ہائیبرڈ بیج__اور___ہائیبرڈ نسل۔۔۔۔۔ ملک بلال 

ہمارے ساتھ دوہرا ہاتھ ہوا ہے ہمارے نوجوان کڑیل بانکے سجیلے ہوا کرتے تھے دیسی گھی اور خالص دودھ سے پلے چالیس سال تک تو جوان ہی رہتے. دور کیوں جائیں میرےوالد محترم کے پینسٹھ کے پیٹے میں بھی سر کے بال سیاہ ہیں پھر ناجانے کس کی نظر کھاگئی اور وہ زمینیں جن کے سینے پہ گندم,چاول اور گنا اگتے دیکھا تھا ٹنل فارمنگ کی نظر ہوگئیں .بے موسمی پھل اور سبزیاں جہاں خوشحالی لائیں وہیں بہت کچھ اپنے ساتھ بہا کے لے بھی گئیں جہاں یہ سب ہمارے لیے نیا تھا وہیں بڑے بزرگوں کے لیے حیرانگی کا باعث بھی تھا اور انہیں یہ سب ہضم کرنے میں بھی دقت پیش آرہی تھی اور وہ کہتے پائے جارہے تھے کہ

“دیسی شے دیسی ای ہوندی اے ایہہ پھوگ دا بھلا کیہہ مقابلہ دیسی سبزیاں نال”

دادا جان کا وہ مشہور جملہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے کہ پُتر اِس برائلر سے تو جانوروں کو ڈالنے والے بھوسے پر بندہ شکر ڈال کے کھا لے تو زیادہ مفید ہے

یہ بات محض سبزیوں تک ہی محدود رہتی تو شائد بزرگ قبول کر لیتے لیکن یہاں ہماری پوری نسل ہائیبرڈ ہوئی پڑی ہے .

جی ہاں یہاں بھی ہمارے ساتھ ہاتھ ہوا ہے ہماری نئی نسل ہائیبرڈ سبزیاں اور گوشت کھا کے اپنی تہذیب,تمدن اور ثقافت بھول گئی ہے حلوے مانڈے کی جگہ برگر، شوارما لے چکے ہیں .پیتل کے کلو کلو والے گلاس قصہ پارینہ ہوئے اب تو چھٹانک چھٹانک کے ڈسپوزایبل گلاس بڑے بزرگوں کا منہ چڑاتے نظرآتے ہیں

مجھے فیصل آباد کی وہ شام کبھی نہیں بھولتی جب ایک دوست کے ڈیرے پر رات کا کھانا کھا کے بیٹھے گپ شپ کررہے تھے کہ دیہاتی رواج کے مطابق گھر سے مہمانوں کے لیے دودھ آیا تو وہاں بیٹھے ایک “بابے” نے دودھ پینے سے انکار کردیا استفسار پہ بڑے کَرب سے بتایا کہ بیٹا اماں جی(دوست کی دادی) کے دور میں ایک گلاس سے ہی پیٹ بھر جایا کرتا تھا

اب یہ شیشے کی چھوٹے چھوٹے گلاس ہیں دو سے گزارا نہیں ہوتا اور تین پینا بد تہذیبی تصور کیا جاتا ہے اس سے نا پینا ہی بہتر ہے.

مہمان نوازی جو دیہات کا کلچر ہوا کرتا تھا لوگ طاق نسیاں میں ڈال کر شہروں کو چلے گئے ہاں البتہ جہاں کہیں پرانے بزرگ ابھی حیات ہیں یہ چراغ ٹمٹماتا نظر آتا ہے.

ہم نے جہاں بہت ترقی کرلی ہے وہاں ہم اپنی ثقافت کو بھی بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں .شائد ایسے ہی کسی موقع کے لیے شاعر مشرق فرما گئے تھے

آئینِ نو سے ڈرنا____ طرز کہن پہ اڑنا

Advertisements
julia rana solicitors

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply