یہُودی ٹیچرعُمر کے ساٹھویں سال میں تھیں۔ میں انکے علم اور حکیمانہ انداز سے مُتاثّر تھا۔ ایک دن کسی کام سے انکے دفتر میں گیا تو ہر طرف ہزاروں کتابیں اور پیپرز بکھرے پڑے تھے۔ انہوں نے دو بار خُود چائے بنا کر مُجھے دی اور میرا انٹرسٹ دیکھتے ہُوئے اپنے ایک ریسرچ پروجیکٹ پر کام کرنے کی پیشکش کی جو میں نے قبول کر لی۔ میرے ہاں کہتے ہی انہوں نے اپنے دفتر کی ایک چابی مُجھے دے دی اور ہنستے ہُوئے کہا کہ بیٹھنے کی جگہ تُم خُود بنا لینا۔ میں نے سوچا کہ پہلے انکے دفتر کی صفائی ضروری ہے۔

مُجھے احساس تھا کہ ہر وقت تحقیق و تدریس میں مصرُوف ایسے اساتذہ کے پاس ان چیزوں کے لیے وقت نکالنا کہاں مُمکن ہے۔ میں نے اگلے دن سے انکے دفتر کو منظم کرنا شُروع کیا۔ یُونیورسٹی انتظامیہ سے بات کر کے پلاسٹک کے ریکس اور الماریاں لیں اور کتابوں اور پیپرز کو ترتیب سے لگانا شُروع کیا۔
صبح جیسے ہی یہ کمرے میں داخل ہوئیں تو کہنے لگیں کہ یہ تو تُمہاری جاب کا حصّہ نہیں ،نہ میرے پاس تمہیں پے کرنے کے لیے پیسے ہیں۔ میں نے کہا اسکے بدلے میں آپ روزانہ چائے پلایا کریں گی۔
اُس دن کے بعد میرا معمُول بن گیا کہ میں کلاس سے آدھا گھنٹہ پہلے انکے دفتر آجاتا اور صفائی کے بعد چیزیں ترتیب سے لگا دیتا، میری پہلی کلاس بھی اسی ٹیچر کے ساتھ ہوتی۔ میں انکا بیگ اُٹھائے انکے ساتھ ہی کلاس تک جاتا اور کلاس کے بعد انکے ساتھ ہی انکا بیگ اُٹھائے انکے دفتر آتا۔ یہ چائے بناتیں اور چائے پی کر ہی میں واپس جاتا۔

ایک دن انہوں نے کلاس میں کہا کہ اسلام میں پرفامینس مینجمنٹ کے حوالے سے کُچھ نہیں ملتا۔ میں نے کھڑے ہو کر انہیں ٹوک دیا۔
بحث ہُوئی اور میں احتجاجاََ کلاس سے باہر آگیا۔ اگلے دن صُبح انکے آفس بھی نہیں گیا ،کلاس میں آیا تو پرفامینس مینجمنٹ پر ایک کوئزہوا جس میں میری ٹیچر نے مُجھے تریسٹھ فیصد نمبر دیے۔ میں کلاس ختم ہونے سے پہلے ہی باہر نکلا اور ڈائریکٹر کے پاس جا کر اپنا کوئز ری چیک کرنے کی اپیل کی۔ اگلے دن میرا پیپر تین ٹیچرز نے ری چیک کیا اور میرے مارکس ان ٹیچر کی موجُودگی میں چُوراسی فیصد کر دیے گئے۔

میں باہر نکلنے لگا تو انہوں نے مُجھے آواز دے کر مصنُوعی غُصّے سے کہا اس بُوڑھی کا بیگ کون اُٹھائے گا۔ مُجھے کُچھ شرمندگی محسُوس ہُوئی۔۔ میں بیگ لے کر انکے ساتھ آیا۔ انہوں نے چائے بنائی۔
چائے کے دوران میں نے ان سے کہا آپ چار مضامین پڑھاتی ہیں لیکن اس مضمون میں ملٹی فیتھ پرسپیکٹیو ہے۔ آپ اپنے مذہب کے تعصُب کا شکار ہیں۔ میں آپکو مشورہ دوں گا کہ آپ یہ مضمون پڑھانا چھوڑ دیں۔
وہ کہنے لگیں کہ یہ بات کہنے کا صحیح فورم سٹُوڈنٹ ایپلیٹ کورٹ ہے۔تُم وہاں یہ مُعاملہ اُٹھاؤ۔
میں نے ایسا ہی کیا اور ساتھ میں ان سے وہ مضمون واپس لینے کے لیے سٹوڈنٹ ایپلیٹ کورٹ میں اپیل بھی کی جو منظور ہوئی۔
اُسکے ایک مہینے بعد رمضان شُروع ہُوا تو انہوں نے مُجھے تین مرتبہ افطاری پر بُلایا, میرے ساتھ جا کر ہر بار حلال گوشت خریدا تاکہ مُجھے شُبہ نہ رہے۔ ہماری اختلافی مُعاملات پر ہماری آج بھی علمی بحث ہوتی ہے۔ ہر سال میری برتھ ڈے ٹھیک رات بارہ بجے وِش کرتی ہیں۔

کاش ہمارے عُلماء بھی احترام ، اختلاف رائےاور تقلید کا یہی طریقہ سیکھ لیں جبکہ یہ ہمارا ہی طریقہ تھا۔
مُوسیٰؑ اور ھارونؑ بھائی بھی تھے اور نبی بھی۔ ھارونؑ کو مُوسیٰؑ کی دُعا پر اُنہی  کی مدد کے لیے نبُوّت ملی۔ دونوں کا مقصد ایک ہونے کے باوجُود اپروچ الگ تھی اور قُرآن ہی سے اُنکے صحت مندانہ اختلافِ رائے کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی اختلافِ رائے فطری مُعاملہ ہے۔ صحابہؓ کے اختلافِ رائے سے کون واقف نہیں۔ہر صحابیؓ کا دین کو سمجھنے کا اپنا طریقہ تھا۔ ابُوبکرؓ اور عُمرؓ ایک دوسرے سے اتنے مُختلف تھے جیسے ندی کے دو کنارے, علیؓ گویا ندی کی گہرائی, جبکہ ابو ذر غفّاریؓ اور عُثمانؓ کو آپ ایک دُوسرے کا مُتضاد کہہ سکتے ہیں۔ ان سب سمیت ہزاروں صحابہؓ کی دین سے مُتعلِق اپروچ ایک دُوسرے سے بالکُل الگ تھی۔
اسلامی تاریخ پڑھنے کے دوران ابھی تک میری نظر سے نہیں گُزرا کہ کسی صحابیؓ نے کسی دوسرے صحابیؓ پر کُفر کا شُبہ کیا ہو۔
فقّہ کے آئمّۂ کرامؒ میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے مُختلف فِقّہ لکھی۔
لیکن ایک دُوسرے پر کُفر کا شُبہ درکنارسبھی ایک دُوسرے کا نہ صرف احترام کرتے بلکہ ایک دُوسرے کے عشقِ رسُولﷺ کی اپنی مجلِسوں میں گواہی دیا کرتے۔
صحابہؓ اور آئمّہ کی حقیقی تقلید یہ ہے کہ اختلافِ رائے کے باوجُود نہ صرف ایک دُوسرے کو اپنے جیسا مُسلمان سمجھا جائے بلکہ وہی کیا جائے جو صحابہؓ اور آئمّہ نے کیا۔ صحابہؓ اور آئمّہ قُرآن و سُنّت سے اپنے وسائل کے دائرے میں اپنے دور کے مسائل کا حل ڈھونڈتے تھے۔

اُنکے تلاش کیے ہُوئے حل انہی کے ادوار کے لیے تھے۔ کسی صحابیؓ یا امام کی کسی مُعاشی ، سیاسی یا سماجی رائے کو قُرآن سمجھ لینا صفت میں بُت پرستی کے علاوہ کُچھ نہیں۔ کیونکہ مُعاشرہ بدل چُکا۔ وسائل اور مسائل بدل گئے۔
صحابہؓ اور آئمّہ تو پھر ہزار سال پہلے کامیاب زندگیاں گُزار کر دُنیا سے چلے گئے میرے پردادا جنھیں گُزرے ابھی پچاس سال بھی نہیں ہُوئے یقیناََ آج کی دُنیا کے مسائل کا حل تجویز نہیں کر سکتے تھے کیونکہ میرے پردادا نے کبھی اس گلوبل ویلیج کے حقائق کا تصوُّر بھی نہیں کیا ہوگا جس میں آج میں سانس لیتا ہُوں۔ میرے آج کے لیے میرے پردادا یا آئمّہ بُنیادی اُصُول ضرور سمجھا سکتے تھے اور وہ اُصول ایک لائن کا ہے۔
کہ اُنہوں نے بھی اپنے اپنے ادوار میں قُرآن سے اپنے موجُودہ مسائل کا اپنے موجُود وسائل کے تناظُر میں حل ڈھُونڈا مُجھے اور میرے بعد آنے والی ہر نسل کو اُنہی کی تقلید کرتے ہُوئے اپنے ادوار کے مسائل کا اپنے موجُود وسائل کے تناظُر میں قُرآن و سُنّت سے ہی حل ڈھُونڈنا ہے۔
تقلید تو یہی ہے۔۔۔اور اندھی تقلید یہ ہوگی کہ میں اپنے پردادا یا صحابہؓ اور آئمّہ کے کام کو وہیں روک کر اُنکے بتائے ہُوئے حل جو اُنکے ادوار کے لیے تھے اپنے دور پر چپساں کرنے کی کوشش کروں اور زندہ قُرآن کو نظرانداز کر دُوں جو ہر دور کے مسائل کا حل بتانے کے لیے میرے اُس سے مُکالمے کا مُتظر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایک ہی زمانے کے دو افراد قُرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو قُرآن سے اپنی اپنی کپیسٹی کے مُطابق سمجھیں گے اور اختلاف رائے پیدا ہونا یقینی ہے۔ لیکن اس اختلافِ رائے کو صحت مند علمی مُکالمے کی بُنیاد بننا چاہیے تفرقے کی نہیں۔
تنقید علمی مُکالمے کا بُنیادی جُزو ہے لیکن تضحیک اور مُخالف رائے رکھنے والے افراد کر کُفر کے فتوے ایک جاہلانہ روش ہے جو صرف نفرت کا باعث بنتی ہے۔
شیّعہ ، سُنّی، بریلوی ، دیو بندی، اہلِ حدیث، اہلِ قُرآن اور دیگر سب فرقوں کے وہ لوگ جو ختمِ نبُوّت پر یقین رکھیں فرقہ پرستی کی لعنت کا شکار ہونے کے باوجُود مُسلمان ہیں۔
یہ سب میرے جیسے اور میں ان جیسا ہی مُسلمان ہُوں۔
انٹر فیتھ ڈائلاگ شُروع کرنے کے لیے یہ ماننا ہو گا کہ ہر مُسلمان کی نیّت میری نیّت جیسی ہی قابلِ قدر ہے
البتّہ ہماری کپیسٹی کے فرق کی وجہ سے ہماری اپروچ الگ ہے۔
کسی کی اپروچ وزنی ہے کسی کی ہلکی
اور یہ فرق نیک نیّتی سے شُروع کیے گئے ڈائلاگ اور ریسپیکٹ سے ختم ہو گا۔
یاد رکھیے۔
ہمارا اللہ ایک۔
نبیﷺ ایک۔
قُرآن ایک
اور مقصد بھی ایک ہے
اور انہی مُشترک ایک کی بنا پر ہمارا اتحاد مُمکن ہے۔
اختلافِ رائے کو صحت مند رکھیے تاکہ اسکی برکت ظاہر ہو۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply